مٹلڈا ایفیکٹ یا میتھیو ایفیکٹ کیا ہے؟


ہر انسان ایک دماغ لے کر پیدا ہوتا ہے جس کو استعمال کر کے ہم کچھ بھی سیکھ سکتے ہیں۔ خواتین، مرد یا ٹرانس جینڈر افراد سب سائنس سیکھنے اور کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ صنف ایک معاشرتی اسٹرکچر ہے جس کا کسی بھی انسان کی سماجی صلاحیتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پچھلی صدی کی شروعات تک ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ خواتین کے زیادہ تعلیم حاصل کرنے سے ان میں خون کا بہاؤ بچہ دانی سے دماغ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور وہ بچے پیدا کرنے کے لائق نہیں رہتی ہیں۔ جب سائیکل نئی ایجاد ہوئی تھی اور خواتین اس پر بیٹھ کر کہیں آنے جانے لگیں تو ایک فرضی بیماری کے بارے میں خوف پھیلایا گیا کہ سائیکل چلانے سے خواتین کو بائسیکل فیس کی بیماری ہوجاتی ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔

”خواتین کی سائنس میں خدمات کم کیوں ہیں؟“ یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے۔ آج ہم مٹلڈا ایفیکٹ اور میتھیو ایفیکٹ کے بارے میں سیکھیں گے۔ سائنس کی تاریخ کو پڑھنے سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ خواتین سائنسدانوں کی تاریخی اور عصری کہانیوں کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے جنہیں نظر انداز کیا گیا ہے، ان کی خدمات اور ایجادات کا ان کو کریڈٹ دینے سے انکار کیا گیا ہے یا بصورت دیگر نظروں سے گرا دیا گیا ہے۔ چونکہ دنیا کا لکھا ہوا مواد 99.5 ٪ مردوں نے لکھا ہے، اس میں جنس سے منسلک تعصب موجود ہے، جیسا کہ طب، مذہب، قانون، فلسفے، آرٹ کی تاریخ اور ادبی شعبوں میں دستاویز کیا گیا ہے۔

سائنس کی دنیا میں ان خواتین سائنسدانوں کی محنت اور ایجادات کی مردوں کے ہاتھوں چوری اور ان کے نام تاریخ سے مٹا دینے کو ’میتھیو ایفیکٹ‘ یا ’مٹلڈا ایفیکٹ‘ کہتے ہیں۔ مٹلڈا جی گیج نیویارک میں ایک متحرک فیمینسٹ تھیں جن کے نام سے یہ کانسیپٹ مشہور ہے۔ رابرٹ کے مرٹن نے یہی خیال میتھیو ایفیکٹ کے طور پر پیش کیا۔

ہم جانتے ہیں کہ کافی خواتین توجہ یا اپنے کام کا معاوضہ حاصل کرنے کے لیے مجبوراً مردانہ سوڈو نام یعنی کہ نقلی ناموں سے لکھتی رہی ہیں۔ پچھلے دو ہزار سال کی لکھی ہوئی تاریخ میں انسانی معاشرے نے خواتین کو خاموش کیا ہے۔ اگر سوچیں تو یہ بالکل ناممکن ہے کہ ہر ایجاد، دریافت، ادبی کام یا فن پارے کے لیے ایک سفید فام آدمی کا ہی شکریہ ادا کریں جن میں خواتین اور بقایا اقوام کے افراد کا بھی حصہ ہے۔ تاریخ کی کتابیں سفید فام آدمیوں کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں جو انسان کو معلوم ہر عظیم چیز کو دریافت اور ایجاد کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اس تاریخ میں عورتیں کہاں ہیں؟ اگر آپ گہری نظر ڈالیں اور کافی تحقیق کریں، تو آپ کو معلوم ہو گا کہ خواتین اکثر ان تاریخی مقامات میں موجود ہیں۔ انہیں صرف اس کا کریڈٹ نہیں ملا۔ روایتی طور پر، خواتین کے کردار گھریلو اور ماں کے ہوتے ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں ہی خواتین کو سیاسی، سماجی اور سائنسی شعبوں میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے اور مردوں کی مدد کے بغیر ان کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسی مثالیں آج کی دنیا میں بھی ہمارے سامنے ہیں جب ایک سائنسدان جوڑا مل کر کچھ دریافت یا ایجاد کرے اور ان کو کوئی انعام ملے تو یوں لکھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر فلاں اور ان کی بیوی نے یہ ایجاد کی۔ حالانکہ وہ اس طرح بھی لکھ سکتے تھے کہ ڈاکٹر فلاں اور ان کے شوہر نے یہ ایجاد کی۔

آج بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دعوت ناموں پر لکھا ہو کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیگم مدعو ہیں۔ حالانکہ ان کی بیگم بھی ڈاکٹر ہو سکتی ہیں یا ہو سکتا ہے کہ بیگم ڈاکٹر ہوں اور صاحب نہ ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان ایشیاء میں سب سے زیادہ خواتین ڈاکٹر بناتا ہے۔ ڈاکٹر بننے کے بعد یہ خواتین کہاں جاتی ہیں؟ ان کو خاندان روایتی ماں، بیوی اور بہو بننے پر مجبور کرتے ہیں اور ان کا کیریر، ایک غریب ملک کے وسائل اور مریضوں کا نقصان کرتے ہیں۔

مندرجہ ذیل اہم سائنسی دریافتیں، ایجادات، فن اور ادب کے کام ہیں جو خواتین کے ذریعے ممکن ہوئے لیکن مردوں نے اس کا سہرا لیا۔

1953 میں ڈبل ہیلکس کی دریافت کا سہرا براہ راست جیمز واٹسن اور فرانسس کرک کو دیا گیا۔ ڈبل ہیلکس ڈی این اے مالیکیول کی ساخت کی وضاحت ہے۔ ایک ڈی این اے مالیکیول دو تاروں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے گرد گھما ہوا سیڑھی کی طرح گھومتا ہے۔ دونوں کناروں کو ان کے درمیان بانڈز کے ذریعے ایک ساتھ رکھا جاتا ہے، ایڈنائن، تھایامین کے ساتھ بیس جوڑا بناتا ہے، اور سائٹوسین، گوانائن کے ساتھ بیس جوڑا بناتا ہے۔ آج کل ایک اوسط انسان کو یہ باتیں معلوم ہیں کیونکہ گزشتہ 60 سالوں میں ہماری معلومات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جب اس بات کو نیا دریافت کیا گیا تھا تو یہ سائنسی برادری کے لیے اہم تھا۔ کس طرح اس علم نے بہتر طبی علاج، نئی دوائیں اور بیماریوں کی بہتر تشخیص میں مدد کی ہے، یہ سب باتیں ہمارے سامنے ہیں۔ ڈی این اے کی دریافت سے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، کھانے کی اشیاء کی غذائیت کو بڑھانے میں مدد مل رہی ہے، اور بہت سی بیماریوں میں متبادل ٹشوز تیار کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

یہ بڑی سائنسی دریافت روزالنڈ فرینکلن کے ذریعے ہی ممکن ہوئی۔ برطانوی کیمسٹ اور ایکس رے کرسٹاللوگرافر روزلینڈ فرینکلن 1951 میں لندن کے کنگز کالج میں ڈی این اے کے مطالعہ میں مصروف تھیں جب انہوں نے ایک اہم تصویر تیار کی۔ ایک ساتھی نے بغیر اجازت واٹسن اور کرک کو یہ تصویر دکھائی۔ یہ واٹسن اور کرک کی تحقیق میں ایک اہم موڑ تھا اور جب انہوں نے 1953 میں اپنے زمین کو ہلا دینے والے نتائج شائع کیے، تو انہوں نے فرینکلن کی شراکت کا صرف گزرتا ہوا حوالہ دیا۔ روزالنڈ فرینکلن کے رحم کے کینسر سے لڑنے کے بعد انتقال ہو جانے کے چار سال بعد واٹسن اور کرک کو 1958 میں ڈبل ہیلکس کے اسٹرکچر کی اہم دریافت پر نوبل انعام ملا تھا اور تمام دنیا ان دونوں کو ہی اس ابتدائی دریافت کے لیے جانتی ہے۔

کیتھرین جانسن ان مٹھی بھر افریقی امریکی خواتین میں سے ایک تھیں جنہیں ورجینیا میں لینگلی کے ریسرچ سینٹر میں گائیڈنس اور نیویگیشن ڈیپارٹمنٹ میں کمپیوٹنگ کے لیے رکھا گیا تھا۔ کیتھرین جانسن کی طرح کی خواتین نے نسل پرستی اور صنف پرستی دونوں کا مقابلہ کیا۔ جیسا کہ جانسن نے 2011 میں پبلک ٹیلی ویژن کو بتایا، ان کے کام نے خود ہی بات کی، اور وہ ناسا میں صفوں اور درجوں میں بڑھ گئیں۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر کیتھرین جانسن ایک قابل احترام شخصیت بن گئیں اور بہت سے خلاباز ٹیک آف کرنے سے پہلے یہ یقین کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ جانسن نے تمام نمبروں کی تصدیق کر لی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں اپنے کام کے لیے مناسب کریڈٹ مل گیا۔

1962 میں، جانسن اور انجینئر ٹیڈ اسکوپینسکی مداری پرواز پر خلائی جہاز کو لانچ کرنے، ٹریک کرنے اور چلانے اور مخصوص مقام پر اترنے کے لیے مساوات پر کام کر رہے تھے۔ اس رپورٹ میں مساواتیں (جو زیادہ تر جانسن کی مساواتیں تھیں ) نے مئی 1961 میں امریکہ کی پہلی خلائی پرواز اور فروری 1962 میں امریکہ کے پہلے مداری مشن کے لیے ریاضیاتی ریڑھ کی ہڈی فراہم کی۔ یہ اس پراجیکٹ کا ایک اہم حصہ تھا۔ اور خاص طور پر 1960 میں ایک کالی خاتون کے لیے اس کے کریڈٹ کا دعویٰ کرنا ایک اہم بات تھی۔ کیتھرین جانسن نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ان کے سپروائزر، ہینری پیئرسن، خواتین کے مداح نہیں تھے اور انہوں نے 1960 میں جانسن کے مرد ساتھی اسکوپینسکی کو یہ رپورٹ ختم کرنے اور اس پر اپنا نام لکھنے کے لیے دباؤ ڈالا لیکن اسکوپینسکی نے اصرار کیا کہ کیتھرین جانسن ہی وہ کام ختم کریں کیونکہ انہوں نے زیادہ تر کام کر لیا تھا۔

ویرا روبن ایک ایسٹرو فزسسٹ تھیں جنہوں نے فضا میں ڈارک مادے کے وجود کو بیان کیا۔ ویرا روبن خواتین کے فلکیات اور انسانی سماج میں برابر کے مرتبے کی حامی تھیں۔ وہ دیگر خواتین کے لیے ایک رول ماڈل ہیں جنہوں نے خواتین کے خلاف روایات کے باوجود فلکیات کے مشاہدے کی سائنس میں کامیابی حاصل کی۔ روبن کو سب سے زیادہ اسپائرل کہکشاؤں میں دلچسپی تھی۔ ستاروں کی کہکشاؤں کے مرکز کے گرد رفتار ناپنا اور ڈارک میٹر کی تھیوری کو ثابت کرنا ان کا سب سے اہم کام سمجھا جاتا ہے۔

روبن نے خلاباز کینٹ فورڈ کے ساتھ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں کام کیا جس دوران انہوں نے کہکشاؤں سے باہر ستاروں کی حرکت کی وجہ دریافت کی۔ روبن کو ایک قومی خزانہ تو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ان کو نوبل انعام نہیں دیا گیا کیونکہ فورڈ نے ان کے کام کا سہرا اپنے سر لگا لیا۔

بہت سارے فلسفے ہزاروں سال سے دنیا میں مشہور ہیں جن کے ناموں کو یورپی سفید فام آدمیوں کے نام سمجھا جاتا ہے لیکن اس دائرے میں مزید چھان پھٹک سے ان کے پیچھے خواتین کا ہاتھ ملا ہے۔ ان خواتین سائنسدانوں کی فہرست بہت لمبی ہے جن کے نام گمنام ہیں اور ان کو وہ عزت نہیں ملی جس کی وہ حقدار تھیں۔ اس لیے آج کے بعد جب بھی کوئی سائنس کی دنیا میں یہ سوال اٹھائے کہ سائنس میں خواتین کا حصہ کم کیوں ہے تو آپ ان کو مٹلڈا ایفیکٹ یا میتھیو ایفیکٹ کا شکار سمجھ سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments