ارشد شریف: انقلاب کا ضامن شہید


غرور ٹوٹ گیا مگر کوئی مرتبہ نہ ملا
ستم کے بعد بھی کوئی حاصل وفا نہ ملا
سر حسینء ملا ہے یزید کو لیکن
شکست یہ ہے کہ پھر بھی جھکا ہوا نہ ملا

ارشد شریف حقیقی معنوں میں رسول اللہ ﷺ کے امتی اور امام حسینء کے پیروکار ہونے کا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ باطل کے آگے جھکنے سے سر کٹوانے کو ترجیح دی۔ ارشد شریف کسی ایک فرد کا نام نہیں، وہ ایک ایسے تحریک کا نام تھا، جو خیانت، بدعنوانی اور بے ضمیری کے آگے سیسہ پلائی دیوار تھے۔ قانون کی حکمرانی، ملک کی ترقی اور پاکستانی شہریوں کے اجتماعی مفادات کی خاطر جان دینا گوارا سمجھا پر اپنے نظریے پے سمجھوتہ نہیں کیا۔

وہ اپنے کام، اپنی باتوں اور اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا، حقیقی معنوں میں ہیرو کون اور کیسا ہوتا ہے۔ عام طور پہ لوگ فلموں میں کام کرنے والوں کو ہیرو سمجھتے ہیں، لیکن اس ایک شخص نے ”کسی کو ہیرو ماننے کا زاویہ ہی تبدیل کر دیا“ ۔ جس انداز اور بہادری سے ارشد نے موت کو گلے لگایا، اس سے پتہ چلا، جو فلموں میں کام کرتے ہیں وہ ہیرو نہیں فنکار کہلاتے ہیں۔ اصلی ہیرو تو وہی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی، اپنا خاندان، اپنے دنیاوی مسائل کو پس پردہ ڈال کے اپنے ملک کی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔

جو بکنے اور جھکنے پے موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے ہیرو کو دنیا سے مٹایا جاسکتا ہے البتہ لوگوں کی دلوں سے ہرگز نہیں۔ ایسے ہیرو بہت ہی شاذونادر پیدا ہوتے ہیں اور یہ کبھی مرتے بھی نہیں۔ ایسے ہیرو بہت ہی پاک دامن، انتہائی مضبوط اعصاب کی ملکہ اور ایک ایمان والی ماں کی کوکھ میں جنم لیتے ہیں۔ ایسا ہی مثال ارشد شریف شہید کا ہے۔ بحیثیت قوم ہم ارشد شریف کے ذرا بھی مستحق نہیں۔ اس حوالے سے حبیب جالب نے کیا خوب لکھا ہے۔

نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
اور فوج کا راج ہی سچا ہے
کھوتا گاڑی والا کیوں مانے
جب بھوکا اس کا بچہ ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

ارشد شریف کون تھے؟

22 فروری سنہ 1973 کو ایک فوجی گھرانے میں جنم لینے والے اس بے باک ہیرو نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ گورڈون ڈگری کالج راولپنڈی سے میڈیا سائنس میں گریجویشن کیا، پھر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم پی اے کی ڈگری حاصل کی۔ انگلینڈ کے معروف السر یونیورسٹی سے میڈیا سائنس میں دوبارہ ماسٹر کیا۔ پروفیشنل زندگی کے ابتدائی دنوں میں بحیثیت رپورٹر مختلف چینلز کے ساتھ منسلک رہے۔ پھر دنیا نیوز اور آج نیوز کے ساتھ بحیثیت ڈائریکٹر نیوز وابستہ رہے۔

2012 سے 2014 تک ڈان نیوز کے ساتھ بحیثیت بیورو چیف اسلام آباد کام کیا ۔ 2014 کو اے آر وائی نیوز جوائن کیا اور ”پاور پلے“ کے نام سے اپنا پروگرام شروع کیا۔ آپ اپنی محنت، لگن، قابلیت، مہارت، دیانتداری اور دلیری سے صحافیوں کا عام آدمی کے دماغ جو تصور اور خاکہ بنا ہوا تھا، اسے مکمل تبدیل کیا اور ایسے کام کیے کہ مافیاز، کرپٹ اور بدنما عناصر کو دن کو تارے نظر آنے لگی۔ انتہائی قلیل عرصے میں اتنا نام کمایا کہ پوری دنیا میں آپ کا پروگرام ”پاور پلے“ ہر سچے پاکستانی کا انتخاب بن گیا اور خاص کر آپ کے پروگرام شروع کرنے کا انداز ”پاکستان اور دنیا بھر سے دیکھنے اور سننے والوں کو ارشد شریف کا سلام“ اتنا مقبول ہوا کہ ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا پر آپ کا نقل اتارتے دکھائی دیے۔

ارشد شریف کا قصور کیا تھا؟

ارشد شریف کا قصور یہ تھا، وہ اس ملک میں آئین کی حقیقی معنوں میں بحالی کی بات کرتے تھے۔ آپ کا قصور یہ تھا، آپ عدلیہ، میڈیا، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ آپ کا قصور یہ تھا، آپ اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی بات کرتے تھے۔ آپ کا قصور یہ تھا، آپ کرپٹ مافیاز کے بدعنوانی کا سراغ لگانے میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کا قصور یہ تھا، آپ کرپشن کو اس ملک کے لئے ناسور سمجھتے تھے۔

ارشد شریف کا قاتل کون؟

اس سوال کا جواب بآسانی ان ہی سوالوں میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ ارشد شریف کو اپنا ہی ملک چھوڑ کر ہجرت کیوں کرنا پڑا؟ وہ کون تھا، جو ارشد شریف کو اپنے ہی ملک میں رہنے کی ان کے اس بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم کیا؟ وہ کون تھا، جو ارشد شریف کو گمنام نمبروں سے کال کر کے گالیاں دیتا تھا اور جسے ارشد شریف شہید سمیت چند اور صحافی گنجا شیطان کی لقب سے یاد کرتے ہیں؟ وہ کون تھا، جو ارشد شریف کو اس ملک میں ایک مخصوص طبقے کی بدنما کرتوتوں پے بولنا بند نہ کرنے پے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیتا رہا؟

لیکن ظالمو یاد رکھنا، حضرت علی کا قول ہے ”کفر کا نظام چل سکتا پر ظلم کا نہیں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments