ملالہ کی کتاب سے ماخوذ: ہم دیس سے نکالے گئے لوگ


ایک چھوٹی بچی کے لئے جنت کا تصور کیا ہو سکتا ہے؟ ہر طرف سبزے کی چادر، بہتی ندیاں اور دریا، برف سے ڈھکے ارد گرد کے پہاڑ! اگر یہی جنت ہو سکتی ہے تو یہی اس کا گھر، قصبہ اور جائے پیدائش تھی۔ تبھی تو لوگ اسے مشرق کا سوئٹزرلینڈ کہتے تھے۔ اس بچی کا بچپنا اسی جنت میں تھا۔ اچانک ایک خوفناک زلزلہ آیا اور بہت سے گھروں کو زمین بوس کر دیا۔ کئی لوگ مرے اور زخمی ہوئے۔ اس دوران بہت سی امداد بھی آئی لیکن جن مذہبی اداروں اور جماعتوں نے امداد دی انہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی جتلانا شروع کر دیا کہ یہ زلزلہ ہماری گناہوں کا نتیجہ تھا۔

اس کے بعد ان مذہبی تنظیموں کا راج شروع ہوا۔ خواتین کو زبردستی برقعے پہنائے گئے، موسیقی اور فلموں پر پابندی لگ گئی اور یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ لڑکیوں کی تعلیم غیر اسلامی ہے۔ جلد ہی ان سے کئی درجے زیادہ تشدد پسند طالبان نے لمبی داڑھیوں اور سیاہ پگڑیوں کے ساتھ نمودار ہونا شروع کر دیا۔ بازاروں میں گشت شروع ہوا۔ اور سوات کے امن پسند شہریوں میں دہشت پھیل گئی۔

اس بچی کا پہلا تجربہ طالبان سے اس وقت ہوا جب وہ گاڑی میں ماموں کے ہاں شانگلہ جا رہی تھی۔ انہوں نے گاڑی میں گانوں کی سی ڈی لگائی ہوئی تھی۔ اچانک سامنے سے سے روڈ بلاک نظر آئی جہاں طالبان کلاشنکوفوں سے مسلح گاڑیوں کی تلاشی لے رہے تھے۔ بچی نے فوراً تمام سی ڈیز امی کے پرس میں چھپا دیے۔ ایک طالب قریب آیا اور سی ڈیز کے بارے پوچھا۔ پھر پچھلی کھڑکی میں جھانکا اور اس بچی کو ڈانٹا کہ چہرہ چھپا لو۔ وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ کیوں، لیکن کلاشنکوف کی نالی کے سامنے چپ رہی۔ یہ اب واضح ہو چکا تھا کہ سوات اب وہ امن کا گہوارہ نہیں رہا تھا۔ اور حالات مزید خرابی کی طرف بڑھ رہے تھے۔

جب یہ بچی گیارہ سال کی ہوئی تو طالبان نے بجلی بند کردی، لڑکیوں کے سکولوں پر پابندی لگادی۔ اور ہر اس شخص کو نشانہ بنانے لگے جو ان کے خلاف بولتے۔ سکولوں اور پولیس سٹیشنوں کو بموں سے اڑانے لگے۔ سکول کی بندش سے اس بچی کو اپنے مستقبل کے بارے خطرے نظر آنے لگے۔

2009ء میں حکومت نے طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کا اعلان کیا اور تمام شہری آبادی کو سوات سے نکلنے کا حکم دیا۔ اس دوران دوسروں کی طرح یہ بچی بھی خاندان کے ہمراہ علاقہ بدر ہوئی۔ کبھی گندھے ہوٹلوں میں، کبھی ایک رشتہ دار کے گھر اور کبھی دوسرے رشتہ دار کے گھر پناہ لیتے رہے لیکن کبھی ایک جگہ نہ ٹک سکے۔ کیا بے آسرا زندگی تھی۔ تین ماہ میں فوج نے طالبان کو سوات کے اہم مقامات سے دھکیل دیا اور شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی۔ طالبان نے وقتی شکست کھائی تھی لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے۔ اچانک نمودار ہوتے اور اپنے نشانے کو مارتے، بم پھینکتے اور غائب ہو جاتے۔

سوات سے ہجرت سے قبل یہ بچی ریڈیو اور بی بی سی پر لڑکیوں کی تعلیم بارے بولتی تھی۔ اب کے جو واپس آئی تو اب وہ بھی طالبان کے نشانے پر تھی اور ایک دن جب وہ سکول جا رہی تھی، ایک طالب نے اسے سر میں گولی مار دی۔ اگلے تین دن وہ ایک ہسپتال سے دوسرے اور تیسرے ہسپتال پہنچتی رہی حتیٰ کہ برمنگھم میں ایک ہسپتال داخل ہوئی۔ تین ماہ بعد جب ہسپتال سے خارج ہوئی تو پورے خاندان نے از سر نو اپنی زندگی شروع کی۔ شروع شروع میں تو اسے یہ فیصلہ کرنے میں دشواری ہوئی کہ اب ساری زندگی پردیس میں گزرے گی۔ لیکن اپنے ملک میں اب بھی اس کی زندگی خطرے میں تھی۔ اب اسے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت بارے لکھنے میں تردد تھا لیکن پوری دنیا سے ہزاروں خطوط نے اسے حوصلہ دیا اور اس نے پھر سے وہی کام شروع کر دیا۔

2015ء میں امریکی ڈائریکٹر ڈیوس گگن ہائم نے اس بچی پر ایک ڈاکومنٹری بنائی ”اس نے میرا نام ملالہ رکھا“ ۔ ملالہ نے ان کے ساتھ دنیا کا ٹور کیا۔

ہر جگہ بے شمار نوجوانوں نے سوالات کیے لیکن میناپولس امریکہ میں یمن کی ایک لڑکی زینب کی داستان ملالہ سے ملتی جلتی تھی۔ زینب اور سبرین دونوں یمن کی باسی تھیں۔ ان کی ماں انہیں دادی کے پاس چھوڑ گئیں اور خود امریکہ میں میناپولس میں ہجرت کر گئی۔ تاہم کچھ ہی عرصے بعد دادی کو گرنے سے شدید چوٹ آئی اور وہ فوت ہو گئیں۔ زینب نے ماں کو فون کیا تو انہوں نے بیٹیوں کو فوراً مصر میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جاکر امریکی ویزے کے لئے درخواست دینے کو کہا۔ زینب خوش قسمت نکلی اور وہ جلد ہی میناپولس میں امی سے جا ملیں۔ وہاں اسے سکول میں بے شمار مسلمان لڑکیاں ملیں جنہوں اپنی بساط سے بڑھ کر اسکی مدد کی۔ ایک صومالی لڑکی آسماء نے اس کی ہمت بندھائی اور وہ دونوں بہترین سہیلیاں بن گئیں۔

زینب کے مقابلے میں سبرین اتنی خوش قسمت نہیں نکلی۔ اسے امریکی ویزا نہ مل سکا اور وہ غیر قانونی ذریعے سے ایک سے دوسری کشتی میں سفر کرتی رہی کہ اٹلی کے قریب انہیں ریڈ کراس کے جہاز نے بچا لیا۔ اٹلی سے انہیں نیدرلینڈ کے مہاجر کیمپ میں منتقل کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ بیلجیئم پہنچیں جہاں جلد ہی ایک مسلمان نوجوان سے منگنی ہو گئی لیکن اس کی حیثیت اب بھی غیر قانونی ہے۔

ملالہ کی دوسری یادگار ملاقات اردن میں مہاجر کیمپ ذاتری میں ایک شامی مہاجر لڑکی مزون سے ہوئی۔ وہ بھی ملالہ کی طرح سکول پڑھ رہی تھی کہ 2011ء میں شام پر بمباری شروع ہوئی۔ سکول بند ہو گئے اور مزون کے گھر والے محصور ہو کر رہ گئے۔ بالآخر وہ بھی بارڈر کراس کر کے اقوام متحدہ کے تحت اردن میں ایک مہاجر کیمپ میں منتقل ہو گئے جہاں ایک چھوٹے سے خیمے میں یہ آٹھ افراد کا گھرانا رہنے لگا۔ اس میں نہ بجلی تھی اور نہ فرنیچر۔

لیکن مہاجر ہونے کا مطلب مکمل بے بسی نہیں ہے۔ مزون کو سب سے زیادہ فکر لڑکیوں کی تعلیم کیتھی جبکہ کیمپ کے زیادہ تر افراد اس کے خلاف تھے۔ مزون نے تحریک شروع کی تو ایک سترہ سالہ لڑکی کے والد نے پہلے ہی سے اس کی شادی ایک چالیس سالہ شخص سے طے کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ تاہم مزون نے اس لڑکی کو قائل کیا کہ وہ اپنے والد سے پڑھائی کے بارے بات کرے۔ اگلے دن اس لڑکی نے پڑھنا شروع کیا۔ یوں چراغ سے چراغ جلتا گیا اور مزون ایک شمع کی مانند روشنی پھیلاتی رہی۔

اسی طرح نجلہ عراق میں ایک یزیدی مسلک سے تعلق رکھتی تھی اور بہت کم عمری ہی سے پڑھنے لکھنے کی خواہش رکھتی تھی۔ تاہم اس کے والد اس کے خلاف تھے۔ ابتدائی کلاسوں میں تو اجازت مل گئی لیکن بعد میں والد نے سکول سے اٹھوا لیا۔ وہ گھر سے بھاگ کر قریبی پہاڑوں میں چھپ گئی۔ جب پانچ دنوں بعد نڈھال حالت میں آئی تو والد نے پڑھنے کی اجازت دی۔ لیکن کچھ وقت بعد ہی آئی ایس آئی ایس نے ان کے علاقے پر دھاوا بول دیا تو رات کی تاریکی میں ایک گاڑی میں خاندان کے اٹھارہ افراد بھاگ نکلے اور کردستان کے ایک ویران بلڈنگ میں سو دوسری خاندانوں کے ساتھ پناہ لی۔ یہاں بھی نجلہ کی علم کی طلب کی شمع بجھی نہیں۔ وہ اب بھی کالج کے خواب دیکھا کرتی تھی۔ اس نے شوقیہ دوسری بچیوں کو پڑھانا شروع کیا۔ ملالہ اس سے ملی تو اس کے حوصلے سے بڑی متاثر ہوئی اور 2017ء میں جب اقوام متحدہ میں ملالہ کو خطاب کی دعوت ملی تو ان کے ساتھ دو لڑکیوں میں سے ایک نجلہ تھی۔

ماریہ کولمبیا کے ایک گاؤں میں بے فکری کی زندگی گزار رہی تھی۔ اس کی یادیں میٹھے آموں اور پھولوں کی خوشبو سے بھری ہوئی تھیں۔ لیکن جب وہ چار سال کی تھی تو ایک دن اسکی ماں دوسرے بچوں سمیت ماریہ کو لے کر جلدی میں کولمبیا کے ایک بڑے شہر میں چلی گئی۔ اس نے بچوں کو بتایا کہ ان کے والد بعد میں آئیں گے۔ جبکہ اصل میں گزشتہ شب کسی نے ان کو گولی مار دی تھی۔ شہر میں ماریہ اپنی ماں کے ساتھ کچی آبادی میں رہنے لگی۔ یہ وہ دن تھے جب کولمبیا میں انار کی پھیلی ہوئی تھی۔

ہر طرف فائرنگ عام تھی اور ہوئی گولیوں سے بچنا بھی ایک معجزہ تھا۔ ماریہ کی ماں نے دوسروں کے کپڑے دھو دھو کر کھانے کا بندوبست کیا۔ ایک مخیر ادارے انہیں ایک بوسیدہ مکان میں منتقل کیا۔ گو کہ بارش میں اس کی چھت ٹپکتی تھی لیکن ماریہ کے خاندان کے لئے یہ ایک نعمت سے کم نہ تھا۔ اس دوران ماریہ کو اس کی ماں نے ایک تھیٹر میں بھرتی کیا اور دوسری بچیوں کے ساتھ وہ گھر سے نکالے جانے کی کہانیوں پر ڈرامے بناتی۔ سولہ سال کی عمر میں ماریہ نے ایک ڈاکومنٹری بھی بنائی۔ ماریہ اب تک کئی گھر اور شہر بدل چکی ہے لیکن اس کے ذہن سے اب تک رسیلے آموں کا ذائقہ اور پھولوں کی خوشبو محو نہیں ہوئی۔

میری کلیر کانگو میں پیدا ہوئی لیکن جب تشدد اور بدامنی بڑھتی گئی تو یہ کم عمری میں ہی ماں باپ کے ساتھ زیمبیا کے ریفیوجی کیمپ میں منتقل ہو گئی۔ اس کی ماں نے اس کے دماغ میں بٹھایا تھا کہ اس نے پڑھنا ہے۔ چنانچہ زیمبیا کے سرکاری سکول میں داخل ہوئی۔ تاہم سکول میں سارے بچے اسے تنگ کرتے، پتھر مارتے اور تھوکتے۔ جب یہ روتی ہوئی گھر آتی تو اسکی ماں اس کی ڈھارس بندھاتی کہ وہ اپنی زندگی کی خود مالک ہے۔ سکول چلتا رہا، میری ان حالات میں بھی پڑھائی میں سب سے آگے رہی۔

لیکن ایک دن بلوائیوں نے اس کی ماں کو قتل کر دیا اور والد کو کئی جگہ چاقو مارے لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ گیا۔ میری انیس سال کی ہوئی تو اقوام متحدہ نے کئی سال پہلے کی اس کی ماں کی دائر کردہ درخواست پر ان کو ریفیوجی سٹیٹس دے دی۔ ایک خاتون نے امریکہ میں ان کوسٹل ہونے میں مدد دی۔ میری بہت خوش تھی کہ دسویں جماعت امریکہ سے پاس کرے گی لیکن سکول میں معلوم ہوا کہ اٹھارہ سال سے زیادہ بچوں کو داخلہ نہیں مل سکتا۔ تاہم میری نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار سکول کی انتظامیہ کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اگرچہ اسے تیاری کے لئے صرف پانچ ماہ ملے تھے لیکن وہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوئی۔ اس دن اس کے اور اس کے والد کے چہرے چمک رہے تھے کہ آخر کار ان کے خاندان کے پہلے فرد نے دسویں جماعت پاس کرلی تھی۔ اور یوں اپنی ماں کے ارمان کی لاج رکھ لی۔

برما کے روہنگیا مسلمان ساٹھ کی دہائی سے اکثریت کے مظالم کے شکار ہیں۔ ان میں سے کئی ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں جہاں 1990ء سے مہاجر کیمپ وجود میں آ گئے تھے۔ آج ان مہاجر کیمپوں میں نو لاکھ سے زائد مہاجر رہ رہے ہیں۔ کیمپ کی زندگی جتنی سخت ہوتی ہے وہ ایک مہاجر ہی کو معلوم ہوتی ہے۔ ملالہ کو علم ہوا تو اس نے بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کی۔ اس دوران اس کا رابطہ فرانس کے ایک رضاکار جیروم سے ہوا جس نے فوج محبت (لو آرمی) کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اور سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو متحرک کر کے فنڈ جمع کرنے شروع کیے ۔ اب تلک اس فنڈ سے ہزاروں جھونپڑیاں اور کئی کنویں روہنگیا مسلمانوں کے کیمپ میں کھود لئے گئے۔

ادیجہ اور اس کے شوہر اپنے بچوں کے ساتھ اسی کیمپ میں رہ رہی ہے۔ ان کے گاؤں پر جب برمی فوج اور پولیس نے دھاوا بولا تو بڑی مشکل سے صرف تن کے کپڑوں میں کئی دن چھپ چھپاتے سفر کر کے بنگلہ دیش پہنچے۔ ادیجہ نے شوہر سے مل کر بانسوں سے ایک جھونپڑی بنائی اور مٹی سے ایک انگیٹھی بنائی۔ جب لو آرمی کو پتہ چلا تو اسے فنڈ سے پیسے دے کر دوسروں کے لئے چولہے بنانے پر لگا دیا۔ وہ اب تک دو ہزار چولہے بنا کر دوسرے مہاجروں کے لئے کھانے پکانے کا بندوبست کرچکی ہے۔ کیمپ کی زندگی سخت ہے لیکن کم از کم وہ امن سے ہیں۔

اپنے گھروں سے نکالے لوگ جو مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں، بہت سخت زندگی گزارتے ہیں۔ تاہمان میں سب سے زیادہ متاثر خواتین اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔ خصوصاً ان کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان بچیوں کو سلام جو ان حالات میں بھی علم کا چراغ روشن رکھتی ہیں۔ اور ان میں سے کئی ایک اعلیٰ درجے تک جا پہنچیں۔

(یہ کالم ملالہ کی لکھی کتاب We are displaced سے ماخوذ ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments