مظلوم خوشحال اور خوشحال ناشناس


حال ہی میں، میں نے مظلوم خوشحال کتاب پڑھی جو واقعی میں خوشحال شناس جناب مرحوم مشتاق مجروح یوسفزئی کی لکھی ہوئی شاہکار ہے۔ خوشحال خان خٹک کو اگر کسی نے صحیح معنوں میں پڑھا اور سمجھا ہے تو وہ مرحوم مشتاق مجروح یوسفزئی تھے اور ہیں۔ ویسے تو ان کی پشتو ادب اور پختونوں پر بیش بہا احسانات ہیں لیکن ہم نا قدرے ہیں ہمیں لعل اور کوتی لعل ( ایک پودا ) میں تمیز کی صلاحیت نہیں۔

مظلوم خوشحال کے علاوہ بھی مشتاق مجروح کی گراں قدر کتابیں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ اور ان کو پڑھنے کے بعد مجھے مشتاق مجروح کے تدفین کے بعد جناب قلندر مومند کے فرزند ارجمند زلان مومند کی یہ بات سمجھ میں آئی کہ ’تمھیں کیا معلوم کہ ہم نے کتنے بیش بہا خزانے کو منوں مٹی تلے دفن کیا ہے‘ ۔

مظلوم خوشحال تو خوشحال شناسوں کی اصلاح، ان کی کوتاہیوں، کمی بیشیوں اور لغزشوں پر لکھی ہوئی کتاب ہے جو نہ صرف مدلل ہیں بلکہ چھان پھٹک، تجزیوں، توازن، غیر توازن اور قاری کو خوشحال کے حوالے سے صراط مستقیم پر چلانے کا ایک سرچ ٹاور ہے۔

لیکن پھر بھی مظلوم خوشحال کے خوشحال شناس خوشحال شناس ہی رہیں گے کیونکہ انھوں نے خوشحال کو نہ صرف پہلی بار پڑھا ہے بلکہ سمجھا بھی ہے اور وہ اس قابل تھے کہ ان کی اس کاوش پر کوئی قابل اعتبار اور قابل مطالعہ شخص مزید روشنائی ڈال سکے۔ انھوں نے خوشحال خان خٹک پر جو بھی لکھا نیک نیتی، ادبی ایمانداری، تدبر اور حاصل مطالعہ سے لکھا اگر وہ صاحبان تقلید کے مرتکب ہوئے بھی ہیں تو ان کی ادبی لغزش، ادبی استراحت یا ادبی جمائیوں کے جھرمٹ کے پے در پے آمدورفت کے طفیل۔

لیکن میں کچھ عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ افراد جنھوں نے خوشحال خان خٹک کو سمجھنا تو دور کی بات سرے سے پڑھا ہی نہ ہو وہ خوشحال خان خٹک کے خلاف بڑے بڑے دعوے، تبصرے اور ہرزہ سرائی کی حد تک، سے قرطاس ابیض کو کالے کیے جا رہے ہیں۔

ادبی قد کاٹھ کے زمین پوشوں کو جب ادب یا معاشرت میں کسی کے دوش کا سہارا لینا ہوتا ہے تو وہ پھر ان ہی کے دوش پر چڑھ کر دبا رہا ہوتا ہے جس پر وہ قدم جمائے ہوتا ہے۔

میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی بھی قاری ایک بار، زیادہ بار نہیں خوشحال خان خٹک کو صحیح طریقے سے پڑھ اور سمجھ لے وہ پھر کبھی بھی خوشحال خان خٹک کے بارے میں منفی سوچ نہیں رکھے گا۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ خوشحال خان خٹک کے بارے میں لوگ تقلیدی گفت و شنید یا تقلیدی تحریروں کے سہارے تن آسانی کے شکار ہیں اور ان پر ہر طرح سے واہیات بولنا اور لکھنا ماں کی دودھ کی طرح آسان سمجھتے ہیں۔ لیکن اس معاشرے میں لوگ ماں کی دودھ سے بھی بے وفائی کرتے ہیں ماں سے بھی بد سلوکی گالم گلوچ حتی کہ مارپیٹ پر اتر آتے ہیں۔

قلندر مومند کے بقول خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا ہمارے پشتو ادب کے چہرے پر دو نور چشم ہیں اگر کوئی بھی ان دو میں سے کسی ایک کو کوئی گزند پہنچائے گا تو وہ پشتو ادب کے چہرے کو مسخ کرے گا اور آج کل یار لوگ پشتو ادب کے اس چہرے کو نہ صرف مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو فخر افغان باچا خان کو خوشحال خان کے خلاف کوٹ کرنے اور ان کی جدوجہد عدم تشدد کو خوشحال خان خٹک کی حمیت اور قوم پرستی کی شاعری کے خلاف گردان کر خواص کے ساتھ عام لوگوں کو بھی ادبی اور سیاسی تفرقے میں ڈال کر دونوں شخصیات کو غیر ضروری طور پر موضوع بحث بنانا چاہتے ہیں۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ خوشحال خان خٹک ہم میں پیدا ہوئے اور یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ ان کا جنم پشتونوں میں ہوا ورنہ ان کے خلاف یا ان کے شاعری کے بارے میں مغلظات نہیں بولتے ورنہ منٹو اور عصمت چغتائی جن کا خوشحال خان خٹک کے ساتھ کوئی جوڑ یا میل نہیں لیکن وہ اپنے متنازعہ افسانوں کے باوجود اردو ادب کے درخشندہ ستارے ہیں بلکہ ان کے افسانوں کو ڈرامائی تشکیل سے بھی گزار چکے ہیں جن کے لئے فیمیل اور میل کردار بڑے فخریہ انداز سے اپنا رول بالکل اس طرح پیش کر گئے۔ ورنہ اگر وہ پشتوں کے ادب کے لکھاری ہوتے تو وہ لعن طعن اور سماجی بائیکاٹ جیسے مرحلے سے ضرور گزرتے اور شاید ان کی قبروں تک کو بھی مسمار کرتے لیکن یہ ہوتا ہے پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے لوگ کا تفاوت۔

خوشحال خان خٹک نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور بچوں کی پیدائش سے لے کر بچوں کی تربیت ادب، معیشت، معاشرت اور اخلاقیات تک موضوع سخن بنایا ہے اور آخر میں اپنے موضوع کی بھی وضاحت کی ہے کہ یہ خوشحال خٹک نے ’ایں ویں‘ نہیں فرمایا ہے۔

ان کی کلیات جو قصائد، رباعیات، غزلوں، متفرقات حمد، نعت منقبت، تضمین، تاریخ نویسی فضل نامہ جو منظوم فقہ ہے فراق نامہ، منظوم سوات کا سفر نامہ، جنزیری جو اپنے وقت کا پشتو شارٹ ہینڈ ہے۔ اس کے علاوہ دستار نامی کتاب جس میں وہ ریاست کے اصول وضع کرتے ہیں۔ جس کا میں نے حال ہی میں مکیاولی کے دی پرنس کے ساتھ موازنہ کر کے پشتو اکیڈمی کوئٹہ سے چھاپنے کے مراحل میں ہے۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ خٹکوں کا قبیلہ مغلوں کے منصب دار رہے ہیں لیکن رشتہ دار نہیں اور نہ مغلوں کو پشتون سرزمین پر راستہ دینے یا خوش آمدید کہنے والے خٹک ہیں۔ لیکن جب ایک بار ان سے اختلاف ہوا تو پھر خوشحال خان خٹک ان سے اختلاف ہی میں چل بسے ہیں۔ اور ہمارے محترم اور معزز قبیلے یوسفزئی کے ایک شاخ مندڑ سے جنگیں ہوئی ہیں نہ کہ سارے یوسفزئی قبیلے سے اور اس کے بھی خاص وجوہات ہیں جو کالم کی طوالت کی وجہ سے قلم بند نہیں کر سکتا ہوں لیکن جو رقابت رہی تھی اس کو بھی رشتہ داری اور دوستی میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور اپنے بچوں کو ان سے اچھے برتاؤ اور عزت و احترام سے پیش آنے کی تاکید کی تھی۔

خوشحال خان خٹک کو نہ پڑھنے کی تاکید کرنے والے حضرات مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب اسلامی مباشرت کو نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ دلہا دلہن کو تحفے کے طور بڑے انہماک سے پیش کرتے ہیں۔ بہشتی زیور اپنے گھروں میں لازماً رکھتے ہیں جس میں بلوغت، نکاح، امید، طلاق، طہر، عدت حلالہ انزال سب کا ذکر ہے۔ کیا یہ باتیں ہم پڑھتے نہیں بالکل پڑھتے ہیں اور پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے اسلامی آداب معیشت اور معاشرت کے لئے ضروری ہے لیکن اگر ایک طرف ہم اس کا پڑھنا ثواب سمجھتے ہیں تو دوسری طرف اس کا پڑھنا گناہ کیوں سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہی پرانے شکاری اور عناصر ہیں جو پشتو اور پشتونوں کو مذہب یا اسلام کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کے تفرقے کی بحث میں الجھائے یا لڑائے رکھیں اور پشتو اور پشتون بحیثیت قوم آگے نہ پڑھ سکیں اور نہ بڑھ سکیں اور ان کا یہ ناپاک مدعا اسی طرح پورا ہوتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments