مزاح نگاری


مزاح کی کئی قسمیں ہیں۔ کچھ عام فہم ہیں کچھ دو بار پڑھنے پر سمجھ آتی ہیں۔ بعضی معرفت کی باتیں ایسی ہیں جو فقط پہنچے ہوؤں کو سمجھ آتی ہیں۔ بعض کسی ذی روح کو سمجھ نہیں آتیں۔ جیسا کہ ایلون مسک کا مزاح ہے۔ اکیلا ہی لگا رہتا ہے۔ پڑھنے والے کنفیوز کہ یہ ٹویٹ سنجیدہ ہے یا مزاحیہ؟ مزاح کی یہ قسم شاید سنجیدہ مزاح کہلاتی ہو۔ بہر حال جتنی بھی اقسام آج تک بیان ہوتی آئی ہیں ان میں چند پہلو مشترک ہوتے ہیں۔ طنزیہ و مزاحیہ تحریر کو پڑھ کر قہقہوں کی گونج بلند ہو سکتی ہے، کسی مقام پر فقط مسکراہٹ لبوں پر کھیلنے لگتی ہے جو چند ثانیے میں ”ہی ہی ہی ہی“ سے ہوتی ہوئی دوبارہ فلک شگاف ہاہاہاہاہاہا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کامیاب مزاح نگاروں نے اردو مزاح کے امام اعظم ابن انشا کے بارے میں کہا ہے کہ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا ہے۔

قبلہ مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہم مزاح کے عہد یوسفی میں زندہ ہیں۔

اچھا مزاح نگار بننے کے لئے کئی خوبیاں چاہیے ہوتی ہیں۔ برا مزاح نگار بننے میں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

دور حاضر میں جہاں بہت سے فنون لطیفہ رو بہ زوال ہیں طنز و مزاح ان میں سے ایک ہے۔ لوگ اس قدر نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوئے ہیں کہ مزاح سے لطف اندوز ہونا ہی بھول چکے ہیں۔ اس میں کچھ قصور مزاح نگاروں کا بھی ہے۔ کہاں تو وہ وقت تھا کہ شفیق الرحمن ایسے یکتائے روزگار مزاح نگار ہوا کرتے تھے اور اب یہ عالم ہے ڈاکٹر یونس بٹ سے لوگ بٹ تمیزیاں لکھ کر اسے مزاح کا نام دیتے ہیں۔ اردو طنز و مزاح کے کوہ ہمالیہ مشتاق احمد یوسفی صاحب کو بٹ صاحب نے اپنی کسی بٹ تمیزی کی تقریب رونمائی میں مدعو کر لیا۔

چھٹی حس بہت تیز تھی اس لئے بھانپ گئے کہ یوسفی سا عظیم نام ایسے پھکڑ پن کی تقریب رونمائی میں کیونکر آئے گا۔ اطراف و جوانب سے سفارش ڈلوائی۔ رہائش گاہ جا کر گوڈوں سے چمٹ گئے۔ ایک کاپی اپنی بونگیوں کی ان کی نذر کی اور نہایت زور دے کر کہا کہ اس کو پورا پڑھ کر ہی تشریف لائیے گا۔ پڑھے بغیر بالکل تبصرہ مت کیجے گا جیسا کہ آج کل کے بڑے ادیبوں نے شیوہ بنا رکھا ہے۔ یوسفی صاحب مروت کے آدمی تھے۔ کسی طرح گلو خلاصی کرا کر ان کو رخصت کیا اور مقررہ دن تقریب میں پہنچ گئے۔ مہمان خصوصی تھے اور صدارت کر رہے تھے۔ جب آخر میں خطاب کی باری آئی تو یوسفی صاحب نے فرمایا

”عزیزی ڈاکٹر یونس بٹ میری رہائش گاہ پر تشریف لائے اور دعوت دینے کے لئے میری دونوں ٹانگوں کے درمیان گھس گئے۔ ان کا اصرار تھا کہ کتاب پڑھے بغیر تبصرہ ہرگز نہ کروں۔ انہوں نے اپنا پاؤں کلہاڑے پر مار لیا ہے۔ بغیر پڑھے تبصرہ ہوجاتا تو ان کے حق میں مفید تھا۔ لیکن اب وعدے سے مجبور ہوں تو فقط اتنا کہنا چاہوں گا کہ مزاح لکھتے ہوئے جہاں جہاں میرے جملے استعمال کرتے ہیں تو انہیں واوین میں لکھ دیا کریں اور اگر میرے جملے ان کے اپنے جملوں سے تجاوز کر جائیں جیسا کہ نظر آ رہا ہے تو پھر کم از کم اپنے جملے واوین میں کر لیا کریں۔ “

ہال قہقہوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ یوسفی صاحب نے بہت رعایت فرمائی ورنہ ہم ہوتے تو ڈاکٹر یونس بٹ کے ساتھ وہ کرتے جو کھیت گھسے گدھے کے ساتھ ہوتا ہے۔

ٹی وی پر ان کا پروگرام چلتا تھا یقین کیجیئے تیس منٹ کے پروگرام میں ان کے جملے کم اور ڈبنگ والی ہنسی زیادہ ہوتی۔ ہمیں ڈبنگ والی ہنسی پر اعتراض نہیں بلکہ ان جملوں پر اعتراض ہے جن پر ہنسی چلائی جاتی۔ آج ایک محفل جمی جس میں لطائف اور چٹکلوں کی پھلجھڑیاں دوست احباب سناتے رہے اور ہم سب خوب ہنستے مسکراتے رہے۔ جی چاہا آج کوئی طنز و مزاح پر مشتمل مطالعہ ہو جائے۔ بٹ صاحب کی ایک کتاب ”عکس برعکس“ ہاتھ لگی۔ اٹھا کر پڑھنے لگے۔ اچھا بھلا موڈ آف ہو گیا۔ پینتیس منٹ انتظار کرتے رہے کہ کوئی ایسی بات آئے جس پر تھوڑا سا ہنس لیں مگر مجال ہے کچھ ایسا ہو۔ الٹا نیند آنے لگی۔ موڈ آف ہو گیا۔ جھنجھلا کر کتاب پرے پھینکی۔ اور ان کو ایک مشہور خطاب جو بھ سے شروع ہوتا ہے، دے کر خوب ہنسے۔

مزاح نگار اور نقال یا جگت باز بھانڈ میراثی میں فرق ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments