بچوں کا جنسی استحصال


ہم سب کے بچے بھی نعیم ہیں۔ سینتالیس منٹ، جی ہاں صرف سینتالیس منٹ اور شرم کے تھپڑوں کی بارش۔ یہ ایک ڈاکومنٹری اگر آپ نے نہیں دیکھی تو آپ میرے پیارے شترمرغ ہیں جو سر ریت میں دبا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ”باقی سب خیر ہے“

نعیم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں اس کے والدین فوت ہوئے تو سر سے پیار کا سایہ اٹھ گیا۔ دو تین سال تک ہر جگہ سے تھپڑ کھانے میں ماہر ہو گیا۔ گیارہ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ جب وہ پہلی بار بھائی بہنوں کی مار پٹائی سے گھر سے بھاگا تو اس کی جیب خالی اور رہنے کو کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ رات گئے سنسان گلیوں میں بھوک سے بلکتی حالت میں جب ایک شخص نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کھانا کھلانے کی پیش کش کیتو نعیم بے چون و چرا اس کے ساتھ چل پڑا۔

تاہم یہ سب کچھ اسے بہت مہنگا پڑا۔ اس رات جنسی زبردستی کی صورت میں یہ قیمت ادا کرنی پڑی۔ صرف سر پر چھت اور ایک وقت کی روٹی کے لئے نعیم کے منحنی جسم کی یہی مناسب قیمت تھی۔ بعض اوقات تو اسے دن میں چار چار انسان نما بھیڑیے نوچتے۔ یہاں یہی ریت ہے۔ نعیم کو بھنبھوڑنے والے شاید اپنا بچپنا اسی کی طرح گزار چکے ہیں۔ اور اسی لئے جب نعیم کے بڑے بھائی کو علم ہوا تو اس نے نعیم کو نہ صرف خوب مارا بلکہ قتل تک کی دھمکی دی۔ لیکن یہ صرف دھمکی ہی تھی اور شاید وہ خود بھی اس تلخ حقیقت سے گزر چکا تھا۔

2014ء میں چینل فور نے ”پاکستان کی پوشیدہ شرمندگی“ (Pakistan ’s hidden shame) کے نام سے یہ ڈاکومنٹری بنائی۔ اس کا زیادہ تر حصہ پشاور میں فلمایا گیا۔ کہنے کو تو محض سینتالیس منٹ کی فلم ہے۔ لیکن میری سسکیاں اور آنکھوں کے آنسو رکاوٹ بنتے رہے۔ اور کئی دنوں میں اسے مکمل طور پر دیکھ سکا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں پچاس لاکھ بچے، جو غربت کی وجہ سے دربدر ہیں، اسی جنسی استحصال کے شکار ہیں۔ گاڑیوں کے ورکشاپ، چائے خانے اور خصوصاً ٹرانسپورٹ سے متعلقہ پیشے اس مکروہ دھندے کے بنیادی مراکز ہیں۔ اس ڈاکومنٹری میں کئی ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں سے بھی انٹرویو لیا گیا اور انہوں نے اسے روزمرہ کا معمول قرار دیا۔ ان بچوں کے استحصال کرنے والے افراد بیشتر وہی ہیں جو بچپن میں انہی حالات سے گزر چکے ہیں۔

اکثر ٹرک اور بس ڈرائیور اپنے ساتھ ایک ”چھوٹا“ ضرور رکھتے ہیں جو نہ صرف استاد کی دوسری خدمات بجا لاتا ہے، نشہ آور اشیاء فراہم کرتا ہے اور جنسی استحصال کا شکار بھی ہوتا ہے۔ شاید اس امید پر کہ ایک دن وہ بھی استاد کی گدی سنبھال لے گا۔ اس پر مجھے اپنا ایک مریض یاد آیا جو پینتیس چھتیس سال کی عمر میں بھی چھڑا ہی تھا اور تمام عمر ٹرک پر کنڈکٹر کے طور پر کام کرتا رہا تھا۔ اس کے ٹیسٹ کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ اسے ایڈز کی بیماری لگ چکی تھی۔ میرا دل درد سے پھٹ پڑا جب اس نے نہایت عاجزی سے کہا کہ اس بات کا اس کے خاندان کو علم نہ ہو۔

بچوں اور خصوصاً لڑکوں کے جنسی استحصال سے ہمارے معاشرے میں کوئی شعبہ خالی نہیں۔ سرکاری پرائمری سکول ہوں یا گداگری کا پیشہ ہو۔ ہماری عمر کے لوگوں کو اچھی طرح وہ اساتذہ بھی یاد ہیں جن کے قریب جانے سے بھی خوف آتا تھا۔ اور اگلے دن کی مار سہنے کے لئے تیار رہتے تھے لیکن تنہائی میں ملنے سے بچتے تھے۔ شہر کی تنگ گلیوں میں بھی یہ جنسی شکاری موقع کی تلاش میں ہوتے تھے اور ہمیں ہر وقت ہرن کی طرح چوکنا رہنا پڑتا تھا۔

یہ تو خیر پرائے شکاری تھے۔ اب بھی اپنے گھر والے بچوں کو دور دراز کے رشتہ داروں کے پاس چھوڑ جاتے ہیں اور ان چھ سات سالہ معصوم بچوں کو لالی پاپ کا لالچ دے کر آہستہ آہستہ اس راہ پہ ڈالنا کوئی مشکل کام نہیں۔ پیار کی آڑ میں حد سے بڑھ جانا قریب کے رشتہ داروں کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں جبکہ دوسری طرف ہم اپنے بچوں کی جنسی تعلیم پر بولنا بھی کفر سمجھتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق بچوں کے جنسی استحصال میں نوے فیصد قریبی رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں۔ بقیہ دس فیصد بے گھر بچے، اغوا شدہ بچے اور بچیاں ہوتی ہیں جو اس جنسی فعل کے لئے ہی بیچے جاتے ہیں۔

میں نے حتی الوسع کوشش کی ہے کہ مذہبی طبقے پر بولنے سے قبل وہ دوسرے تمام کونے کھدرے آشکار کروں تاکہ مجھ پر مذہبی عصبیت کا الزام نہ لگے۔ لیکن مشکل وہ آن پڑی ہے کہ سلجھائے نہ سلجھے۔ مذہبی مدارس کی چند خصوصیات انہیں اس قباحت کے بہت مواقع فراہم کرتے ہیں۔ بچوں کے غریب خاندانوں سے تعلق، ہاسٹل کی زندگی، مکمل طور پر اساتذہ کے رحم وکرم پر ہونا، اساتذہ کی مجرد زندگی، گھریلو ماحول سے دوری کی وجہ بچوں پر رحم نہ کرنا، ان کے متشرع لباس کی وجہ سے بچوں کے مقابلے میں عوام کا ان پر زیادہ اعتماد جیسے عوامل ان کو کھلا ہاتھ دے دیتے ہیں۔ پھر ان کی اکثریت بھی انہی مظالم سے گزری ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ ان کو معمول ہی لگتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر پرانی فقہ کی کتابوں میں وہ فرضی مسائل جیسے نابالغ لڑکے سے لواطت پر غسل کس پر واجب ہوجاتا ہے، بجائے اس فعل کی مذمت کرنے کی بجائے دعوت معلوم ہوتی ہیں۔

لیکن یہ قباحت صرف اسلامی مدارس تک محدود نہیں۔ پوپ سے لے کر امریکی چرچ تک (جس میں موجودہ نائب صدر کامیلا ہیریس بھی ملوث ہے کہ اس نے چرچ سے اپنے انتخابی فنڈ کے لئے لاکھوں ڈالر وصول کیے تھے اور چرچ کے خلاف تحقیقات ختم کردی تھیں) ۔ یہودی ربائی بھی اس گناہ سے پاک نہیں۔ وہاں بھی کٹر یہودی اپنے کم عمر بچوں کو عبرانی زبان اور تورات سیکھنے کے لئے ان مذہبی علماء کے پاس بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں۔ تاہم ہم مسلمانوں اور عیسائیوں، یہودیوں میں تعلیم و تہذیب کا فرق واضح ہے۔

ایک دفعہ پتہ چل جائے تو باقاعدہ پولیس کیس بن جاتا ہے اور انصاف سے ملزموں سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ کئی پوپ اور ربائی جیلوں تک پہنچے۔ جبکہ ہمارے ہاں فوراً نزلہ مخلوط کالجوں اور یونیورسٹیوں پر گرنا لگتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی اچھا کام ہے یا وہاں کی غلطیاں معصوم بچوں کی زندگی تباہ کرنے کا جواز بن سکتی ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کالج اور یونیورسٹی میں کم از کم بالغ افراد ہوتے ہیں اور وہ اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ ان معصوم کلیوں کو تو ہمیں مسلنے سے بچانا ہے۔

بھارتی اداکار عامر خان نے پانچ سے دس بارہ سال کے بچوں کو نہایت آسان انداز میں ان خطرات سے آگاہی کے لئے چند منٹ کی ویڈیو بنائی ہے۔ خود بھی دیکھیں اور بچوں کو بھی دکھائیں۔

اب میرے ممبر و محراب کے رکھوالو، ٹرانس جینڈر بل پر جلوس نکلوانے والے قبلہ و کعبہ، فیس بکی مجاہدو، اشتہاروں میں خواتین کے چہروں پر سیاہی پھیرنے والے غیرت مندو، یونیورسٹیوں میں موسیقی کی محفلوں پر دھاوا بولنے اسلام کے سپاہیوں، کیا یہ گناہ اور ظلمان سب سے پرانا نہیں؟ کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ہی سہی ایک آواز تو اٹھائیں۔ میں نے ملالہ کا نام بھی نہیں لیا تو کیا اب بھی توجہ ہٹانے کا کوئی بہانہ ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments