مردوں کے دن پر مردوں کے لیے تحریر


میں ذاتی طور پر مردوں کی ایسی اقلیت سے واقف ہوں جو عورتوں کی بطور انسان عزت کرتے ہیں، بیٹیوں سے پیار اور احترام سے پیش آتے ہیں اور صحت مند جذبات کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ ایسی عورتوں کو بھی جانتی ہوں جو اپنے اندر زہر رکھتی ہیں، اپنی بیٹیوں بہوؤں کو بیٹوں کے سامنے حقیر سمجھتی ہیں اور منفی رویوں کا اظہار کرتی ہیں۔

مردوں اور عورتوں کو ولن اور ہیرو کی طرح بلیک اینڈ وائٹ کر دینا میرے نزدیک غلط ہے۔ جب ہم صنفی برابری کی بات کرتے ہیں تو اس کا فوکس تمام اصناف کو مناسب سطح پر رکھنے پر ہوتا ہے۔ پدرسری معاشرے، اس ناہموار نظام میں ثقافت و روایات کی بدولت صنفی بنیادوں پر کئی تہیں ہیں۔ کچھ مراعات یافتیہ ہیں اور باقی لوگ نا انصافیوں کی چکی میں پس رہے ہیں۔ جہاں مردوں کو بے جا طاقت حاصل ہے وہیں خواتین اور دوسری اصناف اس طاقت سے جڑی اذیت کو ہر روز سہتے ہیں۔ مرد پدرسری معاشرے میں کٹہرے میں ٹھہرایا نہیں جاتا یہی وجہ ہے کہ وہ کمزوروں کو ہراسانی کا شکار بنائے یا ریپ کرے۔ سوال عورت کے برقعے پر ہی آتا ہے!

میں نے اس پر ایک مختصر سی نظم بھی لکھی تھی۔
یہ دنیا وہ جیل ہے
جہاں معصوموں کو
حدود میں قید کر کے
درندوں کو کھلے عام
چھوڑنے کا رواج ہے
معاشرہ تو پھر مردوں کا ہے
سو اس کے ہر جرم کی سزا میں
عورت کو قید کر دیا گیا ہے

ایسے نظام کو نافذ کرنے اور
اسکی پختگی کی وجہ بننے والے لوگ
اصل مجرم کو سزا دینے سے
آج بھی کتراتے ہیں
تبھی ان کے نزدیک
زیادتی ہو یا قدرتی آفات
سب عورت کے لباس سے ہی آتے ہیں!

صنفی برابری پر بات کرتے ہوئے جہاں مراعات یافتہ طبقے کو ذرا نیچے لانے کی ضرورت ہے وہیں کمزوروں کو مضبوط بنانے کی بھی ہے۔ مردوں کی سماجی مضبوطی کو اور مضبوط کرتے جانا اور اس سے کمزوروں کو یہ چورن دینا کہ مرد آپ کے محافظ ہیں درست نہیں۔ ایک خوشگوار معاشرے میں طاقت کی اندھی تقسیم نہیں ہوتی کیونکہ طاقت اور اندھا پن جب جڑتے ہیں تو اذیت جنم لیتی ہے۔

پدرسری سماج میں مردوں کو جو مقام حاصل ہے وہ ان کی نفسیاتی صحت کے لیے انتہائی غیر موزوں بھی ہے۔ ایک 20 ، 22 سال کے لڑکے پر گھر کے افراد کی بے شمار مالی ذمہ داریاں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ یہ سکھا کر کہ لڑکے کبھی روتے نہیں بچپن سے انھیں کھوکھلی مضبوطی پر لگا دیا جاتا ہے۔ خوشی، دکھ، پیار، مایوسی یہ تمام جذبات اظہار مانگتے ہیں جب مرد ان کا اظہار نہیں کر پاتا تو انہیں غصے کی شکل میں نکالتا ہے۔ چونکہ وہ پوزیشن آف پاور پر ہوتا ہے اس لیے چیخنا چلانا، ہاتھ اٹھانا بھی ایک عام بات بن جاتی ہے۔ یہ گھریلو تشدد کی اہم ترین وجوہات میں سے ہے۔

طاقت کی ناہموار تقسیم معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ مردوں کو انسان بننے کی اور عورتوں کو انسان سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں مل کر، ایک دوسرے کے بوجھ بانٹ کر معاشرے کے پروڈکٹیو اراکین بن سکتے ہیں نہ کہ کوئی ایک طاقت کے ناجائز استعمال کے ذریعے دوسرے کو غلام بنا کر رکھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments