جینیئس یا نابغہ افراد میں کونسی خصوصیات ہوتی ہیں؟


جینیئس کی خصوصیات
سنہ 1920 کے عشرے کے آخر میں ایک محنت کش گھرانے کا نوجوان جس کا عرفی نام ’رِٹی‘ تھا، نیو یارک کے علاقے راکوے میں اپنے گھر پر زیادہ تر وقت اپنی ’لیبارٹری‘ میں گزارتا تھا۔ اس کی تجربہ گاہ کیا تھی محض لکڑی کا ایک پرانا کھوکھا، جس میں کئی شیلف تھے اور اسی کھوکھے میں رٹی نے ایک بیٹری، بجلی کے بلب کا ایک سرکٹ، کچھ سوئچ اور ایک ریزسٹرلگا رکھا تھا۔

رِٹی کو اپنی ایجادات میں سے ایک پر سب سے زیادہ ناز تھا۔ یہ ایک چور الارم تھا اور اس کے والدین جب بھی اس کی لیبارٹری میں آتے تو الارم بج اٹھتا اور رٹی کو معلوم ہو جاتا ہے کوئی اس کے کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔

اپنے اردگرد کی قدرتی دنیا کا مطالعہ کرنے کے لیے رٹی ایک خوردبین استعمال کرتا تھا، اور بعض اوقات دوسرے بچوں کو کرتب دکھانے کے لیے اپنی کیمسٹری کٹ باہر گلی میں بھی لے جاتا تھا۔

رٹی کے ابتدائی تعلیمی ریکارڈ میں کوئی خاص بات نہ تھی۔

اسے ادب کے مضامین اور غیر ملکی زبانیں پڑھنے میں دقت پیش آتی تھی حالانکہ مبینہ طور پر بچپن میں ذہانت یا آئی کیو کے ٹیسٹٹ میں اُس کا سکور 125 کے قریب تھا جو کہ اوسط سے زیادہ تھا لیکن کسی بھی طرح اس سکور کا شمار ’جینیئس‘ میں نہیں ہو سکتا تھا۔

بہرحال عنفوان شباب میں ہی نظر آنے لگا تھا کہ رٹی کا رجحان ریاضی کی جانب بہت زیادہ ہے اور اس نے خود سے ہی ریاضی کی درسی کتابیں پڑھنا شروع کر دی تھیں۔

ہائی اسکول کے اختتام پر رٹی نے ریاستی سطح کے ریاضی کے سالانہ مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔

اور پھر باقی سب تاریخ ہے۔

آپ شاید رٹی کو نوبل انعام یافتہ ماہرِ طبیعیات رچرڈ فینمین کے طور پر جانتے ہوں، وہ مشہور سائنسدان جن کے کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس کے نئے نظریہ نے ایٹم کے ذیلی ذرات کے مطالعہ میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔

جینیئس کی خصوصیات

Science Photo Library
مین ہیٹن پراجیکٹ نامی ایک تحقیق میں فینمین نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا

دوسرے سائنس دانوں کے لیے فینمین کے دماغ کو سمجھنا ممکن نہیں تھا۔

اپنے ساتھیوں میں وہ تقریباً مافوق الفطرت صلاحیتوں کے حامل دکھائی دیتے تھے اور شاید اسی وجہ سے پولش نژاد امریکی ریاضی دان مارک کیک نے اپنی سوانح عمری میں فینمین کے بارے میں لکھا کہ وہ محض ایک عام باصلاحیت جینیئس نہیں تھے، بلکہ ‘اعلیٰ ترین صلاحیت کے جادوگر’ تھے۔

کیا جدید نفسیات اس جادو کو سمجھنے اور عام طور پر یہ سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے کہ جینیئس یا نابغہ لوگ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟

بہر حال اس اصطلاح کی وضاحت کرنا اپنے آپ میں سر چکرانے والی بات ہے کیونکہ جینییس کو جانچنے  کا کوئی واضح معیار یا پیمانہ نہیں ہے۔

لیکن ذہانت کی زیادہ تر تعریفوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں  کسی بچے یا شخص کا کم از کم ایک مضمون میں غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے اس شحص میں نیا پن یا اوریجنلیٹی ہونی چاہیے اوراس کا اسلوب ایسا ہونا چاہیے کہ اس شعبے کے دوسرے ماہرین اس شخص کی غیر معمولی صلاحیتوں کو تسلیم کریں اور اس کے کام سے بہت سی نئی چیزیں وجود میں آئیں۔

جینیئس یا ذہانت کی ابتداء اور اس کی آبیاری کے بہترین ذرائع کی نشاندہی کرنا اور بھی مشکل کام رہا ہے۔

کیا جینئس اعلیٰ عمومی ذہانت کی پیداوار ہوتا ہے؟ لامحدود تجسس کا نتیجہ ہوتا ہے؟ ہمت اور عزم کا نتیجہ ہوتا ہے؟ یا یہ خوش قسمت حالات کا خوش قسمت مجموعہ ہے جسے مصنوعی طور پر دوبارہ پیدا کرنا یا بنانا ناممکن ہوتا ہے؟

غیر معمولی لوگوں، بشمول رچرڈ فینمین جیسے نوبل انعام یافتہ افراد، کے مطالعے سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں۔

جینیئس کی خصوصیات

اگرصرف ریاضی اور سائنس میں آپ کے نمبر کم ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ذہین نہیں ہیں

آئیے ہم ‘جینیٹک سٹڈیز آف جینیئس’ پروجیکٹ کے ساتھ آغاز کرتے ہیں۔ یہ پروگرام 20 ویں صدی کے اوائل میں سٹینفورڈ گریجویٹ سکول آف ایجوکیشن کے ماہر نفسیات لیوس ٹرمین کی سربراہی میں شروع کیا گیا تھا اور اس کے نتائج بھی بہت حوصلہ افزا تھے۔

ٹرمین ’آئی کیو ٹیسٹ‘ کے ابتدائی علمبرداروں میں تھے۔ وہ 19ویں صدی کے آخر میں بچوں کے آئی کیو کا تعین ان کی تعلیمی اہلیت کی مطابق کرتے تھے اور اس کے لیے ٹیسٹ کے دوران بچوں سے مختلف سوال کیے جاتے تھے۔

ان سوالات میں مختلف مہارتوں کا جائزہ لیا جاتا تھا، مثلاً الفاظ کا ذخیرہ، ریاضی اور منطقی استدلال، اور اس قسم کی دیگر مہارتیں جن کا مجموعہ کسی شخص کی سیکھنے کی صلاحیت اور تجریدی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

اس کے بعد ٹرمین نے عمر کے لحاظ سے ہر گروپ کے لیے اوسط سکور کے ٹیبل یا جدول بنائے جن کے تحت وہ کسی بھی بچے کے نتائج کا موازنہ کر کے اس کی ذہنی عمر کا تعین کر سکتے تھے۔

جینیئس کی خصوصیات

اس وقت آئی کیو سکور کا حساب ذہنی عمر کو بچے کی اپنی عمر سے تقسیم کرکے اور اور اس کے تناسب کو 100 سے ضرب دے کر لگایا جاتا تھا۔

مثال کے طور پر اگر ایک 10 سالہ لڑکی نے اوسطاً 15 سالہ لڑکے کے برابر سکور کیا تو اس کا آئی کیو 150 ہوگا۔

اور اگر نو سال کے بچے کا استدلال 10 سالہ بچے کے برابر ہے تو اس کا آئی کیو 90 ہوگا۔

آئی کیو سکور گراف ریاضی کی زبان میں ‘نارمل ڈسٹری بیوشن’ کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔

اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں ٹرمین نے کہا تھا کہ ‘کسی فرد میں آئی کیو جتنا اہم کچھ اور نہیں ہے۔’

انھوں نے یہ بھی پیش گوئی کی کہ بچے کا آئی کیو سکور اس کی زندگی میں بڑی کامیابیوں کی نشاندہی کرتا ہے

دیمک

سنہ 1920 کی دہائی کے اوائل میں ٹرمین نے کیلیفورنیا کے سکولوں میں کم از کم 140 کے آئی کیو والے طالب علموں کی تلاش شروع کی کیونکہ ان کے خیال میں اس سکورسے جینیئس کی ابتدا ہوتی ہے۔

انھیں اس سکور والے ایک ہزار سے زیادہ بچے ملے اور پھر اس کے بعد وہ اور ان کے ساتھیوں نے اگلے سات عشرے ان بچوں پر تحقیق میں صرف کر دیے۔

ان میں سے بہت سے بچے جنھیں وہ پیار سے ‘ٹرمائٹس’ یا دیمک کہتے تھے، ان سب کا کیریئر کامیاب رہا۔

ان میں سے ایک شیلی سمتھ مائیڈنز تھے جو ایک رپورٹر اور ناول نگار بنے اور پھر جیس اوپن ہائیمر تھیں جو ایک پروڈیوسر اور مصنف تھیں اور وہ کامیڈی کی دنیا میں بہت مشہور ہوئیں۔

سنہ 1950 کی دہائی کے آخر تک جب ٹرمین کی موت ہوئی ان میں 30 سے ​​زیادہ ‘دیمک’ امریکہ کے ‘ہو اِز ہو’ یعنی بااثر لوگوں کی فہرست میں شامل ہو چکے تھے۔

اور تقریباً 80 کی صلاحیتوں کو ایک اور کتاب ‘امریکن مین آف سائنس’ میں تسلیم کیا گیا ہے جس میں امریکہ کے معروف سائنسدانوں کا تذکرہ ہے۔

بہر حال جب آپ اعداد و شمار کو قریب سے دیکھتے ہیں، تو یہ اعدادوشمار اس خیال کی پوری تائید نہیں کرتے کہ بلند آئی کیو والے لوگوں کے مقدر میں عظمت بھی ہوتی ہے یا یہ کہ وہ عظیم ہی بنیں۔

اس کے لیے ‘دیمک’ کے خاندانوں والوں کو اپنے سماجی و اقتصادی حالات پر قابو پانا ضروری ہے۔

ذہانت کی جانچ میں تعلیم یافتہ والدین اور زیادہ وسائل کے حامل بچوں کے آئی کیو زیادہ نظر آئے ہیں اور یہ چیزیں ان کے مستقبل کی کامیابی کو آسان بنا سکتی ہیں۔

جب اس بات کو مدنظر رکھا گیا تو یہ پایا گیا کہ ‘دیمک’ نے اسی طرح کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے کسی دوسرے بچے سے زیادہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

جینیئس کی خصوصیات

لیونارڈو ڈا ونچی کو دنیا واقعی جینیئس سمجھتی ہے

ٹرمین کے گروپ کے اندر آئی کیو کے فرق کی بنیاد پر دیگر مطالعات میں یہ دیکھا گیا کہ آیا سب سے زیادہ سکور کرنے والے بچوں کے کامیاب ہونے کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تھا جو بس اس میں شامل ہو گئے تھے یعنی 140 سے زیادہ کا سکور کیا تھا۔

جواب ایسا نہیں آیا۔

جب ڈیوڈ ہنری فیلڈ مین نے پیشہ ورانہ امتیاز کا جائزہ لیا، جیسے کہ ایک وکیل کو جج کے طور پر مقرر کیا جانا یا ایک باوقار ایوارڈ جیتنے والا آرکٹیٹیکٹ، جن کا سکور 180 سے زیادہ تھا تو یہ پایا گیا کہ جو اپنی 30 کی دہائی میں تھے اور ان کے ان سے 40 پوائنٹس کم تھے تو وہ ان سے بس ذرا سا ہی زیادہ کامیاب تھے۔

انھوں نے یہ نتیجہ اخد کیا کہ ‘اعلی آئی کیو ‘جنیئس’ ہونے کی علامت نہیں جیسا کہ اس لفظ سے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔’

واضح طور پر ٹرمین کے ابتدائی مطالعے نے کیلیفورنیا کے دو بچوں ولیم شوکلی اور والٹر الواریز کو مسترد کر دیا تھا لیکن انھوں نے بعد میں فزکس میں نوبیل انعام جیتا تھا جبکہ ان کے پیمانے پر ذہین اترنے والے بچوں میں سے کسی کو بھی یہ اعزاز نہ مل سکا۔

جینیئس کی خصوصیات

ولیم شوکلے ایک امریکی موجد اور ریاضی دان تھے جنھیں فزکس میں نوبیل انعام دیا گیا تھا

نیو یارک میں پرورش پانے والے رچرڈ فینمین کو کیلیفورنیا میں ہونے والے ’جینیاتی مطالعات‘ میں حصہ لینے کا موقع کبھی نہیں ملا ہوگا۔ ہاں اگر بچپن میں وہ سٹینفورڈ کے قریب رہ رہے ہوتے  جہاں ٹرمین مقیم تھے، تو فیمنمین کے بچپن کے 125 آئی کیو کا مطلب یہ ہوتا کہ ان کا شمار بھی جینیئس بچوں میں نہ ہوتا۔

لیکن فینمین اور دیگر’دیمک‘ افراد کا آئی کیو سکور زیادہ نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آئی کیو ناپنے کا طریقہ ہی غلط تھا کیونکہ سائنسی اعتبار سے اس طریقے کی اپنی افادیت ہے۔

اگرچہ آئی کیو ناپنے کے طریقے بہت زبردست نہیں ہیں اور ان میں بہتری کی بہت گنجائش ہے، لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بچے کے آئی کیو کا تعلق اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اس کے والدین کی تعلیم کیا ہے اور ان کی آمدنی کتنی ہے۔

اگر والدین متمول اور تعلیم یافتہ ہیں تو بچے کو انوکھے خیالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس سے بچہ ریاضی ، سائنس، انجینئرنگ، یا فلسفے جیسے مضامین میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔

لیکن جب کسی بچے میں غیر معمولی کامیابیوں کی پیش گوئی کی بات آتی ہے، تو لگتا ہے کہ والدین کی تعلیم اور آسودگی کا کردار اتنا زیادہ بھی نہیں ہوتا۔

ایک ہمہ جہت ذہن

آؤٹ آف باکس یا معمول سے ہٹ کر سوچنے کی صلاحیت کو لے لیجیے اور اس میں  نظم و ضبط کا عنصر بھی شامل کر لیں تو یہ چیزکسی بچے کے جینیئس ہو نے کے لیے ایک اچھی بنیاد فراہم کرتی ہے۔

ذہانت ناپنے کے لیے جو سوالات کیے جاتے ہیں ان میں اکثر ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ کی استدلال یا توجیح کی صلاحیت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان سوالوں سے آپ کی وربل ریزننگ ( بیانی استدلال) اور نان وربل ریزنِنگ (غیر بیانی استدالال) کی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

لیکن، لگتا ہے کہ اس سوالوں سے کسی شخص یا بچے کی تخلیقی صلاحیت کا تعین نہیں کیا جا سکتا، یعنی وہ بچہ کیسے کسی چیز کے بارے میں مختلف انداز میں سوچتا ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جن سے نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔

جینیئس کی خصوصیات

اس کے برعکس انٹیلی جنس ٹیسٹ یا ذہانت کا اندازہ لگانے کے لیے ماہرینِ نفسیات نے بہت تفصیلی سوالنامے بنا رکھے ہیں جن میں آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کتنا تخلیقی کام  کرتے ہیں، جیسے لکھنا لکھانا، موسیقی ترتیب دینا، عمارتوں کے نمونے بنانا یا کوئی نیا سائنسی نظریہ پیش کرنا۔

یہ چیز بہت اہم ہے کہ ذہانت کے ٹیسٹ کے شرکاء سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کے کام کو کتنے لوگوں نے تسلیم کیا ہے، مثلاً آپ کے کام پر آپ کو کوئی ایوراڈ وغیرہ دیا گیا ہے اور ذرائع ابلاغ میں اس کا کوئی ذکر ہوا ہے۔

 اب تک ہزاروں لوگ اس قسم کے ٹیسٹ دے چکے ہیں اور ہمیں تمام تحقیق سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ان ٹیسٹوں میں شرکاء کے سکور کا تعلق ان کے آئی کیو سے بہت کم ہوتا ہے، یعنی یہ سوالنامے شرکاء کی ذہانت کی درست عکاسی نہیں کرتے۔

صرف ذہانت نہیں

ان نتائج کو دیکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ ذہانت ایک ضروری چیز ہے، لیکن  کسی بڑے تخلیقی کام کے لیے محض ذہین ہونا کافی نہیں ہے۔ 

اگر آپ کا آئی کیو اسکور زیادہ ہے تو آپ کے ذہن میں تخلیقی خیالات کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

لیکن  کسی بالکل نئے تخلیقی خیال اور بڑے کام کے لیے محض اوسط سے زیادہ ذہانت کافی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے بہت سے دیگر عوامل کا ہونا بھی ضروری ہے۔  

اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ آخر جن بچوں کو نہایت ذہین ’دیمک‘ قرار دیا گیا تھا  ان کی اکثریت نے کوئی ایسا تاریخی کام کیوں نہیں کیا جس کی پیشگوئی کی گئی تھی۔

غیر معمولی طور پر ذہین ہونے کے باوجود، ان کے پاس صرف وہ دوسری خصوصیات نہیں تھیں جو جینیئس بننے کے لئے ضروری ہیں۔

ان دیگر ضروری خصوصیات کے بارے میں ہمارا علم ابھی مکمل نہیں اور اس میدان میں کام ہو رہا ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جینیئس ہونے کے لیے تجسس کا ہونا شاید ضروری ہے۔

جینیئس کی خصوصیات

تجسس کی پیمائش سوالناموں کے ذریعہ کی جاسکتی ہے جن میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نئے خیالات کی تلاش اور نئے تجربات کی کوشش کرنے سے کتنا لطف اندوز ہوتے ہیں، اور کیا وہ ایسے کاموں میں زیادہ تخلیقی دکھائی دیتے ہیں جن میں نہ صرف تجربہ گاہ میں غور و فکر شامل ہوتا ہے بلکہ ان کی روزمرہ زندگی میں بھی۔ 

تخلیقی ذہانت کے لیے تجسس کی اہمیت کیا ہے، یہ ہم  مشہور شخصیات کی زندگی کے مطالعے بھی سمجھ سکتے ہیں۔

اگرچہ ایسی شخصیات سے سوالناموں کے جواب لینا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا، تاہم محققین نے ایسی شخصیات کے سوانح نگاروں سے کہا ہے کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق ان شخصیات کی جگہ سوالوں کے جواب دیں۔

چانچہ سوانح نگاروں نے ان شخصیات کی درجہ بندی ان کی دانشورانہ دلچسپی اور نئی چیزوں کا کھوج لگانے کی بنیاد پر کی ہے۔

مثال کے طور پر، 20 ویں صدی کے مشہور موسیقار جان کولٹرین مذہبی عقائد سے بہت متاثر تھے جن میں مسیحیت، بدھ مت ، ہندو مت اور اسلام کا مطالعہ شامل تھا اور ان کے بہت سے اثرات ان کی موسیقی میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ تجسس کسی کو ذہین کیسے بناتا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ میں علم کی پیاس ہو تو اس سے آپ کو زندگی میں نظم و ضبط  پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے جبکہ وہ لوگ جن میں تجسس نہیں ہوتا وہ جلد ہار مان جاتے ہیں۔

 تجسس آپ کی حوصلہ افزائی بھی کر سکتا ہے کہ آپ اپنی دلچپسی کے مضامین کے علاوہ دیگر چیزوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں اور ایسا کرنے کے اپنے فوائد ہیں۔

مثال کے طور پر نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں سے جب پوچھا گیا تو ان مشاغل کی فہرست ایک عام شخص کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ طویل تھی۔

دیکھا گیا ہے کہ ان سائنسدانوں میں عام شخص کے مقابلے میں  موسیقی، مصوری، یا شاعری وغیرہ کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

اس قسم کے مشاغل آپ کے دماغ کو نئے خیالات کی تربیت دے سکتے ہیں، جس سے سائنسدانوں کو اپنے اصل کام میں بھی مدد ملتی ہے۔

جینیئس کی خصوصیات

نوبیل انعام یافتہ ڈوروتھی کروفوٹ کو قدیم نقش ونگار کا بہت شوق تھا جس سے انھیں سائنسی تحقیق میں بھی مدد ملی 

مختلف چیزوں کی جستجو سے بھی آپ کو نئے نئے خیالات آتے ہیں اور آپ کے دماغ کی نشوونما ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر ڈوروتھی کروفٹ ہڈکن کو نوبیل انعام ایکس رے کرسٹلگرافی میں ان کی شاندار خدمات پر ملا تھا جس کے بعد انھیں مزید ترغیب ملی اور انھوں نے پنسلین اور وٹامن بی 12 کی کیمیائی ساخت بھی دریافت کر لی۔

انھیں نوجوانی کے دنوں سے ہی بازنطینی دور کے نقش و نگار میں گہری دلچسپی تھی۔

ان نقش ونگار اور جیومیٹری کے بارے میں ڈوروتھی کے علم نے بظاہر انھیں مختلف اجزاء کی کیمیائی ساخت کو سمجھنے میں مدد دی اور یہ چیز ان کی سائنسی تحقیق میں بہت اہم ثابت ہوئی۔

’دی پولی میتھ‘  کے مصنف وقاص احمد  کہتے ہیں کہ ’کسی بھی شعبے میں اپنا نیا کردار ادا کرنے کے لیے آپ کو اس میدان کو وسیع نظر  دیکھنا چاہیے اور اس سے جس قدر ممکن ہو مہمیز حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔‘ 

جینیئس کی خصوصیات

مایا اینجلو شاعرہ ، صحافی ، اداکارہ ، فلم سازکے علاوہ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن تھیں

 وقاص احمد اس حوالے سے مشہور شاعرہ، صحافی، اداکارہ، فلم ساز اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن مایا اینجلو کی مثال دیتے ہیں۔ مایا  ایک رقاصہ اور گلوکار کے طور پر کام کرنے سے بھی لطف اندوز ہوتی تھیں،  اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دانشور بھی تھیں۔ ان تمام چیزوں نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو حیرت انگیز طور پر متاثر کیا۔

رچرڈ فینمین کی زندگی یقینی طور پر ان رجحانات پر پوری اترتی ہے۔

فینمین کے بچپن کے بارے میں سوچیں جب وہ گھر کی تجربہ گاہ میں ہر وقت ’گڑ بڑ‘ اور بیک وقت مختلف منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔

اور پھر ایک بالغ کے طور پر انھوں نے اپنے آپ کو ڈرائنگ کرنے، بونگ کھیلنے، پرتگالی اور جاپانی بولنے، ہائروگلیفکس پڑھنے، اور یہاں تک کہ جینیات میں ایک منصوبہ شروع کرنے میں مصروف رکھا۔

انھوں نے ایک دن یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں دیکھا کہ ایک شخص پلیٹیں پھینک رہا ہے اور پھر انھیں  پکڑ رہا ہے۔

فیمین نے محسوس کیا کہ جب وہ شخص یہ حرکت کر رہا تھا تو وہ لڑکھڑا رہا تھا۔ فیمنمین نے وہیں بیٹھے بیٹھے اس شخص کی حرکات کا ایک گراف بنا لیا اور اسے ایک مساوات کی شکل دے دی۔

اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد انھوں نے ایٹم کے مرکز کے گرد الیکٹران گھومنے کے انداز میں بھی ایسی ہی مماثلت دیکھی، اور یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے وہ بعد میں کوانٹم الیکٹروڈائنامکس میں نوبیل انعام کے حقدار ٹھہرے۔

اس سائنسی اور غیر معمولی ثبوت سے، یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہوسکتا ہے کہ اگر ذہانت کے ساتھ تجسس بھی مل جائے تو یہ جینیئس ہونے کا ایک زبردست فامولا بن جاتا ہے۔

لیکن یہ بات اتنی بھی سچ نہیں کیونکہ اس معمے کے کئی حصے ہیں۔

جینیئس کی خصوصیات

کسی بھی شعبے کے جینیئس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا نام بنانے سے پہلے اس شعبے میں بہت علم اور مہارت حاصل کرے اور اس کام میں برسوں لگتے ہیں۔

جذبے یا عزم کے موضوع پر تحقیق کا آغاز یونیورسٹی آف پنسلوینیا سے منسلک ماہرِ نفسیات، پروفیسر انجیلا ڈکورتھ نے کیا تھا اور ان کی تحقیق کے  نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ دہانت یا آئی کیو اور تجسس کی طرح  جذبہ بھی کسی شخص کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اس کے علاوہ جینیئس افراد ایک اور دماغی حمکت عملی کو بھی استعمال کرتے ہیں جسے ’میٹاکوگنیٹیو‘ حکمت عملی کہتے ہیں جس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو بہتر منصوبہ بندی، اپنی کارکردگی پر نظر رکھنے اور زیادہ مؤثر حکمت عملی  اپنانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔

اگر ہم اپنے کام کے بارے میں سوچتے نہیں اور اس کا تنقیدی جائزہ نہیں لیتے تو ہم بہت سا وقت برباد کر دیتے ہیں جو اصل میں ہم کسی بہتر حکمت عملی پر تلاش کرنے میں صرف کر سکتے ہیں۔

ہو سکتا آپ کو یہ بات عام لگے، لیکن کچھ لوگوں کو ان کی کوششوں سے زیادہ سے زیادہ پھل پانے  کے لیے اپنی حکمت عملی کے بارے میں سوچنا مشکل لگتا ہے، اور اس وجہ ان  کے لیے کسی اعلی مقام پر پہنچنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔

آخری عنصر دانشورانہ عاجزی ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن یہ جینیئس کی بنیادی خصوصیت ہوتی ہے۔

انڈیانا کی بال سٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک ماہر، ٹینیل پورٹر کی حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی خامیوں اور حدود کو سمجھنے  کی صلاحیت آپ کو اپنی غلطیوں سے نمٹنے اور اپنی سوچ میں کمی کو پُر کرنے کا جذبہ دیتی ہے۔

لگتا ہے کہ فینمین کو اس بات کا ادراک ہے۔

شاید اسی وجہ سے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں غلط جوابات کی نسبت،  شک اور غیر یقینی کی صورتحال کو زیادہ آسانی سے برداشت کر سکتا ہوں۔‘

جینیئس کی خصوصیات

جین مائیکل بسکیٹ کا ایک فن پارہ

یہاں تک کہ اگر کسی میں جینیئس بننے کے لیے یہ تمام  خصوصیات موجود ہیں، تب بھی قسمت ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے کہ کون اپنے ساتھیوں سے اوپر اٹھے گا اور کون ایسا نہیں کر سکے گا۔

آپ کے لیے صحیح وقت میں صحیح مقام اور صحیح لوگوں میں گھرا ہوا ہونا چاہیے تاکہ آپ اپنی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں اور یہ قسمت کا کھیل ہے جس میں بہت سے ہونہار لوگ بھی اچھے مواقعوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔

اسی لیے ہمارے لیے کسی ایسے زبردست سائنسدان کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے جسے کسی اچھی تجربہ گاہ میں کام ہی نہیں کرنے دیا گیا اور یوں اسے اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینا کا موقع ہی نہیں ملا۔ یا ایک فنکار جس کے پاس اپنے کام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے  کا موقع اس وجہ سے نہیں ملا کہ اس کے ارد گرد ایسے کوئی افراد نہیں تھے جو اس کی سرپرستی کرتے اور سماجی رابطے بڑھانے میں مدد دیتے۔

ان سب باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کے جینیئس بننے میں ہم اس کی راہ میں حائل نسل، صنف اور جنسی میلان جیسی معاشرتی رکاوٹوں کا ذکر نہ کریں جن کی وجہ سے کتنے ہی ذہین دماغ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں  اٹھا سکتے اور انھیں وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

ورجینیا وولف نے اپنی کتاب ’اے روم آف ونز اون‘ (آپ کا اپنا کمرہ) میں درست کہا تھا کہ تخلیقی صلاحیتوں کے لیے بنیادی ضروریات، جیسے کام کرنے کے لیے وقت اور تخلیہ وہ چیزیں ہیں جن سے آبادی کا ایک بڑا حصہ محروم رہا ہے اور آج بھی ہے۔

کامیابی میں خوش قسمتی کا کردار کامیاب لوگوں کو اپنی کامیابی پر اترانے سے باز رکھتا ہے، یہاں تک کہ  کئی لوگ مختلف شعبوں میں نام پیدا کرنے بعد بھی انکساری سے کام لیتے ہیں۔

جینیئس کی خصوصیات

فلم میں ورجینیا وولف کا کردارنکول کڈمین نے ادا کیا ہے

منکسر المزاج جینیئس

بدقسمتی سے، بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جینیئس کی راہ میں پھول ہی پھول ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خیال میں اگر غیر معمولی دماغی صلاحیت کے حامل ہیں تو زندگی میں کامیابی ان کا مقدر ہے اور کوئی چیز انھیں نہیں ہرا سکتی۔ اس قسم کے لوگوں میں چونکہ انکساری نہیں ہوتی، اس لیے اکثر ان کی شہرت داغدار ہو جاتی ہے۔

سائنس کے مضامین پر لکھنے والے طویل عرصے سے ’نوبیل بیماری‘ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اصطلاح کچھ ایسے نوبیل انعام یافتہ افراد کے رجحان کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جو  غیر منطقی نظریات پیش کرنے لگتے ہیں۔

کئی ایسے سائنسدان  جنھوں نے سٹاک ہوم سٹی ہال میں اپنے اپنے شعبوں میں نوبیل انعام وصول کیا لیکن ان ذہین لوگوں نے ایچ آئی وی ایڈز، موسمی تبدیلی، ویکسین کی افادیت جیسی سائنسی حقیقتوں سے انکار کیا اورہومیوپیتھی جیسے غیرسائنسی علاج کے حق میں مضحکہ خیز جواز پیش کیے ہیں۔

یقیناً سقراط نے ہمیں اس بارے میں ہزاروں سال پہلے سکھایا تھا۔

 ہمیں یہ بات ہزاروں برس پہلے سقراط نے بتا دی تھی جب وہ بھی آخر کار اس نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ سب سے زیادہ عقلمند لوگ وہ ہوتے جو سجھ جاتے ہیں کہ ان کا علم محدود ہے۔

 یہ سبق آج کے جینیئس لوگوں کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ یہ 2400 سال پہلے تھا۔

قطع نظر اس کہ آپ کتنے بڑے جینیئس ہیں، لیکن ضروری نہیں آپ کو ہر بات کا علم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments