گھڑی چوری نہ ہوتی اگر۔ ۔ ۔


گھڑی چوری کی کہانی نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گھڑی دو گھڑی کی بات ہوتی پریشانی نہ ہوتی۔ لگتا ہے کہ یہ کہانی تو برسوں چلے گی اور شرمندہ کرتی رہے گی۔ اس واقعے پر اکادمی ادبیات پاکستان کے ایک حالیہ لیکن تاریخ ساز پروگرام کی یاد تازہ ہو گئی لیکن اس سے پہلے ڈاکٹر اسلم جاوید کی کہانی۔

ڈاکٹر اسلم جاوید پاکستان کے فرزند ہیں لیکن ایک زمانہ کینیڈا اور امریکا میں گزار کر جو کچھ دیکھا اور سیکھا، اب یہ سارے ہنر اور تمام مہارت پاکستان میں لا کر اپنے دیس کی خدمت میں گردن گردن ڈوبے ہوئے ہیں۔

اپنے ہاں جیسا ہوتا ہے، دنیا دیکھنے اور زندگی بنانے کے لیے لڑکپن میں اجنبی دیسوں کو سدھار گئے۔ اب وہ لوٹے ہیں تو لڑکپن کی شوخیوں اور شرارتوں کے آثار اب بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن جملے میں کاٹ ساتھ مشاہدے کی گہرائی بھی سننے والوں کے دل موہ لیتی ہے۔

یہ محض اتفاق تھا کہ ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی اس گھڑی کی ہوش اڑا دینے والی کہانی ہم دونوں نے ایک ساتھ سنی اور ایک ساتھ عرق ندامت بہایا لیکن ہر دو کی پریشانی الگ الگ تھی۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ایسے کسی واقعے یا اسکینڈل کی بھنک پڑے تو خیال فی الفور مقامی سیاست اور اس کی مناسبت سے مقامی دھڑے بندی میں الجھ جاتا ہے بیرون ملک پاکستانیوں کی پریشانی مختلف ہوتی ہے۔

ڈاکٹر اسلم جاوید نے اس سلسلے میں ایک حیران کن بات بتائی۔ ان کا تجربہ یہ ہے کہ پاکستان کے تعلق سے اگر کوئی افسوس ناک بات سامنے آتی ہے تو مختلف قوموں کے لوگوں کا ردعمل جدا جدا ہوتا ہے۔

برادرانہ تعلق رکھنے والے ممالک کے لوگوں کا تعلق ہمدردانہ ہوتا ہے۔ ہمدردی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کے وجود سے ڈھارس بندھتی ہے۔ معاملہ گھڑی کی خرید و فروخت جیسا شرم ناک ہو اور ہمارے لیے اس میں شرمندگی کا پہلو ہو اور ہم خود ہی آنکھ ملانے سے ہچکچائیں تو شرمندگی سے بچانے کے لیے کنی کاٹ جاتے ہیں لیکن دو قومیں ایسی ہیں جو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ ان میں ایک ہندو ہیں اور دوسرے بنگالی۔

ڈاکٹر صاحب چوں کہ طب کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس لیے اپنے شعبے کی مثالیں ان کے پیش نظر زیادہ ہوتی ہیں۔ بتایا کہ کسی ہندو یا بنگالی ڈاکٹر کے شانہ بہ شانہ اگر کوئی پاکستانی ڈاکٹر اسپتال کے کسی وارڈ میں داخل ہو تو عین مریضوں اور نرسوں کے سامنے وہ اس قسم کے واقعے پر کوئی چبھتا ہوا جملہ اچھالنا ضروری سمجھے گا جیسے ابھی گھڑی کے تعلق سے اسکینڈل سامنے آیا ہے تو وہ ایسا کہنے سے کبھی نہیں چوکے گا کہ ڈاکٹر ابھی میں نے سنا کہ تمہارے ایک لیڈر نے تحفے میں ملنے والی قیمتی چیزیں بیچ ڈالیں۔ اتنا کہہ کر وہ کوئی تبصرہ تو نہیں کرے گا لیکن جیسا تاثر دے گا، اس سے سب کچھ واضح ہو جائے گا۔

ڈاکٹر صاحب اپنا مشاہدہ اور تجربہ بیان کر کے دکھ کے عالم میں خاموش ہو رہے لیکن مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی ایک کہانی یاد آ گئی ”لنگڑا رمجو۔“ لنگڑا رمجو ایک باعزت گھرانے کا چشم و چراغ تھا لیکن صحبت بد کا شکارہوا اور اسے چوری کی لت لگ گئی۔ اس عادت بد نے اسے ایک ٹانگ سے محروم اور خاندان کو رسوا کیا۔

اس کہانی کا یاد آنا تھا کہ میرے ذہن میں اکادمی ادبیات پاکستان کی کانفرنس کے مناظر تازہ ہو گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد یوسف خشک نے جب سے اس ادارے کا نظم و نسق سنبھالا ہے، اس ادارے میں زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ دو ڈھائی برس سے جب سے انھوں نے چارج سنبھالا، کئی نئے تجربات کیے۔

پاکستان کی تمام قومی زبانوں میں مقامی ادب کی ترویج و اشاعت کے کامیاب منصوبے بنائے۔ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان جیسے مقامات پر اکادمی کے ذیلی ادارے قائم کیے اور ادب کے مختلف شعبوں سے متعلق پروگراموں کا تانتا باندھ دیا۔

ان کا تازہ کارنامہ ادب اطفال پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہے۔ اس کانفرنس میں انھیں دائرہ علم و ادب کے احمد حاطب صدیقی المعروف ابو نثر، ڈاکٹر افتخار کھوکھر، ریاض عادل، ڈاکٹر اشرف کمال، ڈاکٹر شیر علی سمیت بہت سے دوستوں کا تعاون حاصل تھا۔ کانفرنس میں افتخار عارف، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر فاطمہ حسن جیسے سینئر ادیبوں اور شاعروں نے بھی شرکت کی۔

تین روز تک جاری رہنے والی کانفرنس میں کتنی وسعت اور بھرپور نمایندگی تھی، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہماری نسل کے لوگوں نے پینتالیس پچاس برس قبل بچوں کے جن ادیبوں کو پڑھ کر پہلے پڑھنا اور پھر لکھنا سیکھا، وہ بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ لنگڑا رمجو نام کی کہانی رہ رہ کر یاد آ جاتی ہے۔

یہ کہانی میں آٹھ نو برس کی عمر میں پڑھی ہوگی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کے مصنف امان اللہ نیر شوکت صاحب تھے۔ اس زمانے میں وہ بچوں کے مقبول رسالے نور میں لکھا کرتے تھے بعد میں انھیں لاہور سے شایع ہونے والے بچوں کے بچے اتفاق کی ادارت کاموقع بھی ملا۔

یہاں اکادمی ادبیات پاکستان کی ادب اطفال سے متعلق کانفرنس، کہانی لنگڑا رمجو اور اس کے مصنف بے سبب یاد نہیں آئے۔ بچوں کا ادب کیوں لکھا جاتا ہے اور والدین اسے بچوں کو پڑھانے کا اہتمام کیوں کرتے ہیں؟

اس سلسلے میں ایک عمومی خیال یہ ہے کہ بچوں میں مطالعہ کی عادت پیدا کرنے کے لیے۔ یہ سبب بھی درست ہے لیکن اس کی اور بھی کئی وجوہات ہیں جیسے اپنی ثقافت کی پہلی نسل سے دوسری نسل کو منتقلی، تاریخ کا شعور۔ ضروری دینی تعلیم اور نا پختہ ذہنوں میں پسندیدہ اخلاقی راسخ کرنا۔ یہ ایک ایسا مستقل فریضہ ہے جس کی ابتدا ماں کی گود سے شروع ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے، دیگر ذرایع بھی اپنا کردار ادا کرتے جاتے ہیں۔ ہماری سرزمین سے مغرب چلا گیا لیکن ہمارے ذہنوں میں مغرب سے مرعوبی کی ایسی کیفیت پیدا کر گیا جس سے آج تک چھٹکارا ممکن نہیں ہو سکا۔ یہ جو ہمارے بعض لیڈر اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ ابتدائے اسلام کے زمانے میں لشکر اسلام لوٹ مار کیا کرتا تھا، یہ بھی اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔

لوگوں نے اپنے مغرب کے رنگ ڈھنگ میں رنگنے کے لیے انھیں مغربی لٹریچر پڑھوایا اور وہ ایسے رنگ میں رنگے گئے کہ عالم جوانی میں پلے بوائے بن کر ابھرے۔ بعد کے زمانوں میں کچھ واضح اور غیر واضح مقاصد کے لیے وہ مذہب کی طرف متوجہ ہوئے تو بھی ایسے لوگوں کی معرفت جن کا تصور دین نازک اندام بدن کی کیفیات اور درختوں کے سائے ناپنے سے زیادہ نہیں تھا۔

مذہب اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار بھی انسان کے رگ و پے میں بھر دیتا ہے، اس کی انھیں کوئی خبر نہ تھی۔ ایسی مذہبی یا غیر مذہبی تربیت کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ منہ زور بچے جہاں جاتے ہیں، داستاں چھوڑ آتے ہیں، کبھی چوریوں کی صورت اور کبھی ایسی داستانوں کی صورت، شرفا جنھیں زباں پر لانے سے گریز کرتے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ بڑا ہونے کے دعوے داروں نے لنگڑا رمجو نامی کہانی پڑھ رکھی ہوتی تو چوری خواہ گھڑی کی ہوتی، خواہ ہیرے کی انگوٹھیوں کی، کبھی ا س عادت بدکے قریب نہ جاتے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک جادوئی کہانی تھی۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments