سیلز مین: ہوائیں بیچتے، نیلام رنگ و بو کرتے


اچھے سیلز مین سب کچھ بیچ جاتے ہیں۔

کچھ سائیکل پر کپڑا بیچتے فیکٹریوں کے مالک بن گئے اور کچھ سریا بیچتے فیکٹریوں کے مالک بن گئے، زیادہ بڑے سیلز مین وہ تھے جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ پھر بھی بیچ رہے تھے اور بیچ بھی گئے جیسے کسی نے ایک عربی شہزادے کو ملکہ برطانیہ کا آدھا محل بیچ دیا جو کہ صرف سیاحوں کے لئے کھولا گیا تھا، شہزادے نے اس کی خاصیت پوچھی تو اس نے بیان کی کہ آپ روزانہ ملکہ برطانیہ کے ساتھ چائے پی سکیں گے، اور وہ سیلز مین گھر بیچ گیا، اور رجسٹری بھی کروا دی، پھر شہزادے کو پتہ چلا کہ اس کے ساتھ تو فراڈ ہو گیا ہے، ایک شخص نے تین دفعہ ایفل ٹاور بیچا اور ہر دفعہ ایفل ٹاور بیچنے پر گرفتار ہوا سزا کاٹی اور رہائی کے فوراً بعد دوبارہ سیل کر دیا۔

ہمارے یہاں بہت سے پراپرٹی کے شعبہ سے وابستہ کئی لوگ راولپنڈی، اسلام آباد کے ٹوٹل رقبے سے زیادہ اس کو بیچ چکے ہیں۔ شاید اب گوجر خان سے اٹک تک راولپنڈی اسلام آباد ہی ہے، جب سب بک جاتا ہے تو متعلقہ ادارے اس دن اخبارات میں خبر اور اشتہارات لگاتے ہیں کون کون سی ہاؤسنگ سوسائٹی کی منظوری نہیں ہے، جب یہ فروخت ہوتا ہے اس کی ایڈورٹائزنگ ہوتی ہے یہ سب نشہ کر کے سو رہے ہوتے ہیں کوئی ہوش میں نہیں ہوتا۔

کچھ لوگ کروڑوں دے کر مختلف محکموں میں تعیناتی کرواتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اتنے کروڑ تو اس ادارے کا سالانہ بجٹ نہیں ہے،

کچھ سیلز مین حکومت سے چیزیں خریدتے ہیں اور ان کے قریبی ان سے کسی اور کے نام سے خریدتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں دس گنا قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ اور بدنام پہلا بیچنے والا ہوجاتا ہے۔

ایک آرٹسٹ دوست نے بتایا کہ یار آرٹسٹ تو ایک بنیادی قیمت پر آرٹ پیس بیچتا ہے پر اس کو مہنگے داموں کچھ عرصے بعد کولیکٹر بیچتا ہے اور اصل قیمت سے کئی ہزار گنا کماتا ہے۔

ان کی اپنی پینٹنگ ملینز ڈالرز میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ وہ اسکو چند لاکھ پاکستانی روپے میں کچھ سال پہلے فروخت کرسکے تھے۔

ہمارے فوٹوگرافی کی فیلڈ میں کامیاب سیلز مین وہی ہیں جو استعمال شدہ کیمرے فروخت کرتے ہیں اور کیمرے سے متعلقہ اشیاء بیگ، لینز، کارڈ، لائٹ وغیرہ بیچتے ہیں، نئے کیمرے میں تو ان کو صرف فارن ٹور ہی بچتا ہے، باقی وہ ڈسکاونٹ دے دیتے ہیں۔

میں پرندے پالنے کا شوقین ہوں۔ اس شوق میں بھی چند لوگ بہترین سیلز مین کی صلاحیت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ رقم منگوا لیتے ہیں اور پرندے نہیں بھیجتے، وہ جعلی کارڈ پر ایزی پیسہ یا جاز کیش پر پیسے منگواتے ہیں، اور شہر کا نام غلط استعمال کرتے ہیں اور پھر فون نمبر بھی وہ استعمال کرتے ہیں جس کا کوئی ڈیٹا نہیں ہوتا، پچھلے دنوں میں بھی سیالکوٹ سے کسی سیلز مین کی چالاکیوں کا شکار ہوا پر الحمدللہ 24 گھنٹے میں پیسے میرے اکاؤنٹ میں واپس آچکے تھے۔

روزانہ کی بنیاد پر مختلف فون کمپنیوں کا نام لے کر انعامات کے اعلانات کے فون، احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ کی رقم کے پیغامات تو عام سی روٹین ہے، بہت سارے لوگ اپنے اکاؤنٹس کی ڈیٹیلز دے کر اپنی جمع پونجی سے محروم ہوچکے ہیں۔

سنا ہے کہ مسجد سے چوری شدہ ٹوٹیاں، جوتے، اور پنکھوں کے استعمال سے بھی ثواب ملتا ہے، اور یہ مختلف قسم کے سیلز، مین ہیں جو اس سامان کی فروخت کے مختلف فائدے بتاتے ہیں اور بیچ دیتے ہیں، یہ اللہ کے نیک بندے حرم شریف سے قرآن کے نسخے چرانا بھی نیکی تصور کرتے ہیں، یہ سیلز مین جائے نماز پر حرم اور مسجد نبوی کی تصاویر لگا کر ان کو آسانی سے بیچ دیتے ہیں، آج کل ایک نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے خانہ کعبہ کی تصویر والی گھڑی کہ جب آپ وقت دیکھیں تو آپ کی نظر خانہ کعبہ پر پڑے اور سیلز میں اس کو بھی بیچ دیتے ہیں،

مجھے یاد ہے ٹی وی کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں زاہد بگا سے ملاقات ہوئی جن کے پاس اس وقت دو خانہ کعبہ کے مکمل غلاف تھے اور انھوں نے یہودیوں سے خریدے تھے کیونکہ مسلمان شہزادے پیسوں کے لئے ان کو یہودیوں کے پاس بیچ چکے تھے،

محترم سیلز مین دوستوں ہر چیز برائے فروخت نہیں ہوتی، کچھ چیزوں کا احترام اور حیا ضرور کرنا چاہیے، ملکی اثاثہ جات اور ملکی راز بیچنے کو سیلز مینی نہیں کہتے۔

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments