فیفا ورلڈ کپ: کس کو بدلنا چاہیے؟


اتوار، 20 نومبر کو بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ایک انتہائی پر رونق تقریب سے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کا قطر میں افتتاح ہوا۔ فٹبال کی تاریخ میں یہ پہلا ورلڈ کپ ہے جس کی میزبانی کا شرف کسی مسلم ملک کو حاصل ہوا ہے۔ دنیا کا مقبول ترین کھیل ہونے کی وجہ سے فٹبال ورلڈ کپ ہمیشہ تفریح اور سیاحت کے ساتھ ساتھ کلچرل ایکسچینج کا بھی ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ورلڈ کپ شروع ہوتے ہی شائقین میزبان ملک کا رخ کرتے ہیں۔

جہاں وہ سرمایہ کے ساتھ ساتھ اپنی رسم و رواج، تہذیب و تمدن اور زندگی گزارنے کے طور طریقے لے جاتے ہیں۔ لیکن خلاف معمول اس بار قطر میں سرکاری سرپرستی میں کچھ ایسے اقدامات اٹھائے گئے جس کی وجہ سے پاکستان کے مذہب پسند اور لبرل خیالات رکھنے والوں کی طرف سے فٹبال سے زیادہ ان باتوں میں دلچسپی لی جانے لگی ہیں۔

پہلی بات یہ کہ اس بار ورلڈ کپ کے رسمی تقریب کی افتتاح تلاوت کلام پاک سے ہوئی جو بلاشبہ فٹبال کی تاریخ میں ایک انوکھا تجربہ ہے۔ دوسرا یہ کہ قطر کے انتظامیہ نے سرکاری سرپرستی اور سرکاری خرچ سے دنیا کے مقبول ترین مبلغین کو اسلام کا پیغام شائقین میں پھیلانے کے لئے مدعو کیا۔ جن میں سے سب سے قابل ذکر نام معروف بھارتی مبلغ ذاکر نائیک کا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پہلے ہی دن شائقین کی ایک بڑی تعداد کی اجتماعی قبول اسلام کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جو کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں نے دیکھی اور شیئر کی۔

افتتاحی تقریب کی تیسری اہم بات قطر کے شیخ کا تقریب سے خطاب تھا جس میں اس نے دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم ایک مہینے کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی ملنے کی بدلے باہر سے آئے ہوئے شائقین کو ان باتوں کی آزادی نہیں دے سکتے جو ہماری مذہب اور کلچر سے متصادم ہے۔ یہاں اس گفتگو میں یہ آخری نقطہ ہمارا موضوع بحث ہو گا۔

گفتگو کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم یہ سوال سامنے رکھیں گے کہ بدلنا کس کو چاہیے؟ قطر انتظامیہ کو، بیرون ممالک سے آئے ہوئے شائقین فٹبال اور سیاحوں کو۔ یا پھر رواداری اور بقائے باہمی کے زریں اصول اپناتے ہوئے ایک دوسرے کے طرز زندگی کا احترام کرنا چاہیے۔

شیخ کی اس بات نے کہ ہم اپنے مذہب اور کلچر پہ کمپرومائز نہیں کر سکتے، بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ پہلی بات یہ کہ دنیا میں رہنے والا بچہ بچہ جانتا ہے کہ فٹبال زیادہ تر مغربی ممالک میں کھیلا جاتا ہے اور مغرب کے لوگ اس کھیل کے ساتھ جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ قطر، سعودی عرب، ایران، تیونس اور سینیگال کے علاوہ ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی باقی ٹیمیں غیر مسلم ممالک کے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ کہ قطر تبدیل نہیں ہو گا، لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسری طرف سے بھی یہ کہا جائے کہ دو ہفتے قطر میں رہنے کے لئے ہم اپنا لائف سٹائل چینج نہیں کر سکتے۔

اگر قطر نے غیر مسلم شائقین کے لائف سٹائل کا احترام نہیں کرنا تھا پھر یہ جانتے ہوئے کہ فٹبال کھیلنے والے ممالک کی اکثریت غیر مسلم ہے، میزبانی کیوں کر رہا ہے۔ اور اگر غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ میزبانی حاصل کرنے کے لئے قطر کی طرف سے نہ صرف درخواست آئی تھی بلکہ دوست ممالک کی سپورٹ حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ بھی کی تھی۔ فیفا نے از خود میزبانی کرنے کے لئے قطر سے درخواست نہیں کیا تھا۔

بدقسمتی سے مسلمانوں کا ہمیشہ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ دوسرے اقوام کے ساتھ برادرانہ سیاسی، معاشی اور ثقافتی تعلقات استوار کرنے کی بجائے ہمیشہ ان کو مسلمان بنانے کے لئے زیادہ فکر مند رہتے ہیں۔ حالانکہ افضل طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے قول و فعل، بود و باش اور لین دین کو ایسا بنائے کہ جس کو دیکھ کر ایک غیر مسلم اتنا متاثر ہو جائے کہ وہ قبول اسلام کا شرف حاصل کریں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر باہر کے ممالک سے آئے ہوئے شائقین پہ پابندیاں لگانے کی بجائے قطر اپنے شہریوں کی ایسی کردار سازی کرنے کی کوشش کرتا کہ جس کہ اثر سے لوگ خود بخود مسلمان ہو جاتے۔

آخری بات یہ کہ مسلمان ہمیشہ دنیا کو مذہب کے زاویے سے دیکھتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بحیثیت انسان ہماری دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بہت ساری قدریں مشترک ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں کوئی بھی ملک یا قوم دوسری اقوام اور ممالک کے ساتھ اپنی نظریاتی، ثقافتی، تجارتی اور زمینی سرحدیں بند کر کے نہیں رہ سکتا۔ جن مسلم ممالک مثلاً ترکی، ملیشیا، متحدہ عرب امارات اور اب سعودی عرب نے اس حقیقت کو تسلیم کیا وہ نہ صرف آج دنیا بھر میں ٹور ازم کے لئے مشہور ہو گئے ہیں۔ بلکہ ان ممالک کی ترقی میں ٹور ازم سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نمایاں کردار رہا ہے۔

حیرت انگیز طور پر ان ممالک میں ٹور ازم پروموٹ کرنے سے نہ تو لوگوں اسلام سے متنفر ہوئے اور نہ کبھی الحادی نظریات ان ممالک کے لئے باعث تشویش بنے ہیں۔ یقین مانیے دینا میں آج ایک ترک، ملیشیائی اور اماراتی مسلمان کو ایک پاکستانی، ایرانی اور سوڈانی مسلمان سے زیادہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

لہذا اب وقت ہے کہ مسلمان اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ اقوام عالم کے ساتھ تعلقات رکھنے کا واحد معیار مذہب نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت انسان کچھ مجموعی اقدار ہیں جن کی بنیاد پر مثبت، دیرپا اور برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھے جا سکتے ہیں۔ اگر مغربی ممالک اپنے ہاں مسلمانوں کو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور مسلمان خواتین کو پردہ کرنے کی پوری آزادی دے رہے ہیں تو یقین مانیے کسی یورپین یا امریکن کے کسی مسلمان ملک میں شراب نوشی یا بوس و کنار سے کوئی آسمان نہیں گرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments