تقرری کی سمری: بے قراری سی بے قراری ہے


دنیا کے جمہوری ممالک میں فوج کے سربراہ کی تعیناتی معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ آرمی کا سربراہ رخصت ہوتا ہے تو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ایک نیا سربراہ فوج کی کمان سنبھال لیتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور صحافتی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو جنرل باجوہ کی رخصتی اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی ایک ہارٹ ایشو ہے اور لگتا ہے جیسے سب کچھ اس تقرری کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ سطور لکھنے تک سمری فائنل نہیں ہوئی تھی۔ آرمی چیف کی تعیناتی کا نہایت واضح آئینی طریقہ کار موجود ہے، کہ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے۔ اس کے باوجود رنگ برنگے تبصروں، تجزیوں، بیانات اور مشوروں کی گونج ہے۔

پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کو سامنے رکھیں تو جب بھی آرمی چیف کے تقرر کا مرحلہ آیا تو یہ تعیناتی ایک اہم موضوع کی حیثیت سے زیر بحث آئی۔ لیکن اس بار ایک ہیجان بپا ہے۔

حکومت ہویا اپوزیشن سب اپنے تمام مسائل کا حل نئے آرمی چیف کی تقرری میں دیکھ رہے ہیں حالانکہ آرمی چیف کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ اس کی تقرری سے چٹکی بجاتے ہی مسائل حل ہو جائیں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہو رہے ہیں تاہم اب تک حکومت نے ان کے متبادل کا اعلان نہیں کیا۔ فوج کے جن سینیئر ترین جنرلز، میں سے آرمی چیف کو تعینات کیا جاسکتا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سینیارٹی اور پیشہ ورانہ زندگی کا مختصر خاکہ قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے۔

1۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا تعلق فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے ہے ان کی پروموشن اکتوبر 2018 میں ہوئی تھی۔ تاہم انھوں نے رینک تقریباً ڈیڑھ مہینے کی تاخیر سے لگایا جس کی وجہ سے ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ اپنے جونیئرز کے بعد ہے۔ موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے دو روز پہلے ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کے لیے بھی اہلیت رکھتے ہیں، کیونکہ چیرمین جوائنٹ کی ریٹائرمنٹ کے دن جنرل عاصم حاضر سروس ہوں گے۔ آرمی چیف کے عہدے کے لیے انھیں دو دن پہلے توسیع یا موجودہ آرمی چیف کی دو روز قبل ریٹائرمنٹ کرنی ہوگی۔

2۔ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا سندھ رجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اس وقت 10 کو رکی کمان کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ فوج کے اہم ترین عہدوں اور بطور چیف آف جنرل سٹاف تعینات رہے۔ اپنے کیریئر میں تین بار یعنی بطور میجر، لیفٹیننٹ کرنل، بریگیڈیئر، جنرل ملٹری آپریشنز ایم او ڈائریکٹوریٹ میں تعینات رہے۔ وائس چیف آف جنرل سٹاف رہے اور چیف آف جنرل سٹاف کے منصب پر بھی فائز رہے۔ بطور میجر جنرل انھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی اس ڈویژن کی کمان کی جو اس وقت جنوبی وزیرستان میں ہونے والے آپریشنز کی نگرانی کر رہی ہے۔

3۔ لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، اس وقت فوج کے اہم ترین عہدوں میں سے ایک یعنی چیف آف جنرل سٹاف کے طور پر تعینات ہیں۔ اس سے قبل انھوں نے 10 کو رکی کمانڈر کی۔ وہ بطور میجر جنرل کمانڈنٹ انفنٹری سکول، مری کے جی او سی اور جنرل (ر) راحیل شریف کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے۔

4۔ لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر ہیں اور ایک مضبوط کیریئر کے حامل ہیں۔ فوج میں انھیں خاص طور پر پاکستان کی مغربی سرحد کا ماہر مانا جاتا ہے۔ ان کے والد کرنل راجہ سلطان 1971 کی جنگ میں شامل تھے نعمان محمود نے اپنے والد کی یونٹ 22 بلوچ کی کمانڈ بھی کی۔ لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پریزیڈنٹ ہیں۔ اس سے قبل وہ پشاور کے کور کمانڈر رہے۔ شنید یہ ہے کہ وہ دفتر میں کم ہی بیٹھتے ہیں، ان کا زیادہ وقت فارورڈ ایریاز میں گزرتا ہے۔

انھیں سابق فاٹا کی جنگ کا ماہر سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ ان کی اسائنمنٹس ہیں۔ وہ بریگیڈئیر کے طور پر 11 کور میں چیف آف سٹاف، بطور میجر جنرل شمالی وزیرستان ڈویژن کی کمان کی اور افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کے منصوبے کی نگرانی کی۔ آئی ایس آئی میں تجزیاتی ونگ کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔

5۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ وہ جنرل باجوہ کے چیف آف سٹاف رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید آئی ایس آئی میں اپنے کیریئر کے دوران مختلف تنازعات کا بھی شکار رہے۔ نومبر 2017 میں تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے میں ان کا نام سامنے آیا۔ تنظیم اور حکومت کے درمیان چھ نکاتی معاہدے میں ان کی مدد شامل رہی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کے توسط سے آرمی چیف سمیت افواج پاکستان کے سربراہان کو حکم دیا تھا کہ وہ ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے ’اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی۔

‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے وقت وہ سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر ہوں گے۔ ان کے بارے میں فوج میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے کام کو تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ وہ آئی ایس آئی میں کا ؤنٹر انٹیلی جنس سیکشن کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں اور آئی ایس آئی کی سربراہی سے قبل کچھ ہفتوں کے لیے ایڈجوٹینٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

6۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کی پہچان اس فہرست میں غالباً خاموش ترین طبیعت کے افسر کی ہے۔ آرٹلری سے تعلق رکھتے ہیں اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ملٹری سیکرٹری بھی رہے۔ وہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ڈائریکٹر جنرل سٹاف ڈیوٹیز تھے اور آرمی چیف سیکرٹریٹ کے امور کی نگرانی کرتے تھے۔ بطور میجر جنرل انھوں نے لاہور ڈویژن کمانڈ کی۔ اس وقت وہ گوجرانوالہ کور کی کمان کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایڈجوٹینٹ جنرل تھے۔

7۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد چراغ حیدر کا تعلق فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے ہے۔ بطور بریگیڈیئر وہ ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ میں تعینات رہے۔ بھارت کی جانب سے ستمبر 2019 میں لائن آف کنٹرول کے پاس سرجیکل سٹرائیک کے وقت وہ جہلم ڈویژن کی کمانڈ کر رہے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل چراغ حیدر ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ، جبکہ ڈی جی جوائنٹ سٹاف کے عہدے پر بھی تعینات رہے۔ اس وقت وہ کور کمانڈر ملتان ہیں۔

آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں جو بھی کسی کے خیالات ہیں اس سے صرف نظر کرتے ہوئے آرمی چیف کی میرٹ پر تقرری ہو جائے تو بہت سے فتنوں کا دروازہ بند کیا جاسکتا ہے۔ سینئر موسٹ جنرل کو آرمی چیف بنانے کا اصول طے ہو جائے تو ہر مرتبہ تقرری سے قبل فشار خون میں تلاطم بپا کرنے والی بحث سے نجات ممکن ہے۔ البتہ آئین کی رو سے وزیر اعظم کے پاس اختیار ہے کہ وہ چند سینئر جرنیلوں میں سے جسے چاہے فوجی سربراہ مقرر کر دے۔ اب تک یہ روایت رہی کہ صدر یا وزیر اعظم کی جانب سے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبر کی سنیارٹی کے حامل کو اس منصب پر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ بلا شبہ کور کمانڈ کرنے والا ہر جنرل سربراہی کی اہلیت رکھتا ہے، ان میں سے کسی کو بھی آرمی چیف مقرر کیا جاسکتا ہے، تو بہتر ہے کہ سب سے سینئر کو نہ بنا دیا جائے۔

تعیناتی کے حوالے سے ”سب کے لئے قابل قبول“ فارمولا طے کرنا موجودہ حالات میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ ”بھگوڑے اور مفرور“ کو تعیناتی کے ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے نہیں دیں گے۔ اسی لئے انہوں نے راولپنڈی آنا 26 نومبر تک موخر کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا دھرنا مرضی کی تقرری میں مددگار ثابت ہو گا۔ گویا دونوں طرف یہ عالم ہے۔

بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments