توشہ خانہ


نبی کریم ﷺ صادق اور امین تھے۔ آپ نے جو ریاست قائم کی اس میں پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رض نے خلافت سنبھالتے ہی مفادات کے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے اپنا کپڑے کا کاروبار بند کر دیا۔ اپنی تنخواہ ایک مزدور جتنی رکھی۔

دوسرے خلیفہ حضرت عمر رض نے قحط میں اپنے گھر گھی اور گوشت کا داخلہ منع کر لیا۔ خود احتسابی کا عالم یہ تھا کہ کرتا تہبند پر سوال اٹھا یا گیا کہ سب کو ایک چادر ملی اور ایک چادر میں جوڑا بننا ممکن نہیں تو بیٹے نے گواہی دی کہ اپنے حصے کی چادر اس نے والد کو دی۔

تیسرے خلیفہ عثمان غنی رض کے مالی معاملات کی تو کیا بات کی جائے کہ مسلمانوں کے لیے خریدے گئے میٹھے پانی کے کنویں سے انہیں جو رسالت ماب وہ سے جو بشارت ملی۔ کیا کہنے۔

اور چوتھے خلیفہ جناب حضرت علی رض بھی مسلمانوں کے خلیفہ بنے تو صدق و دیانت اور امانت داری میں مثال قائم کی۔

اب لگ بھگ کوئی چودہ صدیوں بعد برصغیر کے مسلمان حکمرانوں اور سیاستدان اشرافیہ نے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا کہ ہمیں یہ مثالیں انفرادی اور اجتماعی طور پر قائم کرنے کے لیے ایک علیحدہ وطن چاہیے، اس بیانیے کا درست یا غلط ہونا ہمیشہ سے ایک بحث کا موضوع ہے اور رہے گا اس سے قطع نظر مسلمانوں نے اس نعرے پر لبیک کہا اور پاکستان بن گیا۔

پھر ان حکمرانوں نے یہاں حکومت اور لبیک کہہ کر اپنا تن من دھن نچھاور کرنے والوں نے محکومیت کا آغاز کیا۔ آئیے صرف عہد حاضر میں ”توشہ خانہ“ کے تناظر میں اس بحث کو دیکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ توشہ خانہ ایک ایسا سرکاری دفتر ہے جس میں ملک کے سربراہان کو اندرون یا بیرون ممالک سے ملنے والے تمام تحائف جمع کروائے ہیں۔

ایک غریب مقروض ملک کے لوگ ذرا قانون ملاحظہ فرمائیں کہ تیس ہزار تک کی مالیت کا تحفہ حکمران مفت میں اڑا سکتا ہے جبکہ اس سے اوپر کے تحائف کی بیس فیصد ادائیگی سے وہ تحفہ حاصل کیا جا سکتا ہے جس میں سے یہ تیس ہزار منہا کیے جائیں گے۔

ہندوستان کا حکمران ایک چائے بیچنے والا بن گیا۔ اسے دنیا کے مختلف ملکوں سے قیمتی ترین تحائف ملے اسے پینٹنگز جمع کرنے کا شوق بھی تھا اور تحائف میں بہت قیمتی اور نادر پینٹنگز تھیں۔ اس نے ان پینٹنگز کی بولی لگوائی اور بقول اس کے اس نے سو کروڑ سے زیادہ کی رقم توشہ خانے میں جمع کروا کر اسے بچیوں کی تعلیم کے لیے وقف کر دیا۔

پاکستان میں سب سے پہلے تو یہ سوال اپنی جگہ ایک ایسا سوال ہے جسے پڑھتے ہوئے قارئین کے زرخیز سر نفی میں جنبش کرنے لگیں گے کہ کیا یہاں ایک چائے والا ملک کا سربراہ بن سکتا ہے؟

بہرحال اوپر بیان کردہ اسلامی اقدار کی پاسداری کے لیے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تقسیم اور ہجرت کر کے اسلام یعنی صداقت و امانت کے نام پر بننے والی علیحدہ ریاست میں توشہ خانہ پر فوجی حکمرانوں سے لے کر سویلین حکمرانوں تک سب نے ”چوراں دے کپڑے تے ڈانگاں دے گز“ والا ہاتھ رکھا۔

آپ اندازہ لگائیے کہ جنرل ضیاالحق سے جنرل مشرف تک اور جونیجو صاحب سے لے کر نواز شریف صاحب، زرداری صاحب اور پھر عمران خان صاحب تک ہر کسی نے توشہ خانہ سے لوٹ مار کی۔

پاکستانی حکمرانوں کے بچے بھی کروڑ و ارب پتی ہیں۔ کسی کی پاپا جونز پیزا کمپنیاں ہیں کسی کی رئیل سٹیٹ کی کاروباری سلطنتیں۔ کسی کی جائیدادیں لندن کے مے فیئر فلیٹس تک پھیلی ہیں جو باپ دادا کے ارب پتی صنعت کار ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو کوئی سندھ دھرتی کا نسل در نسل مالک ہو کر سرے محل سے دبئی کے محلات کا مالک ہے۔ اور تو اور کوئی تو ریاست مدینہ کا دعوے دار جس کے سائن کیے ہوئے بیٹ یا کرتے کروڑوں میں بکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قوم کے حق کے تیس ہزار روپے تک چھوڑنے کا روادار نہیں۔

کہاں مزدور کے برابر اپنی تنخواہ مقرر کرنے والے، اپنا سوٹ بنانے کے لیے بیٹے سے چادر لینے والے، اور اپنی جیب سے رعایا پر مال خرچ کرنے والے خلفا کی مثالیں کہاں اس رعایا کے خون پسینے سے کروڑوں اربوں روپے کے تحائف دوسرے ممالک کے سربراہان کو دینا اور بدلے میں ملنے والے تحائف کو اونے پونے ڈکار لینا۔

ہماری مثالیں ان سے تو کیا ملتیں، ان سے ہی مل جاتیں جن سے ہم بنام مذہب جدا ہوئے۔ سچ پوچھیے تو ضمیر کا مذہب سب سے بڑا مذہب ہے۔

پس تحریر! غضب خدا کا ایک مزدور کی مہینے بھر خون پسینہ ایک کر کے انتہائی محنت و مشقت کے بعد تیس ہزار اجرت نہیں بنتی جو یہ ارب پتی حکمران انہی مزدوروں کے حق سے مفت میں لے اڑتے ہیں۔ اس ملک کا ایک عام شہری اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ کیونکہ دوسرے ممالک کے سربراہان کو دیے جانے والے تحائف یہ تیس ہزار روپے تک کے مفت خورے ارب پتی حکمران اپنی جیب سے نہیں دیتے اس لیے حکمرانوں کے توشہ خانہ کو مال غنیمت سمجھنے پر پابندی عائد کی جائے اور اس کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کر کے قدرتی آفات (زلزلہ، سیلاب وغیرہ) کے لیے وقف کر دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments