پاکستان کے آرمی چیفس کے دلچسپ حقائق: کوئی فقط ڈھائی ماہ عہدے پر رہا تو کوئی فوجی سربراہ بنتے ہی گرفتار ہوا


جنرل
پاکستان میں بری فوج کے سربراہ کی تعیناتی کتنی اہمیت رکھتی ہے، اس کا اندازہ اس معاملے سے جڑی بحث اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے جو تقریباً گذشتہ ایک سال سے دیے جا رہے ہیں۔

بری فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے متبادل کی تعیناتی اور اس سے جڑے تنازعات اور بیانات سے قطع نظر اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بری فوج کے سربراہان کی تقرریاں اور مدت ملازمت اکثر و بیشتر تنازعات سے گِھری رہی ہے۔

پاکستان فوج کے پہلے ’مقامی‘ کمانڈر ان چیف اور فیلڈ مارشل ایوب خان، جنھوں نے پاکستان کا پہلا مارشل لا بھی لگایا، سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک، تقریباً تمام سپہ سالار کسی نہ کسی تنازع میں ضرور الجھے۔

حکومت اور وزرائے اعظم سے ڈھکے چھپے اختلافات ہوں یا پھر براہ راست مداخت، بری فوج کے سربراہان کا نام عسکری امور کے ساتھ ساتھ سیاست اور حکومت سے بھی جڑا رہا۔

اس تحریر میں پاکستان کی تاریخ سے ایسے ہی چند دلچسپ حقائق کو پیش کیا گیا ہے جن میں ایوب خان کو فوج کا سربراہ بنانے والے ’حادثے‘ سے لے کر ایک ایسے فوجی سربراہ کا تذکرہ بھی موجود ہے جو جنرل نہیں بنے، لیکن چیف آف آرمی سٹاف بن گئے۔

وہ حادثہ جس نے ایوب خان کو فوج کا سربراہ بنا دیا

ایوب خان

پاکستان کی عسکری تاریخ میں جنرل ضیا الحق کے طیارے کو پیش آنے والا حادثہ تو عموماً سب ہی کو یاد ہے لیکن بہاولپور میں پیش آئے اس حادثے سے تقریباً چالیس سال قبل ایک اور واقعہ رونما ہوا جو تاریخ کے اوراق میں کہیں کھو چکا ہے۔

12 دسمبر 1950 کو لاہور سے اڑان بھرنے والا ایک نجی طیارہ اپنی منزل (کراچی) سے تقریباً 65 میل دور گر کر تباہ ہو گیا تھا، طیارے میں سوار 26 افراد میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔

تاہم ان 26 افراد میں دو ایسی شخصیات شامل تھیں جن کی موت نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔

یہ میجر جنرل محمد افتخار خان اور بریگیڈیئر شیر خان تھے۔ میجر جنرل افتخار سروس کے اعتبار سے ایوب خان سے ایک سال جونیئر تھے لیکن ان کو پہلے ترقی ملی اور لاہور میں ڈویژن کی کمان سونپی گئی۔

متعدد مصنفین کے مطابق میجر جنرل افتخار پاکستان کے پہلے مقامی کمانڈر ان چیف کے عہدے کے لیے منتخب کر لیے گئے تھے اور ان کو اسی لیے برطانیہ میں امپیریئل ڈیفینس کورس کے لیے بھیجوایا جا رہا تھا۔

ان کے ساتھ حادثے میں ہلاک ہونے والے بریگیڈیئر شیر خان نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر تنازعے پر پہلی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا اور فوج کے بہترین افسرز میں شمار ہوتے تھے۔

خود ایوب خان اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل افتخار ایک اچھے افسر تھے اور یہ عام تاثر تھا کہ برٹش ان کی حمایت کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کیسے کمانڈر ان چیف بنتے لیکن ان کے لیے مشکلات ہوتیں۔‘

ایوب خان کے مطابق وہ غصے کے تیز تھے۔

شجاع نواز اپنی کتاب ’کراسڈ سورڈز‘ میں لکھتے ہیں کہ بعد میں میجر جنرل بننے والے شیر علی خان پٹوڈی کے مطابق جس دن وزیر اعظم لیاقت علی خان نے میجر جنرل افتخار کو کمانڈر ان چیف کے عہدے سے متعلق آگاہ کیا تو وہ اُن کے ساتھ ہی تھے۔

میجر جنرل شیر علی خان پٹوڈی کے مطابق، ایوب خان نے اس فیصلے کے بعد ان سے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ جنرل افتخار سے ملنا چاہیں گے کیونکہ وہ کمانڈر ان چیف بننے والے ہیں۔

شیر علی خان کے مطابق جنرل افتخار خاموش طبیعت رکھنے والے لیکن بلا کے ذہین تھے جو اس فیصلے کے بعد خوش ہونے کے بجائے پریشان دکھائی دیے۔

تاہم طیارے حادثے میں ان کی ہلاکت کے بعد ایوب خان کمانڈر ان چیف کے عہدے پر تعینات ہوئے اور آخر کار ملک کی صدارت کی کرسی تک پہنچ گئے اور ان کے دور حکومت کے دوران سات وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔

جب فوجی افسران نے کمانڈر اِن چیف کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کیا

یحیی خان

پاکستان کی عسکری اور سیاسی تاریخ میں یحییٰ خان ایک متنازع شخصیت رہے ہیں۔ ان کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور انڈیا سے 1971 کی جنگ میں شکست کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ میں پاکستان فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے بعد یحییٰ خان بدستور ملک کے صدر اور فوج کے کمانڈر اِن چیف تھے۔

’کراسڈ سورڈز‘ میں شجاع نواز لکھتے ہیں کہ 17 دسمبر کو جب یہ خبر پھیلی کہ یحییٰ خان ایک نیا دستور لانے کی تیاری کر رہے ہیں تو فوجی افسران میں شدید ردعمل ہوا۔

ان افسران میں گجرانوالہ میں موجود بریگیڈیئر فرخ بخت علی بھی شامل تھے۔ ’کنڈکٹ ان بیکمنگ‘ میں فرخ بخت علی لکھتے ہیں کہ 17 دسمبر کو میں اپنا استعفی لکھ چکا تھا لیکن جب 18 دسمبر کو ہمیں علم ہوا کہ یحیی خان کا مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تو ہم حیران رہ گئے۔‘

ان کے مطابق ان سے متعدد دیگر افسران نے بھی رابطہ کیا تو ’میں نے اپنے ڈویژن کمانڈر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ جی ایچ کیو میں اعلیٰ افسران کو یہ پیغام بھجوائیں کہ یحیی خان کو مستعفی ہو کر اقتدار سول سیاست دانوں کو منتقل کر دینا چاہیے۔‘

اگلے دن یعنی 19 دسمبر کو بریگیڈیئر ایف بی علی نے دو افسران کو جی ایچ کیو بھجوایا کہ یحیی خان اور ان کے قریبی جنرل، جو اس شکست کے ذمہ دار ہیں، رات آٹھ بجے تک مستعفی ہو جائیں ورنہ نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عملاً یہ فوج کے اندر ایک طرح کی بغاوت تھی۔

اس پیغام کے بعد، شجاع نواز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ فوج کی اعلی کمان میں کھلبلی مچ گئی اور یحیی خان کے قریبی ساتھی اور میجر جنرل مٹھا نے ایس ایس جی سے رابطہ کیا تاکہ اسلام آباد کی جانب کسی قسم کے فوجی قافلوں کو آنے سے روکا جا سکے۔

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ میجر جنرل مٹھا نے بریگیڈیئر ایف بی علی کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا یحییٰ خان کی جگہ جنرل عبد الحمید خان بطور کمانڈر ان چیف قبول ہوں گے جس پر جواب نفی میں دیا گیا۔

شجاع نواز کے مطابق اگلے دن جنرل حمید نے جی ایچ کیو میں موجود افسران کو اکھٹا کیا تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آیا وہ یحییٰ خان کی جگہ قابل قبول ہو سکتے ہیں یا نہیں، تاہم فوجی افسران نے موجودہ قیادت پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اُن کو بھی جانا ہو گا۔

یحیی خان کو جب صورتحال کا اندازہ ہوا تو انھوں نے متعدد افسران سے خود بھی رابطہ کیا تاہم چیف آف جنرل سٹاف جنرل گل حسن اور ایئر فورس چیف نے ان کو استعفی دینے پر قائل کیا اور یوں پاکستان فوج کے پانچویں کمانڈر ان چیف اور ملک کے تیسرے صدر کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ شایدیہ پہلا موقع تھا جب فوج کے جونیئر افسران نے قیادت کو مجبور کیا کہ وہ مستعفیٰ ہوں۔

شجاع نواز کروسڈ سورڈز میں لکھتے ہیں کہ یحیی خان نے بعد میں ایک مقدمے کے دوران لاہور ہائی کورٹ میں اپنے جواب میں دعویٰ کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل گل حسن خان اور فضائیہ کے سربراہ رحیم خان نے ان کے خلاف اس وقت سازش تیار کی جب ان تینوں کو انڈیا سے جنگ کے دوران خود انھوں نے چین بھجوایا تھا۔

اس پوری کہانی میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ بریگیڈیئر ایف بی علی پر چند سال بعد بھٹو کی سول حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کی سازش کا مقدمہ چلا اور کورٹ مارشل کرنے والے بورڈ کے سربراہ مستقبل میں آرمی چیف بننے والے جنرل ضیا الحق تھے۔

چند سال بعد بریگیڈیئر ایف بی علی کوٹ لکھپت جیل میں قید تنہائی کی سزا کاٹ رہے تھے جب ان کے مطابق ان سے ایک سو گز کے فاصلے پر ایک اور سیل میں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیس میں قید کر دیا گیا تھا۔

جب ایک لیفٹینینٹ جنرل کو فوج کا سربراہ بنایا گیا

ذوالفقار علی بھٹو نے غیر معمولی حالات میں پاکستان کا اقتدار سنبھالا۔ ملک کے دو ٹکڑے ہو چکے تھے اور فوج کو عوامی غصے کا سامنا تھا۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے پہلے سولین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کا اعزاز بھی ملا۔

ان غیر معمولی حالات میں انھوں نے غیر معمولی فیصلے کیے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں فوج کا سربراہ ایک لیفٹینینٹ جنرل کو بنایا گیا۔

یہ گل حسن خان تھے جنھوں نے بھٹو کے اقتدار سنبھالنے کے عمل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

گل حسن خان پاکستان فوج کے آخری کمانڈر ان چیف تھے، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس عہدے کا نام بعد میں چیف آف آرمی سٹاف رکھ دیا گیا۔

تاہم یہ معاملہ بھی متنازع ہے کہ ان کی بطور سپہ سالار تعیناتی لیفٹینینٹ جنرل کے رینک کے ساتھ کیوں ہوئی۔

گل حسن خان اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ جب مجھے اس عہدے کی پیشکش کی گئی تو میں نے ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے یہ شرط رکھی کہ مجھے لیفٹینینٹ جنرل کے رینک پر ہی کمانڈر ان چیف بنایا جائے۔

تاہم وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے کافی حیرت ہوئی جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے گل حسن خان کو کمانڈر ان چیف کے عہدے پر وقتی طور پر ترقی دی ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ان کو فور سٹار جنرل بنا دیا جائے گا کیوں کہ اس وقت ملک ایسی چیزوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

گل حسن خان کے مطابق جب انھوں نے بعد میں بھٹو سے سوال کیا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ سیاست کو نہیں سمجھتے۔

شاید بھٹو اور ان کے پہلے تعینات کردہ فوجی سربراہ کے درمیان یہیں سے غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں تھیں۔

گل حسن خان لکھتے ہیں کہ ان کی دوسری شرط یہ تھی کہ فوجی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی لیکن بھٹو اس پر متفق ہونے کے باوجود زیادہ دیر قائم نہیں رہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بھٹو فوجی افسران کی ترقی کے بورڈ میں بیٹھنا چاہتے تھے لیکن انھوں نے منع کر دیا۔

کچھ ہی عرصہ بعد مزید اختلافات کے بعد ایک دن ذوالفقار علی بھٹو نے گل حسن خان اور ایئر چیف رحیم خان کو ایوان صدر بلا کر مطلع کیا کہ ان کو عہدے سے سبکدوش کیا جا رہا ہے جہاں ان سے استعفوں پر دستخط لیے گئے۔

یوں وہ نہ صرف لیفٹینینٹ جنرل کے رینک کے ساتھ فوج کے سربراہ بننے والے پہلے افسر ہی نہیں بلکہ کسی سول حکمران کی جانب سے قبل از وقت فارغ کر دیے جانے والے پہلے فوجی سربراہ بھی بنے۔

گل حسن خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی بری فوج کے مختصر ترین مدت تک رہنے والے سربراہ تھے جن کا دور صرف ڈھائی ماہ پر محیط تھا۔

صدر اور وزیر اعظم کو گھر بھیجنے والے آرمی چیف جنھوں نے ایکسٹینشن کو ٹھکرا دیا

آصف نواز جنجوعہ

گل حسن کے بعد پاکستان فوج کی مختصر وقت کے لیے قیادت کرنے والے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ تھے جن کا آٹھ جنوری 1993 کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد انتقال ہوا تو انھیں آرمی چیف بنے ہوئے صرف ایک سال اور پانچ مہینے ہوئے تھے۔

یہ ملک میں سیاسی کشمکش کا دور تھا اور فوج کی براہ راست مداخلت کی افواہیں عروج پر تھیں۔ نواز شریف وزیر اعظم اور غلام اسحاق خان ملک کے صدر تھے۔

شجاع نواز، جو جنرل آصف نواز کے بھائی ہیں، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ غلام اسحاق خان لیفٹینینٹ جنرل فرخ خان کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن نواز شریف اس حق میں نہیں تھے۔

لیفٹینینٹ جنرل عبد الوحید کاکڑ کوئٹہ کور کی کمان کر رہے تھے۔ برائن کلفلی، اپنی کتاب ’پاکستان آرمی اے ہسٹری آف وار اینڈ انسریکشنز‘ میں لکھتے ہیں کہ عبد الوحید کاکڑ کے خیال میں یہ ان کی آخری پوسٹنگ تھی اور وہ ریٹائر ہو کر گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

تاہم صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان اختلافات کے بعد فوج کی سربراہی کا قرعہ ان کے نام نکلا۔

شجاع نواز کراسڈ سورڈز میں لکھتے ہیں کہ جنرل عبد الوحید کاکڑ پر مارشل لا لگانے کا کافی دباؤ تھا لیکن وہ ملک میں سیاسی کشیدگی کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت صدر مملکت کے پاس آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت اسمبلی کو توڑنے کا اختیار موجود تھا جسے غلام اسحاق خان بینظیر بھٹو کی پہلی وزارت عظمی کو ختم کرنے کے لیے ایک بار استعمال کر چکے تھے۔

جب 1993 میں انھوں نے اس اختیار کو دوسری بار نواز شریف کی حکومت کے خلاف استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے اس کو غیر قانونی قرار دے دیا اور نواز شریف کی حکومت بحال ہوئی۔

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لیے رینجرز کا سہارا لینے کی کوشش کی تو آرمی چیف جنرل عبدالوحید نے اس کا راستہ روک دیا۔

شجاع نواز کے مطابق جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو قائل کیا کہ وہ دونوں مستعفی ہو جائیں تاکہ نئے انتخابات کروائے جا سکیں جن کے نتیجے میں بیننظیر بھٹو کی دوسری حکومت قائم ہوئی۔

بینظیر بھٹو نے جنرل وحید کاکڑ کے بارے میں کہا کہ ان کو سیاست میں گھسیٹنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن انھوں نے کبھی کوئی مداخلت نہیں کی۔

عبد الوحید کاکڑ غالبا واحد سپہ سالار تھے جن کو ایک وزیر اعظم نے مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔

وہ پہلے آرمی چیف تھے جنھوں نے تین سال کی مدت پوری ہونے پر یہ عہدہ چھوڑ دیا۔

وہ حادثہ کس کے باعث اسلم بیگ آرمی چیف بنے

اسلم بیگ

یہ 17 اگست کا 1988 دن تھا جب پاکستان کے وائس چیف آف سٹاف جنرل اسلم بیگ طیارے میں بیٹھے فضا سے ایک جائے حادثہ کا دورہ کر رہے تھے۔

اپنی سوانح حیات ’اقتدار کی مجبوریاں‘ میں اسلم بیگ لکھتے ہیں کہ ’سامنے دھواں نظر آ رہا تھا، اگلے ہی لمحے ہمارا طیارہ اس کے نزدیک پہنچ چکا تھا۔ وہاں ایک ہیلی کاپٹر بھی اُتر رہا تھا، ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے رابطہ کیا تو اُس نے بتایا کہ ’پاکستان ون‘ (سی ون تھرٹی) کریش ہو گیا ہے اور کوئی نظر نہیں آ رہا۔ اس قسم کے حالات میں مجھے اہم فیصلہ کرنا تھا۔ اگر میں جائے حادثہ پر پہنچ بھی جاتا، تو کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اسی لیے میں نے پائلٹ کو کہا کہ سیدھے راولپنڈی چلو۔‘

یہ وہ مقام تھا جہاں کچھ دیر پہلے وہ سی ون تھرٹی طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا جس میں دیگر افراد کے ہمراہ صدر پاکستان جنرل ضیا الحق بھی سوار تھے۔

اسلم بیگ بتاتے ہیں ’جی ایچ کیو رابطہ کیا تو وہاں حالات پُرسکون تھے۔ حکم دیا فارمیشنز کو ریڈ الرٹ کر دو اور اگلے حکم کا انتظار کرو، میرے ساتھ جہاز میں بیٹھے ہوئے آفیسرز میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا ہے یا اسے دینا ہے، جس کی امانت ہے۔‘

اور پھر ضیاالحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد جنرل اسلم بیگ فوج کے سربراہ بن گئے۔

جنرل ضیا کی ہلاکت اور اسلم بیگ کے آرمی چیف بننے کے تین گھنٹوں کے اندر آئین بحال ہو چکا تھا، انتقال اقتدار کی کاروائی کا آغاز ہوا جسے 90 دنوں میں مکمل ہونا تھا۔

اگرچہ جنرل اسلم بیگ پر مارشل لا لگانے کا دباؤ تھا لیکن انھوں نے وعدے کے مطابق انتخابات کروائے لیکن انھی انتخابات کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف متنازع سیاسی محاذ آئی جے آئی کی تشکیل اور اس کے نتیجے میں نواز شریف کے برسراقتدار آنے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔

وہ جنرل جن کو چیف آف آرمی سٹاف بنتے ہی گرفتار کر لیا گیا

ضیا الدین بٹ

1999 کے اواخر میں 12 اکتوبر کو، نواز شریف نے ایک دن اچانک اس وقت کے آئی ایس آئی چیف لیفٹینینٹ جنرل ضیا الدین کو وزیر اعظم ہاؤس بلا کر بتایا کہ ان کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

ان کو نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف کی مرضی کے خلاف آئی ایس آئی چیف بنوایا تھا اور یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ نواز شریف سے کافی قریب ہیں۔

تاہم خود جنرل ضیا الدین کے مطابق ان کی نواز شریف سے پہلی ملاقات اسی وقت ہوئی تھی جب ان کا آئی ایس آئی چیف بنتے وقت انٹرویو ہوا۔

ان کے دعوے اپنی جگہ لیکن بارہ اکتوبر کے دن ان کی اس طرح اچانک تعیناتی پر فوج کے ردعمل نے جمہوریت کی بساط کو ہی لپیٹ کر رکھ دیا۔

ایک جانب وزیر اعظم ہاؤس میں جنرل ضیا الدین کو وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری کے یونیفارم سے بیج اتروا کر لگائے گئے تو ادھر اس وقت کے آرمی چیف کے قریبی جنرل حرکت میں آ گئے جو خود اس وقت سری لنکا سے واپس پاکستان آ رہے تھے۔

جنرل مشرف سے پہلے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت بھی نواز شریف سے اختلاف کے بعد وقت سے کچھ عرصہ قبل مستعفی ہو چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments