نام میں لفظ سید ہونے پر احمدی کے خلاف پرچہ کٹ گیا


کمال ہے کہ ابھی کل ہم ملکہ معظمہ انگلستان مرحومہ الزبتھ دوم کو سید ثابت کرنے کے لئے کہاں کہاں سے اسے کی نسلیں کھنگالتے رہے۔ معنوی لحاظ سے تو خیر وہ کئی ممالک کی سیدانی تھیں لیکن انہیں 43 ویں نسل میں رسول کریم کی جسمانی ذریت اور نسل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

معنوی لحاظ سے اس لئے کہ لفظ سید کا مطلب سردار، حاکم، سالار، بڑے یا آقا کا ہے۔ عربوں میں لفظ سید کسی بھی بڑے یا سردار کے لئے ابھی بھی مستعمل ہے۔ قرآن اور احادیث کی رو سے بھی لفظ سید کسی بھی مسلم یا غیر مسلم سردار کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب وہی ہو گا جو انگریزی میں Sir لارڈ یا اردو میں محترم ہے۔ عرب جو بائیڈن کو بھی السید بائیڈن

عربی کی مشہور لغت لسان العرب میں بھی لفظ سید کا مطلب صاحب فضیلت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ تاج العروس کے مطابق سید کا مطلب جو کسی کو نفع پہنچانے والا ہو، خواہ مال سے یا عقل و عمل سے۔ قرآن و حدیث یا اعلی عربی لٹریچر میں کہیں بھی کسی خاص قوم کے لئے سید استعمال نہیں ہوا۔ ہاں ہندو پاکستان میں سید کو صرف رسول کریم ﷺ کی ذاتی آل سے منسوب سمجھا جاتا ہے جو عربی سے عدم واقفیت اور اندھی عقیدت کے سوا کچھ بھی نہیں اور کسی بھی قاعدے سے درست نہیں۔

ساری تمہید کا مطلب صرف اتنا ہے کہ کراچی کے احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل پر صرف اس لئے پرچہ کرا دیا گیا ہے کہ ان کے نام میں سید آتا ہے اور لفظ سید کسی ”غیر مسلم“ کے لئے استعمال کرنے سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اب تو ایسی خبروں پہ نہ حیرانی ہوتی ہے نہ دل کو رونا اور جگر کا پیٹنا بنتا ہے کہ یہ جہالت اب ہمارے ہاں عام ہے۔

جیسا کہ عرض کی کہ لفظ سید پہ اعتراض کسی طور بھی جائز نہیں۔ ہم دوسرے پہلو کا جائزہ لیں کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کا آدمی کسی دوسرے مذہب والا نہیں ہو سکتا ؟ تو یہ بھی کسی صورت قابل قبول وجہ نہیں ہے۔ ایک مثال تو ملکہ برطانیہ کی اوپر دی گئی ہے گو وہ بات ثابت نہیں لیکن اسلامی دنیا میں تقریباً ہر جگہ اس کا چرچہ ہوا، پاکستانیوں کی ملکہ معظمہ کو ”سیدانی“ ثابت کرنے کی کوششوں پر مشتمل مواد تو شاید اب بھی انٹرنیٹ پر مل جائے گا۔

انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو مسیحی پادریوں کے زیراثر مسلمان حتی کہ کچھ علما نے بھی مسیحیت اختیار کی۔ ان میں اگر کوئی سید بھی شامل ہوں تو ان کینسل تو نہیں بدل جائے گی۔ احمد شاہ نام کے ایک عالم نے مسیحیت اختیار کی اور پادری سید احمد شاہ کہلائے۔ انہوں نے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی۔ روسی علاقے کاسیموف کے خان سید برہان خان نے مسیحیت اختیار کی۔ سید ثلاث حسین نامی پادری کینیڈا میں موجود ہیں۔ اعظم گڑھ سے سید یاد علی زیدی کے بیٹے ہینسن ریحانی شاعر تھے انہوں نے مسیحیت اختیار کی۔ ابھی پچھلے سال بھارتی سیاستدان، فلم میکر سید وسیم رضوی نے اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کیا۔ اس کے علاوہ بھی مثالیں موجود ہوں گی لیکن کیا اس سے ان کی نسل سادات میں فرق آیا؟

احمدیوں میں بھی بیسیوں لوگ ایسے تھے جو سید النسل تھے، انہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کو مانا اور احمدی ہو گئے۔ ان میں سے کئی لوگوں کا شجرہ، ان کا سلسلہ پیری مریدی وغیرہ بھی موجود تھا۔ سید کا ٹائٹل ان کے نام کے ساتھ دوسری ذاتوں جیسے چوہدری، رانا، مہر، شیخ، مرزا وغیرہ کی طرح ان کے نام کے ساتھ ہمیشہ موجود رہا۔

گو وجہ عزت انسان کی ذات یا نسل نہیں بلکہ کردار ہوتا ہے۔ پھر بھی نام کے ساتھ یہ ٹائٹل پہچان کے لئے لگائے جاتے ہیں۔ سو یہ کہاں ثابت ہے کہ سید کے ٹائٹل پر اسلام کی اجارہ داری ہے اور رسول کریم ﷺ کی نسل سے کوئی شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر لے یا ملحد ہی ہو جائے تو وہ سید نہیں رہے گا۔ کیوں وطن عزیز میں ہر عربی لفظ کو مذہبی اصطلاح اور توہین مذہب کے پیرائے ہی میں ناپا جاتا ہے؟ اس طرح کے مقدمے بین الاقوامی سطح پر ہماری جگ ہنسائی اور عدم برداشت کا حوالہ بنتے ہیں۔ پھر ہم یہ بھی دعوے کرتے ہیں کہ ہمارا دین ہمیں برداشت اور رواداری سکھاتا ہے اور ہم اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایسے لطیفوں کے ساتھ ہمیں ملک میں انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی موجودگی بھی چاہیے اور بین الاقوامی سرمایہ کاری بھی۔

صرف رسول کریم ﷺ سے جسمانی طور پر منسوب ہونا افضلیت نہیں کیونکہ جسمانی طور پر تو ابولہب بھی ان کا چچا تھا۔ ہاں اگر کردار اور شخصیت میں وہ رنگ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو وہ سید النسل ہو یا غیر سید فضیلت کی بات ہے۔ بقول شاعر

اس کی آل وہی جو اس کے نقش قدم پر جائے
صرف ذات کی ہم نے آل سادات نہیں دیکھی

کراچی: نام میں ‘سیّد’ کیوں شامل کیا؟ احمدی وکیل کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments