ٹرانس جینڈر اور سنٹر سیکس، جوائے لینڈ اور استحقاق


چلیے ہم ایک ویڈیو بناتے ہیں، اس ویڈیو میں جس قدر تلف انسانی نکات کو استعمال کیا جاسکتا ہے، کر لیتے ہیں۔ حلق کو کڑوا کرتے جتنے بھی معاشرتی حقائق ہیں، ان سے جتنا بھی منہ چھپایا جائے چھپاتے ہیں۔ تحقیق کیے بنا جتنا بھی مواد بنایا جاسکتا ہے، بناتے ہیں تاکہ ہمارے جھوٹ کو تقویت ملے۔ دور حاضر کے انسانی حقوق کے اہم نظریات کا کچھ مذاق اڑا کر اپنے بیان میں مزید جان بھی پیدا کر لیتے ہیں کیونکہ اس سے ویوز بہت آتے ہیں۔

چونکہ ویڈیو کو یوٹیوب اور فیس بک پر خوب اچھالنا ہے اور اپنی کہی باتوں میں جان بھی ڈالنی ہے تو بہتر سے بہترین کیمرے اور روشنیوں کا استعمال کر کے بات کو اثر انگیز اور بولنے والے کو بے حد پڑھا لکھا بھی ثابت کرتے ہیں۔ یوں نہ کریں کے زمینی حقائق پر تحقیق کیے بنا لوگوں کو اپنے عناد سے گمراہ کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں کہ فلم جوائے لینڈ پر تنقید بھی کچھ اسی انداز میں کرتے ہیں کہ سامعین اور ناظرین کو لگے کہ یہی حق سچ کہنے والے ہیں۔ ہم پڑھے لکھے تو بہت ہیں اور انگریزی بھی اچھی خاصی آتی ہے مگر مجال ہے کہ ٹرانس جینڈر اور انٹر سیکس کی اصطلاحات کا ذرا سا معاشرے اور تاریخ کے لحاظ سے رتی برابر کراس اگزیمینیشن ہی کر لیں۔ ہم نے بس چھپکلی بن کر آتش کو پھونکیں مارنی ہیں۔

درج بالا روداد آج کل کے حوالے سے ہے جو ہم جابجا دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے حصے کی کم علمی کی آگ سے عدم برداشت کی روٹی امتیاز کی چنگیر میں سینک سینک کر ڈال رہا ہے۔ جہاں سامنے والے کو سمجھنا تو درکنار سننا گوارا نہیں کر رہا۔ معاشرتی بالخصوص پیدائشی استحقاق کے شوربے میں جتنے رعایت کے نوالے ڈبو ڈبو کر کھائے جائیں، کھاتے ہیں۔

ایک خاصے پڑھے لکھے اچھے کیمرے سے ویڈیو بنانے والے نوجوان صاحب جو قوم کے نوجوانوں کو اسلاف کی روایات پر عمل کرنے کی تاکید کرتے ہیں، انہوں نے فلم جوائے لینڈ پر بھی کچھ اسی زرق برق انداز میں تنقیدی ویڈیو بنائی ہے۔

پہلے تو وہ انٹر سیکس اور ٹرانس جینڈر میں باتوں باتوں میں فرق بتاتے ہیں۔

وہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی یہ ویڈیو انٹر سیکس یعنی پیدائشی طور پر مرد عورت کے تولیدی اور جنسی اعضاء کے ساتھ پیدا ہونے والے خواجہ سراؤں کے خلاف نہیں ہے۔ ان کی یہ ویڈیو ٹرانس جینڈر افراد پر تنقید ہے جو پیدا تو مرد یا عورت ہوتے ہیں اور پھر بعد میں جنس کی تبدیلی کراتے ہیں۔ ان کی کل تنقید اسی نکتے کی سعی کرتی ہے کہ چونکہ فلم جوائے لینڈ ٹرانس خاتون (یعنی پیدائشی طور پر مرد) اور مرد کی محبت کی کہانی ہے اس لئے یہ غلط ہے۔

فلم جوائے لینڈ ایک مرد اور خواجہ سرا کی محبت کی کہانی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ فلم میں شادی شدہ مرد اپنی بیوی کو چھوڑ کر ایک ٹرانس سے محبت کر رہا ہے۔ یعنی آپ لوگ جیسے ایک سے زیادہ شادی کو مذہبی فریضہ نہیں سمجھتے۔ ایک سے زیادہ شادی کتنی ہی قانونی کیوں نہ ہو، مرد کا عورت کو دیا ہوا دھوکہ ہی ہوتی ہے، چاہے وہ مرد سے کرے یا عورت سے کرے۔

پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ جب سنہ دو ہزار کے وسط میں ٹی وی پر خواجہ سراؤں کو ائر ٹائم ملنا شروع ہوا اور کچھ حد تک خواجہ سرا افراد کو نمائندگی ملنے کی تحریک شروع ہوئی تو ہمارے پاس ٹی وی پر ادا کرنے کو چند الفاظ تھے۔ اردو میں خواجہ سراء کے علاوہ تو کوئی اور لفظ ہی نہیں تھا اور انگریزی میں تو نہ ہی پوچھیں۔

اس وقت کے بڑے مارننگ شو میں ایک خواجہ سراء رہنما الماس بوبی کا ٹکر پر تعارف ”شی میل“ لکھ کر بھی کیا گیا۔ پھر کسی نے مغرب سے ٹرانس جینڈر کا لفظ نکالا اور پھر یہی لفظ عام پہچان بن گیا۔ ٹی وی سے یہ اصطلاح عام ہوئی اور پاکستان اور ہندوستان میں خواجہ سراء افراد کے لئے انگریزی میں فقط یہی اصطلاح بولی جانے لگی۔

سال پہلے تک تو یہاں انٹر سیکس لفظ کی سنوائی بھی نہیں تھی مگر مغرب میں تو ٹرانس جینڈر کی اصطلاح تو ان افراد کے لئے استعمال ہوتی آئی تھی جو اپنا جنس تبدیل کرواتے تھے اور انٹر سیکس کی اصطلاح ان افراد کے لئے جو پیدائشی طور پر مبہم صنفی اعضاء کے حامل ہوں جبکہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کو عام طور مبہم صنفی اعضاء کے ساتھ پیدا ہونے والے افراد کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔

پہلے ٹرانس جینڈر بل پر بے جا تنقید کی گئی وہ بھی اس سازشی اور انسانیت سلبی نکتے پر کہ مرد اپنا جنس تبدیل کروا کر مردوں سے شادی کریں گے اور ملک میں ایل جی بی ٹی کیو کو فروغ ملے گا۔ جس کا سرے سے کوئی سر تھا نہ پیر اور اب دوبارہ وہی شیطان کی آنت سی لمبی بے نکتہ بحث چھڑ گئی ہے کہ پاکستان میں ایل جی بی ٹی کیو کو فلم جوائے لینڈ سے ہوا مل رہی ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ مغرب میں ایل جی بی ٹی کیو کے مدار میں پیدائشی طور پر مخنث شناخت (روایتی اعتبار سے خواجہ سرا) افراد کے لئے حرف موجود نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے عالم فاضل لوگ انٹر سیکس اور ٹرانس جینڈر کی اصطلاحات میں عالمی طور پر متعین علمی بحث کو ہی سمجھنے سے قاصر ہیں اور لے دے کر خواجہ سراء افراد سے منسلک ہر بات کو ہی ایل جی بی ٹی کیو کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں۔

پاکستان میں اپنی جنس تبدیل کرنے والوں اور پیدائشی طور پر مخنث شناخت/اعضاء کے حامل دونوں کو ہی خواجہ سراء کہا جاتا ہے۔

اب بات کرتے ہیں سازشی نظریات کی جو غلط معلومات کو فروغ دے رہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں ایک اعلیٰ حضرت یہ فرماتے ہیں کہ آپ نے خواجہ سرا کا کردار دکھانا ہی تھا تو اس کو کسی معزز پیشہ سے منسلک دکھاتے۔ اس کو سرجن، استاد، حجام، انجینئر کے طور پر کیوں نہیں دکھایا؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کتنے خواجہ سرا ہیں جو سرجن اور استاد ہیں؟ دس ہزار کی تعداد میں ہم صرف ایک خواجہ سراء ڈاکٹر کو جانتے ہیں۔ جیسے معاشرے نے مخنث افراد کو صرف اور صرف لڑکوں کی پیدائش، شادیوں پر رقص کرنے، جسم فروشی یا گداگری تک محدود کر کے نہیں رکھا۔ فلموں میں سرجن اور ڈاکٹر دکھانا اور حقیقت میں صرف بل کی منظوری پر پہاڑ کھڑے کرنا منافقت کی اعلیٰ مثال ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ والدین کو وہ فکر لاحق ہو گئی ہے جو مغرب میں کنزرویٹو یا ریپبلکن والدین کو ہے۔ جن کو اس بات کا خدشہ ہے کہ ان کے بچوں کو روزگار کے غم ہیں نہ بیماری میں دوائی یا علاج کا کوئی روگ ہے۔

لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں پیرس اور نیویارک سا انداز زندگی اپنائے یہ بچے کہیں جینڈر ٹرانزیشن کی معروف زد میں نہ آجائیں۔ ان کو اقدار اور مذہب اچانک سے اسی لئے یاد آیا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کو روٹی کمانے کے لالے پڑے ہیں نہ چھت کے ٹپکنے یا اڑنے کی فکر ہے۔ پاکستان کے عام شہری کو اپنے بچے کی جینڈر ٹرانزیشن کی نہیں، اس کی دوائی اور تعلیم کی فکر ہے، اس کو مکان کے کرائے اور ماہانہ راشن کی تنگی کا سامنا ہے۔ اس کے بچے اکثر اسکول سے گھر واپس فیس نہ دینے کی وجہ سے بھیج دیے جاتے ہیں۔ جو عورت زچگی میں اسپتال کی شکل پیسے نہ ہونے کے باعث نہ دیکھتی ہو، اس کو صنف تبدیلی جیسی مہنگی سرجری سے دور دور کوئی سروکار نہیں۔ مختصراً، ایک غریب یا روزگار کی خاطر ٹھوکریں کھاتے نوجوانوں کو اس بات سے غرض نہیں کہ کون کہاں مہنگی جنس تبدیلی کرا رہا ہے۔

کچھ لوگوں نے اپنے خوف کو قوم کا نام نہاد خوف بنا کر ان ہزاروں مخنث صنف/خواجہ سراؤں کی زندگیاں خطرے سے دوچار کر دی ہیں جن کے لئے اس ملک میں جنازے اور قبرستان الگ بنائے جانے کی بحث آج تک ہوتی ہے۔ جن کو گھروں میں قبول نہیں کیا جاتا یا جن کو بچپن میں ہی گھر سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔

آپ اس امر کو اپنے اختیار میں لانا چاہتے ہیں کہ کس کی ٹانگوں میں کون سے تولیدی اعضاء ہیں اور خلوت میں وہ ان اعضاء کا کیسے استعمال کرتے ہیں یا کرتے بھی ہیں؟ یعنی آپ انسانوں کے بستروں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو ازدواجی جبر جنسی/ میریٹل ریپ کو غلط نہیں سمجھتے۔ آپ لوگ برملا طور پر میریٹل ریپ پر قانون سازی کے سوال کو اپنی اقدار پر حملہ سمجھتے ہیں۔ عورتوں پر ظلم کو رنگ رنگ کے ثواب اور اجر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ آپ مقدس مقامات میں موجود بچوں کے ریپ کاروں پر سوال کو گناہ سمجھتے ہیں مگر آپ اس بات میں دل چسپی لیتے ہیں کہ پیدائشی طور پر مخنث فرد کے جنسی اعضاء کیسے ہیں تاکہ آپ صحیح اور غلط میں تفریق کر سکیں؟

اگر آپ کو قدرت نے صحت مند اور درست ”ہیئت“ میں پیدا کر دیا ہے تو یقین جانیے آپ کسی خواجہ سرا کی زندگی پر سوال کرنے کے قابل نہیں، نہ یہ سوال کرنے کے مستحق ہیں کہ کس کے بدن کے تولیدی اعضاء کی کیا ساخت ہے۔ ایک فلم میں کسی کے جذبات سے معاشرے اور نظام درہم برہم ہوتے تو یہ دنیا کب کی فنا ہو چکی ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments