کیا جوائے لینڈ دیکھ کر ہم سب ’گے‘ بن جائیں گے؟


فلم جوائے لینڈ کے خلاف جماعت اسلامی کا جہاد دیکھ کر ہم میں سے کئی لوگوں کو اپنے ایمان کی فکر لاحق ہوئی ہو گی۔ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہم گناہ گار ہیں، جو گناہ سے بچتے ہیں وہ بھی کبھی کبھی گناہ کے بارے میں سوچتے ضرور ہوں گے۔ اپنے ایمان کو گناہ کی ترغیب سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔

اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کی کوشش کرتا ایک نوجوان میں نے لاہور سے کراچی جانے والی ایک فلائیٹ پر دیکھا۔ جہاز پرواز کے لیے تیار تھا لیکن نوجوان سیٹوں کی قطار کے عین بیچ کھڑا تھا اور جہاز کا عملہ اسے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پرواز میں تاخیر ہو رہی تھی، میں نے عملے ایک رکن سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے۔

پتہ چلا کہ نوجوان کے ساتھ والی سیٹ پر ایک خاتون بیٹھی ہیں اور یہ باریش نوجوان مصر ہے کہ یا تو خاتون کو سیٹ سے اٹھاؤ یا اسے کسی مرد کے ساتھ والی سیٹ پر بٹھایا جائے۔ خاتون سیٹ چھوڑنے کو تیار نہ تھیں اور جہاز کے عملے کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس پاکباز کو کیسے سمجھائیں۔

جب یہ تعطل کچھ زیادہ ہی بڑھا تو میں نے نوجوان کا ہاتھ پکڑ کر اسے کہا کہ میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ تم خاتون کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ جاؤ، نظریں نیچی رکھو اور اگر درود شریف یاد ہے یا کوئی اور آیت تو پورے رستے اس کا ورد کرتے جاؤ، کچھ بھی نہیں ہو گا۔

نوجوان کچھ بڑبڑاتا ہوا سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد جہاز کراچی میں اُتر گیا۔ کوئی قیامت نہیں آئی اور مجھے یقین ہے کہ نوجوان کا ایمان بھی سلامت رہا۔

جوائے لینڈ

اب جماعت اسلامی کے جوائے لینڈ کے خلاف مہم کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اس میں خواجہ سراؤں کو انسان بنا کر پیش کیا گیا ہے، جنھیں محبت بھی ہو سکتی ہے اور یہ فلم LGBTQ کو فروغ دیتی ہے۔

میری نسل کے تمام لوگوں نے جن کو کچھ پڑھنے لکھنے کے مواقع ملے ہیں اُن سب نے تھوڑا بہت مودودی صاحب کو پڑھا ہے بلکہ اکثر تو اپنے آپ کو چھوٹا موٹا مودودی مان کر چلتے ہیں۔

مودودی صاحب ایک آفاقی انقلاب کی بات کرتے تھے، اب اُن کی بنائی ہوئی جماعت پر یہ وقت آ گیا ہے کہ وہ خواجہ سراؤں سے مڈبھیڑ چاہتی ہے تاکہ ہمارا ایمان سلامت رہے۔

جماعت اسلامی کے میرے محبوب رہنما میاں طفیل احمد مرحوم تھے۔ اتنی بار تو وہ نظام مصطفی کا تذکرہ نہیں کرتے تھے جتنی تکرار سے جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت LGBTQ کا تذکرہ کرتی ہے۔ اب تو بچے بھی پوچھنے لگے ہیں کہ ہمیں بھی بتاؤ کہ یہ LGBTQ کیا ہوتا ہے۔

میں نے بھی جوائے لینڈ دیکھی ہے اور میں بڑی ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ فلم دیکھنے کے بعد میری جنسی ترجیحات میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ LGBTQ والوں کا انجام دیکھ کر ان کے لیے دل میں خدا ترسی کے ہی جذبات پیدا ہوئے۔

لیکن یہ سوالات ظاہر ہے بنتے ہیں کہ کیا ہم اپنی سکرینوں پر، اپنی کتابوں میں، اپنے شہروں کی دیواروں پر جو دیکھتے اور پڑھتے ہیں وہ کیسے ہماری ذہن سازی کرتا ہے۔ خیبر سے کراچی تک اگر ٹرین پر سفر کریں تو دونوں طرف ہر طرح کی زبان اور خوشخطی میں مردانہ کمزوری کے اشتہار لگے ہوتے ہیں۔

کوئی باہر کی مخلوق آ کر دیکھے تو یہی سمجھے گی کہ نامردی ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن آبادی میں اضافے کی شرح دیکھیں تو اس تاثر کی نفی ہو گی۔

جوائے لینڈ

چند سال پہلے بڑی ہٹ فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ بنی۔ کیا وہ فلم دیکھنے کے بعد پاکستان کی تمام خواتین نے پنجاب جانا چھوڑ دیا۔ اسی سال نئی فلم ’مولا جٹ‘ پورے پاکستان میں دیکھی گئی تو کیا یہ فلم دیکھنے کے بعد سب نوجوان کرتے لاچے پہن کر گنڈاسہ اٹھا کر کسی نوری نت کی تلاش میں چلے گئے۔

فلم کے خلاف جہاد کرنے والوں نے ہمیں یہ بھی نہیں بتایا کہ کیا ہم جوائے لینڈ دیکھنے بعد سب کے سب LGBTQ ہو جائیں گے یا ہم سے مضبوط ایمان والے بچ بھی سکتے ہیں۔ سنسر بورڈ میں بیٹھے جن بزرگوں نے یہ فلم پاس کی تھی کسی نے ان سے جا کر پوچھا کہ آپ کے جذبات میں ابھی تک طلاطم برپا ہے یا ٹھنڈا ہو گیا۔

اور اگر فرض کریں کہ کوئی LGBTQ فلم جا کر دیکھ لے تو کیا وہ اس کے کرداروں کو دیکھ کر عبرت پکڑ لے گا یہ پہلے سے زیادہ LGBTQ ہو جائے گا؟

جماعت اسلامی کے ایک رہنما نے بغیر فلم دیکھے یہ اعتراض بھی کیا کہ فلم میں ایک کردار کا نام حیدر ہے، تو اگر ہدایتکار اس کردار کا نام بدل کر حنیف یا مشتاق رکھ دیں تو کیا ہمارا ایمان نسبتاً محفوظ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments