بیٹی کا علاج اور اچانک طلاق


رضیہ کی عمر بمشکل بائیس تئیس سال ہو گی۔ اس کی شادی کو تقریباً ایک سال گزر چکا تھا اور وہ ایک بیٹی کی ماں بن چکی تھی۔ لیکن بیٹی بیمار پیدا ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے پاس ہسپتال میں آئے تھے اور بچی کو وارڈ میں داخل کر لیا گیا تھا۔ بچی کا علاج چل رہا تھا اور رضیہ اپنے شوہر کے ساتھ مسلسل وہیں وارڈ میں رہتی تھی۔

انھیں دیکھتے ہی اندازہ ہو جاتا کہ ان دونوں میاں بیوی کی آپس میں بہت اچھی ذہنی مسابقت ہے اور وہ خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں خوش شکل بھی تھے تو وارڈ میں موجود باقی خواتین کو کئی دفعہ ان دونوں کی جوڑی کی تعریف کرتے بھی دیکھا تھا۔

وہیں ایک اور غریب گھرانے کا بچہ بھی داخل تھا، جن کے پاس فیڈر لانے کے پیسے بھی نہیں تھے تو رضیہ نے اپنے میاں سے کہا ان کے لیے فیڈر کا انتظام کر دے۔ اور وہ فوراً خوشی خوشی جا کر فیڈر لے آیا اور اس دوسرے بچے کی والدہ کو دے دیا۔

ان کی اپنی بیٹی کی شروع میں تو طبیعت زیادہ خراب تھی لیکن اب وہ بہتر ہوتی جا رہی تھی اور ہمیں امید تھی اسے ایک دو دن میں ہسپتال سے چھٹی دے دیں گے۔

انھیں وارڈ میں داخل ہوئے پانچواں دن تھا، جب میں ڈیوٹی پہ پہنچا تو رضیہ بیٹی کے ساتھ بیٹھی بلند آواز میں روئے جا رہی تھی اور باقی سب خواتین پریشان چہرے لیے خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ مجھے لگا خدانخواستہ بچی کو کچھ ہو گیا ہے، اس لیے وہ رو رہی ہے لیکن پاس جا کر دیکھا تو بچی معمول کی حالت میں تھی۔ میں نے رضیہ کو حوصلہ دیا کہ ”بہن فکر نہ کریں، بچی تو اب بہتر ہوتی جا رہی ہے اور جلدی بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ ایک دو دن میں ہم اسے ہسپتال سے چھٹی بھی دے دیں گے۔“

اس نے روتے روتے نفی میں سر ہلایا اور بولی
”میں بچی کے لیے نہیں رو رہی، میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق بھجوا دی ہے“

اس کی بات سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ ان دونوں کی جوڑی کی تو چند دن میں ہی وارڈ میں تعریفیں ہونے لگ گئی تھیں۔ وہاں موجود خواتین انھیں دیکھ کر رشک کرتی تھیں اور ان دونوں میاں بیوی کی تو ہم نے پچھلے پانچ دن میں ذرا سی تلخ کلامی ہوتے بھی نہیں دیکھی تھی۔ پھر یہ ایک دم کیا ہوا۔

میرے پاس بولنے کو کوئی لفظ ہی نہیں رہے تھے، میں ششدر کھڑا حیرت سے اسے روتے ہوئے دیکھ رہا تھا تو وہ مزید بولی

” خود آیا ہی نہیں، اپنے باپ اور چچا کو طلاق کے کاغذ دے کر بھجوا دیا۔ وہ کہہ گئے ہیں کہ ہم سے تمھاری بچی کے علاج پہ پیسے نہیں خرچ ہوتے، ایک تو بیٹی پیدا کی ہے اوپر سے علاج کے خرچے بھی کروائے جا رہی ہو۔ مجھے پتا ہے انھوں نے ہی اسے مجبور کیا ہو گا طلاق کے کاغذات پہ دستخط کرنے کے لیے ورنہ وہ تو ایسا نہیں تھا۔ لیکن اسے بھی ایسا کرتے ہوئے ذرا خیال نہیں آیا۔ میرا نہیں تو اپنی چند دن کی بچی کا ہی کچھ خیال کر لیتا“

اس کے الفاظ کسی تیر کی طرح لگ رہے تھے، پورے وارڈ میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب لوگ اس کے دکھ میں پوری طرح شامل تھے لیکن کوئی اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

مجھے کہنے کو اور کچھ نہیں ملا تو اس سے پوچھا کہ اپنے والدین کو فون کر کے بتا دیا ہے؟
وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی

”میرے والدین نہیں ہیں، بس ایک ماموں ہی ہیں۔ انھوں نے ہی پالا اور شادی کے بعد تو انھوں نے بھی مڑ کے حال کبھی حال تک نہیں پوچھا۔ اب میں انھیں کس منہ سے فون کروں اور کیا کہوں“

اس کا رونا سسکیوں میں بدل گیا تھا۔ وہ نوجوان لڑکی اپنی چند دن کی بچی کے ساتھ طلاق کے کاغذ سنبھالے بالکل بے آسرا ہو گئی تھی، اس کے پاس بھری دنیا میں کوئی ٹھکانہ نہیں رہا تھا۔ وہ ہمارے سامنے بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی اور ہم بیسیوں لوگ اس کی تکلیف محسوس کرتے ہوئے، اس کے دکھ میں شامل ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments