فٹبال ورلڈ کپ: لیاری والوں کے دل برازیل کے لیے ہی کیوں دھڑکتے ہیں؟


لیاری، فٹبال
یہ ممکن ہی نہیں کہ فٹبال ورلڈ کپ ہو اور کراچی کے علاقے لیاری کے رہنے والے اس سے لا تعلق رہیں اور برازیل کی ٹیم کھیل رہی ہو اور لیاری والے خاموش بیٹھے ہوں، ایسا تو ناممکن ہے۔

درحقیقت لیاری والوں کے دل ہمیشہ برازیل کے فٹبالرز کے لیے ہی دھڑکتے ہیں اور لیاری کے گلی کوچوں میں اس کے فینز ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ فٹبال ورلڈ کپ میں کئی دوسری ٹیمیں بھی کھیلتی ہیں لیکن لیاری والے برازیل ہی کو پسند کرتے ہیں؟

اس سوال کا تفصیلی جواب سینئر صحافی نادر شاہ عادل کی طرف سے سامنے آیا۔

نادر شاہ عادل کہتے ہیں کہ لیاری کو اگر ’منی برازیل‘ یا ’لٹل برازیل‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے تو اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔

’لیاری کے لوگ عام طور پر سیاہ فام کھلاڑیوں اور خصوصاً برازیل کو اس لیے پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ہم رنگ نظر آتے ہیں اس لیے ان کی جذباتی وابستگی بڑھ جاتی ہے۔‘

’لیاری والے خود احساس محرومی کا شکار رہے ہیں لیکن انھیں کم ازکم اس بات کی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ان کے ہم رنگ کھلاڑی فٹبال کی بڑی ٹیموں کا مقابلہ کررہے ہیں۔‘

یہاں یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ لیاری سے تعلق رکھنے والے متعدد کھلاڑی برازیل اور لاطینی امریکہ کے کھلاڑیوں سے بڑی مماثلت رکھتے تھے۔

مثلاً اپنے دور کے مشہور فٹبالر غفور مجنا، برازیل کے رابرٹو کارلوس سے بہت ملتے جلتے تھے اور دونوں کے کھیلنے کا سٹائل بھی تقریباً ایک جیسا تھا۔

گنجی گراؤنڈ پر کرمچ کی گیند سے فٹبال

پچاس کے عشرے میں لیاری کے بچے اور نوجوان ماری پور روڈ پر واقع ایک میدان میں جا کر فٹبال کھیلنے کا شوق پورا کیا کرتے تھے جو ’گنجی گراؤنڈ‘ کے نام سے مشہور تھا۔

اس میدان کی زمین ریتیلی اور ایک جانب بہت زیادہ پھسلن تھی لہذا اس پر یہ سب ننگے پاؤں کھیلا کرتے تھے۔

یہ گنجی گراؤنڈ جس جگہ تھا وہاں بعد میں پیپلز پلے گراؤنڈ بن گیا۔ لیاری والوں کو اس گراؤنڈ میں کھل کر اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع اس لیے بھی نہ مل سکا کہ ایک طویل عرصے تک یہ پیپلز پلے گراؤنڈ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے زیر استعمال رہا۔

لیاری کا چلتا پھرتا سنیما گھر

لیاری والوں کی فٹبال سے گہری وابستگی کا غیرملکی سفارت خانوں کو بھی بخوبی اندازہ تھا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں ان سفارت خانوں کی گاڑیاں ہر دوسرے مہینے ایک مقررہ تاریخ پر رات کے وقت لیاری میں آتی تھیں۔ انھیں ’چلتا پھرتا سنیما گھر‘ کہا جاتا تھا۔

ان گاڑیوں میں پروجیکٹر، سکرین اور فٹبال میچوں کی فلمیں ہوا کرتی تھیں جو خاص طور پر لیاری کے فٹبال شیدائیوں کو دکھانے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔

سینیئر صحافی نادر شاہ عادل کا کہنا تھا ’میں اس زمانے میں سیفی سپورٹس کی طرف سے کھیلا کرتا تھا اور مجھے کئی دوسرے نوجوانوں کی طرح ان فلموں کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔‘

لیاری، فٹبال

’پروجیکٹر کے ذریعے دکھائی جانے والی ان فلموں میں پرتگال کے یوسیبیو اور برازیل کے پیلے کے میچ نمایاں ہوتے تھے۔ ہمارے نوجوان فٹبالرز شہرۂ آفاق پیلے کے میچ دیکھ کر انہی جیسا کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ پیلے کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ جس مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے کوئی دوسرا اس طرح نہیں کرسکتا تھا لیکن لیاری کے نوجوان کھلاڑیوں کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔‘

پھر جب ٹی وی آیا تو لیاری کے ہر فٹبال کلب کے دفتروں اور گھروں میں فٹبال کے میچ دیکھے جانے لگے۔ بات آگے بڑھتی ہوئی علاقے میں بڑی سکرین تک آ پہنچی اور دیکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔

یہ میچ دیکھنے والوں کے اپنے مخصوص لب و لہجے میں تبصرے بھی دلچسپ ہوا کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت برازیل کے علاوہ کسی دوسری ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔

وقت کے ساتھ ساتھ لیاری والوں کی برازیل سے محبت کے انداز مزید مستحکم ہوتے چلے گئے۔ ورلڈ کپ کے موقع پر لیاری کے گلی محلوں اور گھروں کی چھتوں پر ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کے پرچم لہرانے لگے لیکن ان میں بھی برازیل کا پرچم نمایاں ہوتا ہے۔

دیواروں پر پرچم اور کھلاڑیوں کے چہرے پینٹ ہونا بھی معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ اس بار بھی لیاری کے علاوہ ملیر کے علاقے میں بھی یہ رنگ نکھرے نظر آتے ہیں البتہ ملیر میں اس مرتبہ پسندیدہ ٹیم جرمنی بتائی جا رہی ہے۔

لیاری کے فٹبالرز کے چرچے

جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل نہیں ہوا تھا تو اس وقت لیاری سے تعلق رکھنے والے فٹبالرز وہاں جا کر پیشہ ورانہ فٹبال کھیلا کرتے تھے۔

نہ صرف ڈھاکہ بلکہ انڈیا اور دوسرے ملکوں میں بھی محمد عمر، غفور، جبار، حسین کلر، موسٰی غازی، علی نواز جیسے فٹبالرز کے چرچے تھے۔

ترکی کی ٹیم پاکستان آئی تھی تو جبار اور مولا بخش گوٹائی کی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور دونوں کو ترکی کھیلنے کی دعوت دے گئی۔ دونوں نے انقرہ جا کر وہاں بھی اپنے کھیل کی خوب جھلک دکھائی۔

مشرقی پاکستان کے نہ ہونے سے بھی یہاں کے فٹبالرز معاشی طور پر متاثر ہوئے اور پھر جب پاکستان میں اداروں نے اپنی فٹبال ٹیمیں بند کرنا شروع کیں تو کئی فٹبالرز اور ان کے گھرانے فاقوں پر مجبور ہو گئے۔

گینگ وار سے فٹبال تباہ

لیاری ہر دور میں بنیادی سہولتوں سے محرومی کی شکایت کرتا رہا ہے۔ اس علاقے کی منفی شہرت منشیات کے گڑھ کے طور پر بھی رہی ہے اور پھر گینگ وار نے تو جیسے اس علاقے کو تاریکی میں دھکیل دیا۔

اس کے نتیجے میں جہاں تعلیم اور روزگار متاثر ہوئے تو دوسری طرف تفریح کے تمام ذرائع بھی بند ہو گئے۔

کبھی فائرنگ کے واقعات تو کبھی فٹبال گراؤنڈ میں دھماکے میں بچوں کی ہلاکت نے لیاری کا سکون برباد کررکھا تھا۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ لیاری میں منفی شہرت کے حامل نام مثلاً رحمن ڈکیت، شیر محمد شیر، بابو اقبال ڈکیت اور عزیر بلوچ خود فٹبال کے اچھے کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments