’فراڈ فیکٹریاں‘، جہاں شہری ملازمت کے حصول کے لیے دھوکے بازوں کا شکار بن جاتے ہیں


آن لائن فراڈ
افریقی صحافیوں کے خطوط پر مبنی بی بی سی کے سلسلے میں کینیا کے سٹیزن ٹی وی کی صحافی واہیگا ماورا بتاتی ہیں کہ کس طرح کینیا کے لوگوں کو سمگلنگ کارٹلز، نوکریاں دلانے کا ایجنٹ بن کر دھوکہ دے رہے ہیں۔

اگر کچھ دیکھنے میں حقیقت لگے تو شاید ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ یہ کینیا کی وزارت خارجہ کا پیغام تھا جو اس نے جنوب مشرقی ایشیا میں اچھے مستقبل کے خواہاں ملازمت کے متلاشیوں کو خبردار کرنے کے لیے جاری کیا تھا۔

یہ پیغام گذشتہ چند ماہ کے دوران میانمار اور لاؤس سے 60 سے زیادہ ایسے کینیا کے باشندوں کی بازیابی کے بعد جاری کیا گیا ہے جنھوں نے تھائی لینڈ میں سیلز اور کسٹمر سروس کی ملازمتوں کے لیے درخواست دی تھی مگر اصل میں یہ سائبر کرائم، جسم فروشی اور یہاں تک کہ انسانی جسم کے اعضا کی چوری کا معاملہ نکلا تھا۔

کینیا کی وزارت خارجہ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’اس سب میں پہلے ہی ایک کینیا کا نوجوان میانمار میں چینی باشندوں کے زیر انتظام چلنے والے فیکٹری میں عطائی ڈاکٹروں کے ہاتھوں انسانی اعضا کے لیے کیے جانے والے غلط آپریشن کے باعث جان کی بازی ہار چکا ہے۔‘

میں نے بازیاب ہونے والی دو خواتین سے ان کے حالیہ تجربات کے بارے میں بات کی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک 31 سالہ خاتون جنھوں نے ہوٹل مینجمینٹ میں ڈپلومہ کیا ہے اور ایک 35 سالہ ہائی سکول گریجویٹ نے مجھے بتایا کہ وہ اگست میں تھائی لینڈ میں 800 ڈالر ماہانہ تنخواہ کے وعدے پر ملازمت کرنے گئیں تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ تھائی لینڈ روانگی سے ایک ماہ قبل ان میں سے ہر ایک نے اپنے ایجنٹس کو سفر کی ادائیگی کے لیے تقریباً 2,000 ڈالرز دیے تھے اور ایک مختصر تربیتی سیشن میں ٹریننگ لی تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ تھائی لینڈ پہنچنے پر ان کے ہینڈلرز انھیں سڑک کے ذریعے ایک طویل سفر پر لے گئے اور  آخر کار ایک دریا عبور کروا کے پڑوسی ملک لاؤس پہنچا دیا گیا۔

انھیں ایک 15 منزلہ عمارت میں رکھا گیا جو ان کی کل وقتی رہائشگاہ تھا۔ البتہ وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ کس  شہر یا قصبے میں تھیں۔

 یہاں انھیں یہ علم ہوا کہ وہ کسی کسٹمر سروس کی نوکری کے لیے نہیں آئیں بلکہ انھیں سائبر کرائم کی سرگرمیوں کے لیے لایا گیا ہے۔ جس میں انھیں انسٹاگرام، فیس بک اور ٹنڈر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپس پر پرکشش اور دل لبھانے والے جعلی پروفائلز بنا کر امریکی شہریوں کو ہدف بنانا تھا۔  

31 سالہ خاتون نے مجھے بتایا کہ ’وہ آپ کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور آپ انھیں کرپٹو کرنسی کے بارے میں بتاتے ہیں اور آپ ان سے پیسے ہتھیانا شروع کر دیتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ کیسے ان دونوں خواتین کو ایک بڑے کال سینٹر نما ہال میں جبری طور پر یہ کام کرنے کو کہا گیا جہاں سینکڑوں دیگر ممالک کے افراد بھی موجود تھے۔  

ان میں سے کسی کو وعدے کے مطابق طے کی گئی تنخواہ نہیں دی گئی بلکہ اس کی بجائے انھیں دھمکایا گیا کہ اگر وہ مطلوبہ تعداد میں افراد کو آن لائن فراڈ کا شکار نہیں بنائیں گی تو انھیں جسم فروشی پر مجبور کیا جائے تھا یا ان کے انسانی اعضا نکال لیے جائیں گے۔

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک عورت ہونے کے ناطے وہ آپ کو جسم فروشی پر مجبور کر سکتے ہیں اور اگر یہ کام نہیں کرتا تو وہ آپ کے جسمانی اعضا نکال کر فروخت کر سکتے ہیں تاکہ اپنی رقم پوری کر سکیں۔‘

ان کی دوسری ساتھی نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔

’انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں 12 لاکھ کینیا شیلنگ (10000 امریکی ڈالر) ادا کرنا ضروری ہیں اگر ہم اپنی آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مالک ہیں۔‘

کینیا

افریقی ترقیاتی بینک کے تخمینے کے مطابق افریقہ میں ہر سال 12 ملین سے زیادہ نوجوان افرادی قوت میں داخل ہوتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں سالانہ صرف تین ملین ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں – فائل فوٹو

یہ بھی پڑھیے

آن لائن فراڈ کا اگلا نشانہ کہیں آپ تو نہیں!

انسٹا گرام پر دولت کا مظاہرہ کرنے والے نائجیریا کے دو باشندوں کو چار کروڑ ڈالرز کے ساتھ کیسے گرفتار کیا گیا؟

’پگ بچرنگ‘ کا آن لائن فراڈ جہاں جعلساز سرمائے کے ساتھ لوگوں کے جذبات سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں‘

’فراڈ فیکٹریاں‘

خوش قسمتی سے یہ دونوں خواتین انسانی سمگلنگ کے حوالے سے آگاہی دینے والے کینیا کے ایک فلاحی ادارے ہارٹ سے آن لائن رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں تھی۔ کینیا کا یہ ادارہ مشکل میں پھنسے تارکین وطن کو مدد فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے آخر کار ان کو مدد فراہم کی اور انھیں کینیا کے حکام اور اقوام متحدہ کی مدد سے وہاں سے بازیاب کروایا۔  

ان کی کہانی دوسرے کینیا کے باشندوں سے ملتی ہے جنھیں ایسے ہی مقامات پر رکھا گیا تھا۔ کینیا کی وزارت خارجہ نے ایسے مقامات کو ’فراڈ فیکٹریاں‘ اور ’جبری لیبر کیمپ‘ کہا ہے جہاں ’ان افراد کے پاسپورٹ عام طور پر ضبط کر لیے جاتے ہیں اور وہ جرائم پیشہ گروہ کی تحویل میں رہتے ہیں۔‘

وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے نوکریاں دینے والے ایجنٹس کو پولیس نے اشتہاری قرار دیا رکھا ہے مگر وہ پھر بھی تھائی لینڈ میں جعلی نوکریوں کے اشتہار دیتے ہیں اور کینیا کے باشندے ان کے دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جن افراد کو بازیاب کروایا گیا ہے ان میں سے کچھ ٹوٹی ٹانگوں کے ساتھ بیساکھیوں پر گھر واپس آئے ہیں کیونکہ انھیں ان فراڈ فیکٹریوں میں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

وزارت خارجہ کے تازہ ترین بیان کے مطابق میانمار کی کاچن ریاست میں کینیا کے کچھ باشندے موجود ہیں، جہاں باغی علیحدگی پسند فوج سے لڑ رہے ہیں، جس کے باعث ان کی بازیابی کی کوششوں میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔

تھائی لینڈ میں کینیا کے سفارت خانے کے اہلکاروں کی مدد سے اگست سے اب تک مجموعی طور پر 76 متاثرین، جن میں 10 یوگنڈا اور ایک برونڈیائی شامل ہیں کو وطن واپس لایا جا چکا ہے۔

پڑھے لکھے افریقی نوجوانوں کو یہ کارٹیل نشانہ بناتے ہیں کیونکہ وہ سائبر کرائم کے کام کو انجام دینے کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔

یہ حالات براعظم افریقہ میں روزگار کے مواقع کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے اور کس طرح آنے والی حکومتیں اپنے لوگوں سے نوکریوں کا وعدہ کرتی ہیں لیکن پورا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

افریقی ترقیاتی بینک کے تخمینے کے مطابق افریقہ میں ہر سال 12 ملین سے زیادہ نوجوان افرادی قوت میں داخل ہوتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں سالانہ صرف تین ملین ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

مو ابراہیم فاؤنڈیشن کی تحقیق کے مطابق، تقریباً 80 فیصد افریقی باشندے، خصوصاً یورپ جانے والے کام کی تلاش میں براعظم چھوڑ کر جاتے ہیں۔

ان میں سے جو کام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پیچھے پیسے بھیجتے ہیں۔ اگرچہ اس میں سے تقریباً زیادہ تر اکثر کسی بری صورتحال میں پھنس جاتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں نوکریوں کے جھانسے کے بعد مشرق وسطیٰ سے بھی افریقی باشندوں کے ساتھ برے اور غیر انسانی سلوک کی خبریں آ رہی ہیں۔

جن دو نوجوان خواتین سے میں نے بات کی اب وہ بہت زیادہ قرضے میں ہیں اور اب ان کی صورتحال پانچ ماہ قبل والی صورتحال سے بھی بری ہو گئی ہے۔

35 سالہ خاتون کو تو ایک مقامی ہیئر سیلون میں ملازمت مل گئی تاہم ان کی دوست کو ابھی نوکری ملنا باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments