ہزار سال کی زندگی میں بہت سے موڑ آتے ہیں، بہت سی کہانیاں بنتی ہیں۔ مشکلات ہوتی ہیں، کامیابیاں ملتی ہیں جنہیں سمیٹ کر ہی اتنی لمبی زندگی پائی جا سکتی ہے۔ وہاں سب کچھ تھا۔ بہت سے متاثر کن واقعات۔ بہت سے مقامات جو پاؤں جکڑ لیتے ہیں۔ ٹیمز اور شارول دریاؤں کے درمیان تقریباً دو کلومیٹر کی حدود میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے نئے اور پرانے اور کچھ بہت ہی پرانے کالج موجود ہیں۔ ان میں چھتیس آزاد و خود مختار کالج، تین سوسائٹیز جو کہ کالجوں کی طرح ہی کام کرتی ہیں، اور پانچ پرائیویٹ ہال جن کی بنیاد مختلف کرسچن فرقوں نے رکھی تھی اور آج بھی اپنے مذہبی کردار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، شامل ہیں۔

ان کے علاوہ مختلف ڈیپارٹمنٹ، پرنٹنگ پریس، میوزیم، لائبریریاں اور بہت کچھ جو دل کو موہ لیتا ہے۔ فلک کو بوسہ لگاتے مینار اور عمارتیں انتہائی پیاری، جدید اور قدیم بھی جن کے جلال کے سامنے خورشید جمال منہ چھپا لیتا ہے۔ شامی بینکر معطی ’وفیق رضا سعید‘ کی مالی معاونت سے بنا ’سعید بزنس سکول‘ جدید طرز تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ پندرہویں صدی کے ’ڈوینٹی سکول‘ کی لمبی گنبد نما چھت پسلیوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے کنکریٹ کے شہتیروں کے سہارے کھڑی ہے۔ ایک سے جڑی دوسری اور اس سے نکلتی ایک اور پسلی، ان سب نے مل کر چھت پر شہد کے چھتے سے ملتا جلتا ایک جال بنا ہوا ہے۔ ان پسلیوں کے مختلف جوڑوں پر کندہ حروف ان لوگوں کے ناموں کو صدیوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں جن کی فیاضی اور دریا دلی نے اسے سہارا دیا۔

رہوڈز اسکالرشپ یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے لیے ایک بین الاقوامی پوسٹ گریجویٹ ایوارڈ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے قدیم گریجویٹ اسکالرشپ ہے۔ اسے دنیا کے سب سے باوقار بین الاقوامی اسکالرشپ پروگراموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پنسلین دریافت کرنے والے ہاورڈ فلوری، بل کلنٹن، آسٹریلیا کے تین وزرائے اعظم اور ہمارے سابق صدر وسیم سجاد سمیت دنیا کے بہت سے عظیم لوگ اس سے مستفید ہو چکے ہیں۔

اس کے بانی، سیسل جان رہوڈس کا مجسمہ ہائی سٹریٹ میں واقع اوریل کالج کی بلند و بالا بلڈنگ پر استادہ ہے۔ یہ عمارت اس کی مالی معاونت سے بنائی گئی تھی۔ اس مجسمہ کے نیچے ایک قطار میں انگلینڈ کے اس دور کے دو بادشاہ، دو پوپ اور کالج کے دو صدور کے مجسموں کی موجودگی اس کی برتری و بڑائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ وہی سیسل رہوڈس ہیں جن کے نام پر جنوبی افریقہ کا ملک رہوڈیشیا تھا جس سے بعد میں زیمبیا اور زمبابوے معرض وجود میں آئے۔

سیسل رہوڈس کو اس کے نسل پرستانہ رویے کی وجہ سے موجودہ دنیا میں اور خصوصی طور پر افریقہ میں بہت برا جانا جاتا ہے۔ اس مجسمہ کو گرانے کے لیے کئی بار یونیورسٹی میں مہم چلی۔ اس پر حملے بھی ہوئے لیکن جامعہ کی انتظامیہ اس کی خدمات کی اتنی معترف ہے کہ ان سب مخالفتوں کے باوجود کسی صورت میں اسے ہٹانے پر تیار نہیں ہوتی۔

اس کالج کی عمارت اور زیادہ تر پرانے کالجوں کی عمارتیں قلعہ نما ہیں۔ ان کے بڑے بڑے دالان چاروں طرف کمروں اور دیواروں سے گھرے ہوئے ہیں۔ خصوصی طور پر کرائسٹ چرچ اور ماڈلین ‏کالج کے دروازے اور دیواریں جنگی قلعہ کی طرح انتہائی مضبوط ہیں۔

یہ اس دور کی یاد دلاتی ہیں جب ٹاؤن (مقامی افراد) بمقابلہ گاؤن (طالب علم) کی لڑائی عروج پر تھی۔

یورپ کی ابتدائی جامعات موجودہ دور کے اداروں سے بالکل مختلف تھیں۔ اس دور میں طلبا اور اساتذہ علیحدہ عمارتوں کی بجائے بستیوں کے اندر ہی رہتے تھے۔ علم کے شیدائی دور دراز کے علاقوں سے سفر کر کے یورپ کے مختلف شہروں میں سالہا سال تک سکونت اختیار کرتے۔ یہ طلبا اپنے ساتھ دولت اور خوشحالی بھی لاتے لیکن مقامی اور غیر مقامی افراد کے طرز بود و باش کا فرق اختلافات کا ہمیشہ سے باعث رہا۔ بعض دفعہ یہ اختلاف لڑائی کی شکل اختیار کر لیتا جن میں طلبا کا ہی نقصان ہوتا اور اکثر انہیں وہ علاقہ چھوڑنا بھی پڑ جاتا۔ یہی دھتکارے ہوئے طلبا اور اساتذہ پیرس اور اٹلی سے چل کر انگلینڈ کے شہر آکسفورڈ پہنچے اور اس عظیم جامعہ کی بنیاد رکھی۔ یہاں سے اسی وجہ سے انہیں کیمبرج جانا پڑا۔

بارہویں صدی کے مقدس رومی شہنشاہ ’فریڈرک بار باروسا‘ تعلیم کی محبت میں جلاوطنی اور غربت کا انتخاب کرنے والے ان طلباء کی حالت زار سے ہمدردی رکھتا تھا۔ اس کے دور میں طلبا کی حمایت میں قوانین بنے اور انہیں مقامی قواعد و ضوابط اور پابندیوں سے بالا تر قرار دے دیا گیا۔ انہیں خدا کے راستے کے متلاشی، خدا کے بندے، عظیم اور نیک لوگوں ٹھہرایا جانے لگا اور اسی دور میں ان کے نام کے ساتھ پادری، پوپ اور باپ جیسے مذہبی عہدے اور مناصب بھی جڑنا شروع ہوئے۔

ان قوانین نے طلبا کا پلڑا بھاری کر دیا۔ مذہبی اہمیت ان کی خامیوں اور بعض اوقات بد تمیزیوں پر پردہ ڈال دیتی تھی۔ لڑائیاں پھر بھی جاری رہیں۔

1355 میں 10 فروری کو ایک بدنام زمانہ واقعہ پیش آیا۔ آکسفورڈ کے مرکزی چوک کے ایک مے خانے میں غیر معیاری شراب بیچنے کے معاملے میں طلبا اور مالک کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ تلخ کلامی سے بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ مے خانہ کا مالک شہر کا میئر تھا۔ شہریوں نے میئر کا ساتھ دیا۔

طلبا کی گرفتاری کی کوششوں کو ساتھیوں نے ناکام بنا دیا۔ انہوں نے قصبے کے دروازے بند کر دیے اور ہنگامہ آرائی کی، عمارتوں کو آگ لگا دی اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔ اگلی صبح اردگرد کے دیہات سے کمک پہنچنے پر قصبے والوں نے جوابی کارروائی کی۔ دونوں اطراف سے کمانوں اور تیروں کا آزادانہ استعمال ہوا اور تصادم کے اختتام تک 63 طلباء اور متعدد مقامی افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ کچھ اساتذہ کے بھی سر قلم کر دیے گئے۔ بچ جانے والے طلباء نے دہشت کے عالم میں آکسفورڈ چھوڑ دیا۔ شہر والوں کو فتح نصیب ہوئی۔

خبر کنگ ایڈورڈ کے دربار میں پہنچی۔ وہ سمجھتا تھا کہ یونیورسٹی اس کے ملک کے لیے کتنی اہم ہے۔ اس نے طلباء کا ساتھ دیا۔ کئی شہریوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ میئر اور اس کے ساتھیوں کو لندن ٹاور میں قید کر دیا گیا۔ فسادات میں حصہ لینے والے طلبہ کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا گیا۔ یونیورسٹی کی مراعات میں اضافہ کیا گیا۔ شہر کی تمام مذہبی تقریبات بشمول شادیوں اور جنازوں پر ایک سال تک پابندی لگا دی گئی۔ سب سے اہم فیصلہ یہ دیا گیا کہ شہری کونسل یونیورسٹی کو پانچ سو فرانک جرمانہ ادا کرے گی۔ معزز ین شہر اور میئر کو پابند کیا گیا کہ یونیورسٹی کو سالانہ 60 پونڈ جرمانہ ادا کرے گا جو کہ طلبا کے وظائف کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

تقریباً پانچ سو سال تک آکسفورڈ کا میئر یونیورسٹی چرچ میں ان طلبا کی مغفرت کی دعائیہ تقریب میں شامل ہو کر یہ جرمانہ ادا کرتا رہا۔ اب اگرچہ جرمانہ ادا تو نہیں کیا جاتا لیکن یہ دن اسی طرح منایا جاتا ہے۔

ایسے واقعات سے بچاؤ کے لیے یونیورسٹی نے بھی طلبا کے ہاسٹل اور کالج علیحدہ کر لیے۔ معززین شہر کے تعاون سے ہی بہت سی مزید اصلاحات ہوئیں، عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ آج تقریباً سارا قدیم شہر یونیورسٹی کی ملکیت ہے اور رہائشی عمارتیں دونوں دریاؤں کے پار منتقل ہو چکی ہیں۔

پورے شہر کی معیشت کا زیادہ تر حصہ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ کاروباری سرگرمیوں سے آتا ہے۔

اس وقوعہ کی چھ سو سالہ یادگاری تقریب میں ٹاؤن بمقابلہ ٹاؤن کے نعرے سے تلخی کم کرنے کے لیے یونیورسٹی نے میئر کو اعزازی ڈگری سے نوازا اور جواباً شکریہ کا اظہار کرتے ہوئے شہری کونسل کی طرف سے وائس چانسلر کو مقامی شہریت دی گئی۔

یہ ساری کہانیاں، سارے واقعات اور صدیوں کا یہ سفر بتاتا ہے کہ کسی ادارے کی زندگی اور عظمت کا دار و مدار صرف اعلیٰ تعلیمی صلاحیتوں اور طلبا کی محنت و لگن پر نہیں۔ اس کی ترقی میں مکمل حکومتی سرپرستی اور مقامی لوگوں کی اخلاقی مدد کے ساتھ ان کی مالی معاونت بھی اشد ضروری ہے۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے ادارے موجود ہیں جو صرف حکومتی فنڈز سے چلتے ہیں۔ ان میں سے بہت سی جامعات نے منافع کمانے کے لیے پروگرام بھی شروع کر رکھے ہیں۔ پرائیویٹ جامعات کی بات کیا کریں وہ تو صرف دولت کمانے کے کارخانے ہیں۔ طلبا کی مجبوری سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جامعات کے اردگرد پوری پوری بستیاں آباد ہیں جو کہ صرف طلبا کی دولت پر پلتی بڑھتی ہیں لیکن مقامی افراد اور امرا کا ان کی تعمیر و ترقی اور طلبا کے لیے وظائف میں حصہ صفر ہے۔