سیاسی استحکام کب ملے گا؟


نئے سروسز چیف کی تعیناتی کے قانونی عمل کی تکمیل کے بعد بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ سنہ 2013 میں مینار پاکستان سے شروع ہونے والی وہ سیاسی مہم آخرکار اختتام کو پہنچی، جو ریاستی ٹرین کی مخصوص سمت پر رخ گردانی کے لئے لانچ کی گئی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مرکز پرستوں کا منظم گروہ نہایت انکساری کے ساتھ یہاں ایک ایسی اتھاریٹیریئن رجیم کے قیام کو ریاستی بقاء اور خود اپنے مفاد کے لئے ضروری سمجھتا تھا جو اپنی ساخت کے اعتبار سے تو چین اور روس جیسی استبدادیت سے مماثل ہوتی لیکن اس کی حتمی وابستگی اور پالیسی سازی کی عنان سرمایہ دارنہ تمدن کی سرخیل امریکی مقتدرہ سے منسلک ہونی تھی، اس نئے ماڈل میں عمران خان کی کرشماتی شخصیت کو عام لوگوں کی وفاداریوں کا مرکز بنا کر عوامی قوت کا ارتکاز پیدا کرنا بھی مقصود تھا، شاید اسی لئے پچھلے دس سالوں سے برپا اس اعصاب شکن کشمکش کا محور خان کی شخصیت بنایا گیا، گویا امریکہ پرانی شرائط اور نئے طور طریقوں کے ساتھ پاکستانی ریاستی پہ پون صدی سے جاری اپنے ”دوستانہ“ تصرف کے دوام کا نیا بندوبست تخلیق کرنا چاہتا تھا لیکن زندگی کی توانائیوں سے لبریز ہمارا قومی وجود ایک نئے نیررخشاں کا طلبگار نکلا، اس لئے وہ غیر مشروط جمہوری آزادیوں کے حصول کی خاطر بامقصد مزاحمت پہ کمر بستہ ہو گیا تاہم یہ جنگ ابھی تھمی نہیں، اس سیاسی انتشار پہ قابو پانے کا مرحلہ سر ہونا ابھی باقی ہے، جس نے دہشتگردی کی حرکیات سے بھی زیادہ مہیب صورت اختیار لی ہے۔

فی الحال ہمارے ہمہ دان دیوتا سیاسی انتشار پہ قابو پانے کی استعداد اور اجتماعی زندگی میں توازن لانے کا ہدف حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں یعنی ان کی طاقت اب بھی ان مظلوم لوگوں کے فکری افلاس پہ مبنی رہے گی جو سیاست میں اپنے مفروضوں کی تصدیق اور امیدوں کی تسکین چاہتے ہیں۔

ہماری اجتماعی قومی سوچ پچھلے پچھتر سالوں سے لیلائے جمہوریت سے ہم آغوش ہونے کی رومانوی آرزوؤں کو لے کر مملکت خداداد کو وفاقی جمہوری نظام کی طرف لے جانے کی اپنی ان کوششوں کو ثمربار دیکھنے کو بیتاب رہی جس کے لئے لیاقت علی خان سے لے کر فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف کے علاوہ ہزاروں گمنام کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتوں، جلا وطنیوں اور زندگیوں کی لازوال قربانیاں دی تھیں۔

مگر افسوس کہ جمہوریت دلکش ہونے کے باوجود ایسی مستقل آویزش کا محرک بنتی رہی جو امیدوں کو گرمانے اور انسان کی تمام قوتوں کو تحریک دے کر زندگی کی کشمکش کو زیادہ تند و تیز کر دیتی ہے، گویا آزادی کی یہ دیوی ناپسندیدہ نہ سہی مشتبہ ضرور ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا تعلق سیاسی استحکام کے ساتھ نہایت گہرا ہوتا ہے، غیر یقینی صورتحال اور غیر مستحکم سیاسی ماحول سرمایہ کاری اور سماجی ارتقاء کی رفتار کو سست رکھتا ہے، بری اقتصادی کارکردگی ہر روز حکومتوں کے خاتمہ اور سیاسی انتشار کی راہیں ہموار بناتی ہے لیکن فی الوقت تو ہمیں ترقی کی منزلیں سر کرنے سے زیادہ موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں جنوبی ایشیا میں وقوع پذیر ہونے والی ناقابل یقین تبدیلیوں کو سمجھنے کی مشکل درپیش رہے گی، شاید اس وقت ہماری ریاستی مقتدرہ کو ایسے متنوع اور پیچیدہ عالمی تغیرات سے نمٹنے کا ہنر دستیاب نہ ہو چنانچہ ایک بار پھر ہمیں قسمت پرستانہ فلسفہ حیات کا سہارا لینا پڑے گا۔

ذرا غور کیجئے کہ ہم مستقبل کی ترقی کو چین جیسی جدید استبدادی مملکت کے معاشی ماڈل پہ استوار کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی تہذیبی اقدار، سیاسی آزادیوں اور تمدنی شعور کو اسلامی اصولوں سے منسلک رکھنے کے خواہشمند بھی ہیں، اسی مشکل اور پیچیدہ کیفیت سے نبرد آزما ہونے کے لئے جس اعلی سطح کی سیاسی بصیرت، انتظامی مہارت اور ذہنی لچک کی ضرورت تھی وہ ابھی تک کہیں نظر نہیں آئی۔ عارضی سیاسی استحکام کا اہم سنگ میل عبور کر لینے کے باوجود بھی پاکستان کو کئی قسم کے اندرونی اور بیرونی تنازعات کا سامنا رہے گا خاص کر پچھلے دس سالوں میں پنپنے والی جارحانہ سیاسی کشمکش کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سیاسی، نفسیاتی اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ جنگ دہشتگردی کی وجہ سے انتظامی ڈھانچہ کی زبوں حالی جیسے چیلنجز پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔

ہم پہلے ہی ریاستی قوت کے بے جاہ استعمال سے انتہا پسندی اور عدم برداشت جیسے مسائل پیدا چکے ہیں، اب پھر نفرتوں، انتشار اور باغیانہ رویوں کو قانونی تشدد سے نمٹانے کی کوشش کے ذریعے تنازعات کی نئی جہتوں کو فروغ دینے کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔ ہمارے ارباب بست و کشاد تسلیم کرتے ہیں کہ گزشتہ بیس سالوں میں ریاستی اشرافیہ نے انسداد دہشتگردی کے لئے کوئی جامع پالسی وضع کرنے کی بجائے محض متحرک ردعمل دینے پہ اکتفا کیے رکھا کیونکہ فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے ارباب اختیار خود بھی ان پیچیدہ مسائل کو نمٹانے والی مربوط سوچ کے تال میل سے ناواقف تھے، اس لئے ان کی مہمل مساعی اور بے سمت پیشقدمی بجائے خود وبال بنکر ادارہ جاتی ساکھ پہ سایہ فگن ہوتی گئی۔

ابتداء میں دانستہ سیاسی استحکام کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر انتہا پسندی کی افزائش کو جنگ دہشتگردی کے ٹول کے طور پہ بروئے کار لایا گیا جس نے تنگ نظری کو ہمارے قومی تشخص کی شناخت بنا کر سماجی ہم آہنگی اور زندگی میں توازن پیدا کرنے کے امکانات کو دور دھکیل دیا، ہماری ریاستی اتھارٹی عام لوگوں کی جائز شکایات کے مداوا کے لئے پرامن قانونی طریقے فراہم کرنے میں ناکامی ہوئی تو اس سے مختلف سیاسی، نسلی اور مذہبی گروہوں کو تشدد کو جائز متبادل کے طور پر تلاش کرنے کی ترغیب ملی۔

2013 اور 2018 میں پرامن سیاسی منتقلی نے ہمیں معاشی اصلاحات کے نفاذ اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا جو سنہری موقعہ فراہم کیا تھا، اسے ریاستی ٹرین کی رخ گردانی کے لئے مہم جوئی کرنے والی ایلیٹ نے گنوا دیا۔ ملک کو اب شدید ترین سیاسی پولرائزیشن کے علاوہ قرضوں کے بڑھتے ہوئے بحران اور اقتصادی محاذ پر ایک برہم کن تجارتی عدم توازن کا سامنا ہے، پڑوسی ممالک بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے اعلی سطح تنازعات وقتاً فوقتاً تشدد کی متنوع صورتوں میں ڈھل کر علاقائی اور بین الاقوامی امن کے لئے خطرات پیدا کرتے رہتے ہیں۔

یہاں کی مقامی تنظیموں نے اصلاح احوال کے لئے عالمی اداروں سے ملنے والے تعاون کو میڈیا، فنون، ٹیکنالوجی، مکالمے اور تعلیم کے ذریعے سماجی ربط بڑھانے کے بیانیے کو فروغ دینے کے جدید طور طریقوں میں استعمال کیا لیکن ایسی ہر کوشش کے پیچھے کارفرما سیاسی محرکات ان مصنوعی مظاہر کی افادیت کو صفر بناتے رہے۔

جس این جی اوز کلچر کے ذریعے عالمی اداروں نے سرکاری ڈھانچہ کی استعداد کار بڑھا کر انہیں شہریوں کی ضروریات کے لئے زیادہ مفید بنانے کی کوششوں میں سر کھپایا، وہ این جی اوز بجائے خود ایک سماجی سنڈروم کی صورت اختیار کر چکی ہیں، بظاہر یہ ساری مساعی عام لوگوں کی شکایات کے ازالہ کے لئے تشدد کے استعمال کے رجحان کو کم کرنے کی تگ و دو پہ محمول تھیں لیکن ان کوششوں کے ثمرات فائیو سٹار ہوٹلوں کے منظم سیمیناروں کی پرکیف فضا سے باہر نہ نکل سکے۔

ان سکیموں کے ذریعے پولیس اور کمیونٹی تعلقات کو بہتر بنانے، عام آدمی کی انصاف تک رسائی کے نظام کو فروغ دینے، نچلی سطح کے جمہوری اداروں کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستانیوں کے کام کو مربوط بنانے کی نوید سنائی گئی لیکن ادارہ جاتی ڈھانچہ میں ذرا برابر بہتری پیدا نہیں کی جا سکی، کچھ عالمی ادارے امن اور تنازعات کے محرکات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے پاکستان میں ”تحقیقاتی“ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے لیکن بحالی اور تعمیر نو کا عمل موومینٹم اس لئے نہ پکڑ سکا کہ فی الحال ہمارا معاشرہ تبدیل ہونے کے لئے ذہنی طور پہ تیار نہیں تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments