مبارک بادیں


کوئی ساٹھ سال کے لگ بھگ کی عمر کا عمار چغتائی جو اپنی صحت کی وجہ سے دس سال چھوٹا لگتا تھا مٹھائی کی دکان میں داخل ہوا اور حسب معمول چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اس کے دل میں اس دکان کی صفائی اور قرینے سے رکھی ہوئی مٹھائیاں دیکھ کر ایک عجب گدگدی سی ہونے لگتی۔

پھر اس نے حجاب میں ملبوس لڑکی کی طرف دیکھا۔ ’ایک ایک کلو کے پانچ ڈبے مکس مٹھائیوں کے بنا دیں، کھوئے اور بیسن کی برفی زیادہ ڈالیں۔ ‘

’جی ضرور۔ انکل، آج آپ بہت مٹھائی لے جا رہے ہیں۔ ‘ سیلز گرل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’کیا بتاؤں آج مبارکباد دینی بھی ہے اور لینی بھی ہے۔ ‘ عمار نے اپنے سینے کو اور اکڑا لیا۔
’بہت خوب۔‘ اس کے چہرے پہ تھکان اس کی جھوٹی مسکراہٹ کو عیاں کر رہی تھی۔

’اور ہاں اس میں سے چار ڈبے گھر بھجوا دیں اور ایک میں ساتھ لئے جاتا ہوں۔ ‘ عمار نے جیب سے بٹوا نکالتے ہوئے کہا۔

تھوڑی دیر بعد عمار چغتائی لمبے لمبے قدم لیتا ہوا ایک تنگ گلی میں داخل ہوا۔ دونوں طرف چھوٹے چھوٹے خوبصورت مکانات کی قطاریں تھیں، دور ایک مکان کے باہر دو چار لوگ کھڑے تھے۔ عمار نے سوچا یہی چالیس نمبر مکان ہونا چاہیے۔ باہر کھڑے ہوئے لوگوں سے سلام دعا کے بعد وہ ایک کشادہ دروازے سے اندر داخل ہوا۔ چھوٹے سے کمرے میں کئی لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے، دو تین لوگ خاموشی سے سپارہ پڑھ رہے تھے۔

ایک طرف میز پر مٹھائی، چاکلیٹ اور پھلوں کے ڈبے اور ٹوکرے رکھے ہوئے تھے۔

عمار نے اونچی آواز سے سلام کیا اور اسد کو ڈھونڈنے کے لئے چاروں طرف دیکھا۔ اچانک اسی وقت اسد اندرونی دروازے سے بیٹھک میں داخل ہوا اور عمار سے بغلگیر ہو کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ عمار نے اسے بھینچ لیا۔

’بھئی آپ اور آپ کا بیٹا دونوں خوش قسمت ہیں۔ اللہ ایسا نیک اور بہادر بیٹا سب کو عطا کرے۔ آپ تو مبارکباد کے مستحق ہیں! ‘

عمار نے مٹھائی کا ڈبہ آگے کیا۔

اسد نے رومال سے آنسو پہنچے اور مٹھائی کا ڈبہ لے کر میز پر رکھ دیا، پھر اونچی آواز میں سب سے مخاطب ہوا۔

’یہ چغتائی صاحب ہیں، انہوں نے میرے بیٹے کو افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف جہاد میں بھیجا تھا۔‘
یہ سن کر دو تین نوجوان اپنی جگہوں سے اٹھے اور عمار سے بہت انہماک سے ہاتھ ملایا۔

کوئی دو تین منٹ کے بعد عمار آہستہ سے اسد سے مخاطب ہوا۔ ’میرے گھر میں کچھ لوگ آ رہے ہیں اس لئے مجھے اجازت دیں۔ میں کل پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔‘

عمار جلدی جلدی بے تابی سے اپنے گھر کی طرف بڑھا۔ شاید وہ اڑنے کی کوشش کر رہا تھا!

باہر دو تین کاریں کھڑی تھیں او ر نفیس کپڑوں میں ملبوس ایک میاں بیوی موٹر سائیکل سے اتر کر دروازے کی طرف جا رہے تھے۔ پورا گھر ہلکی نیلی روشنی میں لپٹا ہوا تھا اور چنبیلی کی بیل آج کچھ زیادہ ہی بھینی بھینی خوشبو دے رہی تھی۔ اس کے دل میں خوشی کی لہریں اٹھ رہی تھیں جیسے اس کی زندگی کا ایک مقصد پورا ہو گیا ہے۔ وہ نجانے کیوں آج کے دن کا اپنی شادی کے دن سے موازنہ کر رہا تھا۔ عمار کے چہرے کی مسکراہٹ ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح تھی جو رکائے نہ رک سکتی تھی اور چھپائے نہ چھپ سکتی تھی، اور اب اسے چھپانے کی کیا ضرورت تھی!

عمار چغتائی نے باہر کھڑے ہوئے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے دو دوستوں سے مصافحہ کیا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔ پانچ سات لوگ بیٹھے چائے اور ٹھنڈے مشروبات سے محظوظ ہو رہے تھے۔

ایک طرف میز پر مٹھائی، چاکلیٹ اور پھلوں کے ڈبے اور ٹوکرے رکھے ہوئے تھے۔
اسے دیکھتے ہوئے مبارک بادوں کا واویلا مچ گیا۔ ایک قریبی رشتے دار نے پوچھا کہ بیٹا کہاں ہے۔
’بس آتا ہی ہو گا اندر سے۔ آئے ہوئے تین دن ہو گئے ہیں صاحب زادے کو، ابھی تک جٹ لیگ چل رہا ہے! ‘

بائیں طرف سے ایک کافی عمر رسیدہ شخص نے اپنی چھڑی کے سہارے اٹھ کر عمار کو گلے لگایا۔ ’مبارک ہو آپ کا بیٹا واقعی کتنا قابل نکلا، سنا ہے اس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ کون سے ملک سے ڈگری لی ہے؟‘

عمار چغتائی کی باچھیں کھل رہی تھیں۔ ’امریکہ سے، پانچ سال سے بھی زیادہ لمبی پڑھائی کی ہے صاحب زادے نے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments