سلطان ٹیپو : ریاست میسور کا آخری شہید حکمران


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے

حیدر علی نے گورم کنڈا کے نواب کی بیٹی فخرالنسا ءسے شادی کی جن کے بطن سے ٹیپو سلطان کی پیدائش ہوئی۔ اس طرح چتور ٹیپو سلطان کا ننھیال بھی بنتا ہے۔ شام ہو چکی تھی اور اس وقت ہماری ٹرین ٹیپو سلطان کے ننھیال سے گزر رہی تھی۔ سب لوگ کھانے کا انتظار کر رہے تھے اور میں سلطان ٹیپو کے ننھیال کو دیکھ رہا تھا۔ یہ علاقہ وہی ہے جہاں حیدر علی کی وفات بھی ہوئی۔ اس کی تدفین سرنگاپٹم میں کی گئی تھی اور سلطان ٹیپو نے ان کا مزار بھی بنوایا تھا۔ سلطان ٹیپو کو بھی اسی مزار میں دفنایا گیا باپ اور بیٹے کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں۔

سلطان ٹیپو جنہیں ہم عام طور پر ٹیپو سلطان کہتے ہیں، صحیح نام سلطان ٹیپو ہے، کی پیدائش بنگلور کے قریب 1750 ء میں ہوئی۔ حیدر علی بہت دانا آدمی تھا لیکن وہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت اعلٰی بندوبست کیا۔ دینی تعلیم کے لیے عالموں کا بندوبست کیا اور اس کے علاوہ اردو عربی، فارسی کی تعلیم کا بھی بندوبست کیا۔ ایک فرانسیسی شخص کو ان کی فوجی تربیت کے لیے مختص کیا گیا۔ اس طرح سلطان ٹیپو جس کا نام اس علاقے کے ایک نہایت قابل احترام بزرگ کے نام پر رکھا گیا تھا کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی گئی۔ حیدر علی کو سلطان ٹیپو پر اتنا اعتماد تھا کہ 17 سال کی عمر میں اسے جنگ میں شریک کیا گیا اور فوج کے ایک حصے کی کمان بھی اس کے کندھوں پر ڈالی گئی۔

لیون بینتھام بورینگ لکھتے ہی کہ میں جب 1782 ء میں حیدر علی کی وفات ہوئی تو اس وقت سلطان ٹیپو کی عمر 32 سال تھی۔ وہ پندرہ سال سے جنگی معاملات میں حصہ لے رہا تھا۔ حیدر علی کی وفات کے بعد اس نے ریاست میسور کی ذمہ داری سنبھالی اور اسے بہت اچھے طریقے سے نبھایا۔ اس دوران اس نے مراٹھوں اور انگریزوں کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ اس پر سب سے برا وقت تب آیا جب انگریزوں کے ساتھ ایک جنگ میں وہ محاصرے میں آ گیا اور حالات کی وجہ سے اس نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت اسے آدھی سلطنت انگریزوں اور ان کے اتحادیوں کو دینا پڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی رقم دینے کا بھی وعدہ کیا گیا۔ ظلم کی انتہا یہ کہ انگریز سلطان ٹیپو کے دو بچوں کو بطور ضمانت اپنے ساتھ مدراس لے گئے۔ سلطان ٹیپو نے تاوان کی رقم ادا کر کے اپنے بیٹوں کو رہا کروایا۔

چوتھی جنگ میں انگریز اور ان کے اتحادیوں کو فتح حاصل ہوئی اور سلطان ٹیپو میدان جنگ میں شہید ہو گیا۔ یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ واقعہ ہے۔ اس میں جہاں ایک طرف انگریزوں نے اپنا کام کیا وہیں انگریزوں کے ساتھ مقامی ریاستوں کی فوجیں بھی شریک تھیں۔ جن میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔

یہ سب جان کر میں اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ ان سب لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر سلطان ٹیپو کو نہ روکا گیا تو اردگرد کی تمام ریاستیں اس کے قبضے میں آ جائیں گی۔ اس وجہ سے علاقے کی تمام ہندو اور مسلمان ریاستیں، ریاست میسور کے خلاف ہو گئیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے سلطان ٹیپو سے سلطنت واپس لے کر ریاست میسور کے سابق ہندو حکمرانوں کے حوالے کی۔ اس کام کے لیے انھوں نے انگریزوں کی حمایت کی۔ انگریزوں کے لیے بھی وہ ایک بڑا ہی اہم موقع تھا کہ وہ ان تمام لوگوں کی مدد سے سلطان ٹیپو جو دراصل ان کا سب سے بڑا دشمن تھا کو ختم کر دیا جائے۔ مقامی راجاؤں اور نوابوں نے اپنی ریاستیں تو بچا لیں لیکن ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد انگریزوں کو کسی بھی جگہ ایسی سخت مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

سلطان ٹیپو نے انگریزوں کو نکالنے کے لیے بے حد کوشش کی۔ اس کام کے لیے اس نے سلطنت عثمانیہ کی مدد لینے کی بھی کوشش کی۔ افغانستان کے حکمرانوں سے بھی رابطہ کیا۔ فرانس کے فوجیوں نے سلطان کی فوجوں کی تربیت بھی کی اور راکٹ بنانے میں بھی مدد کی۔ اس کے ساتھ میدان جنگ میں کھڑے بھی رہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سلطان ٹیپو نے انگریزوں کے جن مخالفین سے رابطے کیے وہ سب بھی غیر ملکی تھے۔ حیدر علی اور سلطان ٹیپو کی کوشش تھی کہ مقامی ریاستوں کی مدد سے مشترکہ طور پر انگریزوں کا مقابلہ کیا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے بعد انھوں نے ہندوستان سے باہر کے لوگوں سے مدد طلب کی، جو نہ مل سکی۔

ایک طرف حیدر علی اور سلطان ٹیپو تھے اور دوسری مقامی ریاستوں کی حمایت یافتہ انگریز فوجیں یہ سب مل کر شیر میسور پر چڑھ دوڑے اور اس کی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔ بالآخر سلطان ٹیپو میدان جنگ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ ان کی شہادت کے بعد سابقہ ہندو راجا کے خاندان نے دوبارہ ریاست میسور پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ سلطان ٹیپو کے خاندان پر کیا گزری، اس بارے میں مجھے کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ یقیناً انگریزوں اور ان کے اتحادیوں نے سلطان ٹیپو اور اس کے خاندان کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھیوں پر بھی ظلم کے پہاڑ ہی توڑے ہوں گے۔

ہندوستان کے جنوب میں جتنی بھی مسلمان ریاستیں تھیں، حیدرآباد اور دکن سمیت سب کے حاکم وسطی ایشیاء سے آنے والے لوگ تھے۔ میرے اندازے کے مطابق مقامی مسلم ریاستوں کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ایک عرب کی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔

غیر ملکیوں کے ساتھ جن ریاستوں نے بطور ریاست جنگیں کی ہیں ان میں ریاست میسور، جھانسی کی ریاست، نواب سراج الدولہ کی ریاست اور پنجاب کے سکھوں کے علاوہ موجودہ کے پی کے میں واقع قبائل جو در حقیقت ایک ریاست کی مانند ہی تھے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایسی ریاستیں ہو سکتی ہیں جن کا مجھے علم نہیں ہے۔

انگریز ہندوستان پر تین اطراف سے حملہ آور تھے۔ ممبئی میں بھی انھوں نے بمبئی پریذیڈنسی بنائی ہوئی تھی جو ایک طرح سے ان کا جی ایچ کیو تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے مدراس اور کلکتہ میں بھی پریذیڈنسیز بنائیں ہوئیں تھیں۔ اگر آپ نقشے میں دیکھیں تو آپ جان سکیں گے کہ انگریزوں نے ہندوستان میں بطور تاجر قدم رکھا۔ ان کے تجارتی جہاز کے اوپر مال ہوتا اور اس کے نیچے بارود۔ ان کے ایک ہاتھ میں لوگوں کے مفادات کی چیزیں تھیں اور دوسرے ہاتھ میں بندوق۔ انھوں نے کسی کو مفادات کی زنجیر میں باندھا اور کسی کو بندوق کے زور پر دبایا۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ پورے ہندوستان کے مالک بن بیٹھے۔

اس میں ان کی طاقت، علم و عقل فوجی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اور ہمارے حکمرانوں کی نا اہلیوں کا بھی ایک اہم کردار ہے۔

چند سال پہلے کرناٹکا اسٹیٹ جس میں اب ریاست میسور کا علاقہ شامل ہے نے اپنا قومی دن منایا اور اس کی مناسبت سے ایک بہت بڑی پریڈ کا اہتمام کیا گیا۔ اس پریڈ میں ایک فلوٹ پر سلطان ٹیپو کا ایک بہت بڑا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کرناٹکا کی سرکار نے سرکاری طور پر سلطان ٹیپو کی انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی کوشش کو بے حد سراہا ہے۔ اس کے علاوہ حیدر علی اور سلطان ٹیپو نے ریاست میسور کی معیشت کو جس نئے طریقے سے پروان چڑھایا، اس کا بھی سرکاری اور غیر سرکاری طور پر اعتراف کیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے معاشرتی طور پر ہندوؤں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی بے شمار کام کیے جن میں بے شمار مندروں کی تعمیر بھی شامل ہیں۔ اس فلوٹ میں کسی نظام، کسی نواب آف آف آرکوٹ کا مجسمہ نہیں ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انھیں یاد رکھتے ہیں جنوں نے ان کی آزادی کی خاطر جان دی انھیں نہیں جنہوں نے سات سمندر پار سے آنے والے لوگوں کی اہل ہند کو غلام بنانے میں مدد دی۔

دوسری طرف ایسے ہندو بھی موجود ہیں جو سلطان ٹیپو پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے بہت بڑی تعداد میں ہندوؤں کو قتل کیا۔ گو کہ ایسا کہنے والوں کی تعداد کافی کم ہے لیکن عام طور پر یہ بحث کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کرناٹکا کا بطور ریاست سلطان ٹیپو کی خدمات کا اعتراف کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سلطان ٹیپو نے قابل قدر کارنامے سر انجام دیے۔ سلطان ٹیپو کے نام پر ایک یونیورسٹی کا نام بھی رکھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کی حکومت نے کتابوں سے سلطان ٹیپو سے متعلق مواد کو نکالنے کی کوشش کی جس کی عام لوگوں نے بے حد مخالفت کی۔ ایک ہندو تاریخ دان نے لکھا ہے کہ اگر سلطان ٹیپو ہندو ہوتا، تو آج اس کی ایک بھگوان کے طور پر پوجا ہو رہی ہوتی۔

ٹیپو سلطان کی زندگی پر بھگوان ایس گیدوانی نے ایک تاریخی ناول لکھا ہے جس کا عنوان ہے
The Sword of Tipu Sultan

میری ذاتی رائے میں ٹیپو سلطان کا نام ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور عوام کی بھلائی کے کام کرنے والوں کی فہرست میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ وہ شخص اپنی ذاتی زندگی میں بھی ایک پاک باز انسان تھا۔

باری علیگ کی کتاب کمپنی کی حکومت میں سلطان ٹیپو کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔ وہ کتاب کے صفحہ 249 میں لکھتے ہیں جب سلطان ٹیپو نے حکومت سنبھالی تو انھوں نے بڑے زمینداروں سے زمین لے کر ان لوگوں میں تقسیم کر دی جو اس زمین پر کاشتکاری کرتے تھے اور کہا کہ زمین اس کی جو کاشت کرے گا۔ اس بات سے عام لوگ تو بہت خوش ہوئے لیکن بڑے بڑے زمیندار مخالف ہو گئے۔ جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر سلطان کی ریاست کا خاتمہ کیا۔

میرے خیال میں ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا ایسا واقعہ ہے۔ کیا ہم اسے سوشل ازم کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں؟ آپ کا کیا خیال ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments