سفر بلوچستان: مولا، جھل مگسی و بولان: تیسری قسط


کھانے سے فارغ ہو کہ سلیم بھائی کے ساتھ واپسی کے سفر پہ روانہ ہوئے

جہاں راستے میں مختلف مقبروں کا دورہ بھی کرنا تھا۔ سب سے پہلے ہم ”میرالتاز خان“ کے مقبرے پر رکے جو بارشوں کے باعث کافی حد تک تباہ ہو چکا تھا۔ خان آف قلات میر التاز خان قمبرانی کا یہ مقبرہ لگ بھگ ساڑھے تین سو سال پرانا ہے جسے روایتی انداز میں تعمیر کیا گیا تھا۔ دو منزلہ مقبرے کے چاروں اطراف محرابیں ہیں اور اس پر ایک بڑا گنبد تعمیر کیا گیا تھا جو حالیہ بارشوں میں ڈھے چکا ہے۔ یہ مقبرہ دریائے مولا اور سڑک کے بیچ میں اپنی تباہی کی داستان سنا رہا تھا۔

اس کے بعد فتح پور شریف آیا جہاں پیر چیزل شاہ اور دکھل شاہ کے مقبروں کو دیکھا۔ پیر چیزل شاہ کا سنہری مقبرہ بالکل جدید انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔

فتح پور سے روانہ ہوئے اور بیابانوں کی بھول بھلیوں سے ہو کہ مولا کی پھیلی ہوئی شاخوں میں سے ایک کے قریب موجود ”مقبرہ موتی گہرام“ پہ آ ٹھہرے۔ سردار گہرام لاشاری اور موتی کے اس مقبرے کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ”بلوچستان کا تاج محل“ کہا جاتا۔ نیلے رنگوں کا خوبصورت کام، چہار جانب ایستادہ محرابیں، دو منزلہ گنبد اور اندر محرابوں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار۔

اس تاریخی مقبرے کو دیکھ کہ دل کٹ کہ رہ گیا۔ ایک تاریخ تھی جو بس مٹنے کو تھی۔ سامنے ایک بدحال سا مقبرہ ایک قدیم مسجد کے ساتھ کھڑا تھا جو شاید کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔

یہاں سے سلیم بھائی نے ہمیں رخصت کیا اور ہم اسی کچی پکی سڑک سے ہو کہ براستہ نوتال واپس ڈیرہ اللہ یار پہنچ گئے۔ سب بہت تھکے ہوئے تھے سو مجھے ڈیرے پہ چھوڑ کہ فریش ہونے چل دیے۔ رات کا کھانا سب نے اکٹھے کھایا اور گپ شپ کہ بعد دوستوں نے رخصت چاہی۔

اگلے دن ایک نئی قوت اور جذبے سے بیدار ہوا کہ آج کے دن زیادہ تر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنا تھا۔ ذوالفقار بھائی کے ڈیرے کی عکس بندی کی جو ان کے ماموں چیف آف ممل کھوسہ، میر فیض محمد خان کھوسہ کی تصاویر سے مزین تھا۔ یہاں کی اہم چیز فریم میں لگی وہ تلوار تھی جو 1935 میں برٹش گورنمنٹ جرگہ کے ممبر اور اس وقت کے چیف، ”میر مسو خان کھوسہ“ کو برطانوی حکومت کی طرف سے اعزازی طور پہ دی گئی تھی۔ صبح کے ناشتے کے بعد ہم نے جعفر آباد سے صحبت پور کی طرف سفر شروع کیا۔

ڈیرہ بگٹی اور سندھ کے اضلاع جیکب آباد و کشمور کے درمیان ایک چھوٹا سا ضلع صحبت پور ہے جسے 2013 میں جعفر آباد سے الگ کر کہ ضلع کا درجہ دیا گیا۔ مانجھی پور، سعید خان کنرانی، ہیر دین، فرید آباد، پنھور اور صحبت پور اس ضلع کی چھ تحصیلیں ہیں۔ یہ نصیرآباد ڈویژن کا سب سے چھوٹا ضلع ہے۔ ماضی میں یہاں ایک تاریخی قلعہ ہوا کرتا تھا جس کے اندر شہر کی مکمل آبادی رہتی تھی۔ قلعے کے اندر پانی کے تالاب، خوبصورت بازار ایک بہت بڑی اور انتہائی خوبصورت مسجد موجود تھی جو آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

مسجد کے اندر اور باہر انتہائی خوبصورت نقاشی کا کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ قلعہ سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک اپنی اصل حالت میں موجود رہا مگر 2010 اور 2012 کے سیلاب نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ یہاں کے قبرستان میں ایک تاریخی مقبرہ موجود ہے جو خان بہادر سردار سخی صحبت گولہ کی آخری آرام گاہ بتایا جاتا ہے۔

صحبت پور میں سب سے پہلے قمر دین کھوسہ تحصیل فرید آباد کے ایک ٹینٹ سکول کا دورہ کیا۔ یہ سڑک کنارے ”پین فاوٴنڈیشن“ کا قائم کیا گیا چھوٹا سا ٹینٹ سکول تھا جہاں مختلف کلاسوں کے قریباً پچاس بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں جو نہایت چاق و چوبند تھے۔ بچوں کو پڑھانے والے مقامی استاد عطا اللہ، نوجوان اور محنتی ہیں۔ بچوں سے مختلف باتیں کیں اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔

یہاں سے آگے بڑھے تو صحبت پور کے نواحی علاقے آدم پور کھوسہ کی راہ لی جہاں کی جامع مسجد ہمارے انتظار میں تھی۔ تقریباً 125 سال پرانی یہ مسجد ”میر آدم خان کھوسہ“ کی تعمیر شدہ ہے جس کے تین نہیں بلکہ سات گنبد ہیں۔ مسجد کے مرکزی دروازے کے اوپر ایک چار محرابی کمرہ ہے جس پر گنبد بھی ہے۔ یہ جگہ پرانے وقتوں میں اذان دینے کے لیے بنائی جاتی تھی تاکہ اونچی جگہ اذان دینے سے دور دور تک سنائی دی جا سکے۔ اس جگہ تک پہنچنے کے لیے مسجد کے اندر سے سیڑھیاں جاتی ہیں۔

اس کے بعد ہم نے صحبت پور کی قدیم مسجد، سردار سخی صحبت خان گولا مسجد دیکھی جو کسی زمانے میں قلعے کے اندر ہوا کرتی تھی۔ اس مسجد کا ذکر اوپر بھی کیا جا چکا ہے۔ نیلی ٹائل اور سفید بڑے گنبدوں پر مشتمل اس مسجد میں لکڑی کا نہایت خوبصورت کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ حالانکہ اب اس کی تزئین و آرائش کر دی گئی ہے لیکن دیکھنے سے کہیں کہیں پرانے آثار بھی مل جاتے ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر مساجد کا نام انہیں تعمیر کرنے والوں یا تاریخی شخصیات کے نام پہ رکھا گیا ہے۔

صحبت پور سے ڈیرہ اللہ یار واپس آتے ہوئے راستے میں سڑک سے ذرا ہٹ کہ ایک پرانا اور بدحال سا مقبرہ کھڑا ہے جس کی اینٹیں نیچے سے اکھڑ چکی ہیں اور اندر کوئی قبر موجود نہیں ہے۔ یہ تباہ حال مقبرہ اپنے دور کے عظیم جنگجو بلوچ سردار نوری نصیر خان کا بتایا جاتا ہے۔

خان آف قلات، میر نصیر خان بلوچ ( 1749۔ 1794 ) اٹھارہویں صدی کے دوران بلوچستان کے حکمران تھے۔ انہیں ”نوری نصیر خان عظیم“ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ وہ اس خطے کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے مختلف قبائل اور قوموں کے ساتھ صحت مند دوستانہ تعلقات قائم کیے، اور بلوچوں کے بکھرے ہوئے قبائل کو ایک وحدت بنایا۔ انہوں نے اسلامی شریعت اور بلوچ روایات پر کام کرنے کے لیے ایک بلوچ پارلیمنٹ بھی قائم کی۔

ان کے دور میں پوری ریاست میں مساجد تعمیر کی گئیں، اور زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے سرکاری سطح پر انتظامات کیے گئے۔ اسلامی تصورات کے خلاف عسکری قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔ ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے انہوں نے تمام مسلم خواتین کے لیے پردہ کو ان کی عمر سے قطع نظر لازمی قرار دیا۔ سب سے اہم بات کہ قدیم نام ”توران“ کو ختم کر کہ اس سرزمین کا نام بلوچستان رکھ دیا گیا۔ نوری نصیر خان یہاں کیسے آئے اور یہ مقبرہ کب تعمیر کیا گیا اس کے حوالے سے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملے۔

بلوچستان کے اس تاریخی ورثے کی حالت زار پہ آنسو بہا کہ ہم اوستہ محمد کو چل دیے جہاں ”نور محمد جمالی“ اپنے دوست کے ہمراہ ہمارے منتظر تھے۔ نور محمد جمالی پیشے سے ایک معلم اور لکھاری ہیں جنہوں نے سیلاب کے دنوں میں اپنے علاقے گنداخہ میں کافی فلاحی کام کیا ہے۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہیں سو کشتیوں کے ذریعے بھی بہت سے علاقوں تک پہنچے ہیں۔ وقت کی قلت کے باعث انہیں گنداخہ سے اوستہ بلا لیا گیا۔ سڑک کنارے ایک ٹرک ہوٹل پہ ہماری پہلی ملاقات ہوئی اور ہم برسوں کے دوستوں کی طرح گپیں لگانے لگے۔

بلوچستان اور خصوصاً اوستہ محمد کی صورتحال اور میری کتاب سمیت دیگر موضوعات پر گھنٹہ بھر گفتگو ہوئی۔ اس دوران انہوں نے ہمیں آگے چلنے کے لیے بہت کہا لیکن مغرب ہو چکی تھی اور ہم نے واپس پہنچنا تھا سو نور بھائی کو ادویات کے ڈبے اور مستحقین کی امانتیں تھمائیں اور ہم نے واپسی کی راہ لی۔

رات آفتاب بھائی کی طرف سے پر تکلف عشایے کا اہتمام تھا جس میں تلی ہوئی مچھلی، چاول، دیسی مرغ اور کراری بھنڈیاں شامل تھے۔ رات کو چائے پر خیمہ بستیوں میں رہ رہے سیلاب زدگان کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور کچھ پراجیکٹس کو حتمی شکل دے کہ ہم سو گئے۔

اگلا دن میرا یہاں آخری دن تھا سو ہم سب آرام سے تیار ہوئے اور جھٹ پٹ کی سیر کو نکل گئے۔ محمود بھائی، وحید اور ذوالفقار بھائی نے راقم کو اعزازی طور پہ بلوچی پگڑی پہنائی جسے پہن کہ میں کسی بلوچ سردار جیسا محسوس کر رہا تھا۔ ان دوستوں کی معیت میں شہر کی قدیم جیل، انگریز دور کا چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن اور مسجد دیکھی۔ اس کے بعد شہر کے نواح میں مرکزی سڑک پہ ان حضرات کی بسائی گئی خیمہ بستی کا دورہ کیا جس کے دونوں اطراف پانی ہی پانی کھڑا تھا۔

افسوس کہ بلوچستان حکومت نے ابھی تک سیلاب کے پانی کے اخراج کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ مقامی لوگ عورتوں اور بچوں سمیت یہاں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے تھے۔ مردوں سے بات چیت کی اور ان کی ضروریات اور مسائل دریافت کیے۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ اگلی بار یہاں کس قسم کا سامان لے کہ آنا ہے۔ ان احباب سے اجازت لے کہ ہم جیکب آباد کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہاں میرے میزبانوں نے مجھے جیکب آباد کا مشہور وکٹوریہ ٹاور، بخاری مسجد اور بازار دکھایا اور سکھر شہر کے لیے مجھے بس اڈے پر اتار دیا۔ بہت سی دعاؤں، محبتوں اور خلوص کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہا اور دوبارہ آنے کے وعدے پر میں نے سکھر کی جانب سفر شروع کیا۔

سکھر سے بذریعہ بس ہم نے اپنے گھر کی راہ لی کہ
شام ڈھلے ہر اک پنچھی کو گھر جانا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری
Latest posts by ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments