زرد پھول اور نور مقدم (تیسرا۔ آخری حصہ )


میاں کا وہ حال کہ کاٹے کو لہو نہیں۔ چہرہ سفید پڑ گیا۔ بھئیوں کی آنکھوں میں خون اتارا دیکھ کے فراٹے سے جھوٹ اگلتی للو کو لقوہ مار گیا۔

سنجھلے بھیا، مشن یعنی سید مصطفین الحسن شاید اسی دن کو ولایت سے بیرسٹری پڑھے تھے، ان کے ہوتے میاں کی ایک نہ چلی اور دفعتاً معاملہ پلٹ گیا۔ میاں کی افسری دھری رہ گئی کیونکہ مشن اور آئی جی پولیس میسوری میں ہم جماعت اور کمرہ شریک تھے۔ ایک فون پر رپٹ درج ہوکے گرفتاری ہو گئی۔

ایک ہی تاریخ دو تار گھروں کو روانہ ہوئے، میکے بیٹیا کی سناونی گئی اور میاں کے یہاں فوری مدد کو آنے کا پیغام۔

ربیع الاول کی بیاہی جب کفن میں لپٹی رجب میں میکے لوٹی تو ریلوے اسٹیشن ایک اژدھام تھا، کیا برادری اور کون غیر، شہر کا شہر پرسہ دار۔ اشکبار۔ میت گھر تک یوں آئی جیسے عاشورے کا جلوس!

کہرام سا کہرام تھا۔ وہ وہ بین تھے، سننے والو کے کلیجے چھلنی ہو گئے۔ کیا خالائیں، کیا پھپھئیں۔ کون دور اور کون قریب کے رشتے کی تھی پہچان میں نہ آتا تھا۔ ایک ہی جد اعلی کا کنبہ جو صدیوں سے یہیں جیون مرن کر رہا تھا اب خود ہزاروں میں تھا اور اس قیامت کی موت پر شہر کے غیر خاندانوں نے بھی اپنی عورتوں کو صد خلوص شرکت کو بھیجا۔ وہ ہٹ دھرمے جو سالوں سے کسی بات پے ٹوٹن کیے بیٹھے تھے، زار زار روتے چلے آئے۔

اک جانب کوئی روتی
میری نازک ڈالی پھولوں کی۔
تیری عمر تھی جھولوں کی۔
ھے ہے میری بھنجیہ۔
اس دل خراش بیان پے رو چکتے تو کسی گوشے سے آواز آتی
میری پیاری صورتیا والی
تیرے بھئیے جو گودی کاندھے لئے پھراں تھے
کس جی سے کاندھا دیں گے؟
میں یہ دیکھنے کو بیٹھی ہوں
سہمیو مت پھپی قربان۔
میں پیچھے آتی ہوں۔
وہ پٹن تھا کہ عرش کانپ جائے۔ اگر پتھرائی بیٹھی تھی تو وہ تھیں ماں۔

بہتیری کوشش کر لی۔ صورت دکھائی میت کی حالت بیان کی۔ کفن کھول کے زخموں سے چور بیٹی کا دیدار کروایا، پانی کے چھینٹے دیے آخر کو چہرے پے طمانچے تک مارے۔ مگر سکتہ نہ ٹوٹا۔ مجبوراً میت اٹھانے کا کہلوا دیا گیا۔ بیبیوں نے دوپٹے تھوڑیوں تک کھینچ لئے۔ کلمۂ شہادت بلند ہوا، ادھر مردوں نے جنازہ کاندھے پر اٹھایا ادھر رونے والیوں نے آسمان۔ حسب دستور اس آہ و زاری میں کچھ بیبیوں نے مرثیہ شروع کیا جس پر رونے والیوں کی مزید آواز بلند ہوئی۔

ہر مصرعے پر گریہ بڑھ جاتا۔ اس ہنگام میں بڑی بھاوج جو سب ریت رواج نبھا رہی تھی، بالی کے شہانہ جوڑے کا زرتار لال دوپٹہ لائی، سہاگن کا جنازہ ہے لہذا جنازے کی سیاہ چادر کے پر بالی کے شادی کے غرارے کا دوپٹہ اڑھانے لگی یکایک نیم مردہ ماں دیوانوں سی اٹھی اور جنازے سے دوپٹہ نوچ کے دانتوں سے لیرا کر دیا اور ایسے کلپ کلپ کے روئیں کہ ڈیوڑھی باہر موجود مضبوط اعصاب والے مرد بھی لرز گئے۔

بیٹی پہلی بار ڈولی دوسری بار ڈولے میں رخصت ہو رہی تھی۔ ابا میاں جنازے کے پیچھے سر جھکائے ساتھ تھے

یہاں برادری والیوں نے ایک ایک گلوری کھائی اور لال جنازہ نہ اٹھنے پر سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے سوال جواب کرنے لگیں۔ کچھ آدھی پردی تو کانوں میں پڑ ہی گئی تھی کہ اس اچانک موت میں کوئی راز ہے، دوسرے،

بیاہتا کا جنازہ بھی کبھی سسرال کے بجائے میکے سے اٹھتا ھے؟ تیسرے، ایسا کیا ہوا جو بھرے سمدھیانے سے اکلوتی بہو کے جنازے پے کوئی آ کے کھڑا نہ ہوا؟ اور سو کا ایک سوال۔ وہ دلہا کہاں ہے جو شان و شوکت سے بیاہ لے گیا تھا؟ ساتھ کیوں نہ آیا؟

الغرض، یوں وہ کمسن اور معصوم بالی بیٹیا جو رشتے میں میری نانی مگر عمر میں میرے برابر تھیں، ایک ذہنی مریض مرد کی ایذا دھی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

نانی اماں اور سلطان اماں نے ایک ساتھ گہری آہ بھری اور چند لمحے کی خاموشی کے بعد بات کا رخ نانا پیارے کے گھر کی جانب مڑ گیا۔ میں جو کھولتے لہو کے ساتھ منتظر تھی کہ اس جلاد صفت کا انجام معلوم ہو جس نے میری حسین اور محبت کرنے والی نانی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پتہ تو چلے کہ اسے کس پھانسی گھاٹ میں جہنم رسید کیا گیا؟

مگر دونوں زندہ نانیاں نہایت سنجیدگی سے نانا پیارے کے گھریلو حالات اور مسائل کے معقول حل تلاش کر رہی تھیں۔ جب صبر نہ ہوا تو بات کاٹ کر پوچھ ہی ڈالا کہ پھر ان کے میاں کو پھانسی ہوئی ناں؟

اس بات پر دونوں رک گئیں پہلے مجھے اور پھر ایک دوسرے کو دیکھا کیں جیسے نگاہوں نگاہوں میں طے کر رہی ہوں کہ کیا بتایا جائے؟ پھر میری نانی اماں نے مجھے دیکھا اور بتایا، بھائی تو کسی حال نہ مانتے تھے۔ گواھان ڈاکٹر البرٹ اور ذاتی ملازمہ کے علاوہ بھی دس اور بیان حلفی پولیس کو دے چکے تھے۔ ثبوت اتنے ٹھوس تھے کہ شاید ہی دوسری تاریخ پڑتی۔ جسے قانون میں اوپن اینڈ شٹ کیس کہتے ہیں۔ اس کے بعد نانی اماں کی آواز رندھ گئی۔ میں بنا وقت ضائع کیے سلطان اماں کی طرف مڑ گئی کہ وہ بقیہ قصہ تمام کریں۔ سلطان اماں نے مجھے دیکھا اور بولیں، یقین تھا کہ جلد وہ شیطان سولی پے جھولے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔

یہ سن کر میں تلملا گئی، جھنجھلاہٹ میں آواز بھی اونچی ہو گئی، کیوں؟ پھر کیا عمر قید ہوئی؟
سلطان اماں نے نفی میں سر ہلایا۔

وہ چھٹ گیا، سنا ہے کورٹ سے نکلتے ہی پہلی گاڑی سے الٰہ آباد سے بمبئی اور ہفتہ دس دن میں پانی کے رستے ولایت۔

مجھے شدید غصہ آیا، مطلب؟ آپ تو کہہ رہی ہیں کہ گواہ۔ ثبوت وبوت سب تھے؟ پھر کیسے کیس ہار گئے؟
دونوں نے پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور نانی اماں نے کہا، ہارے نہیں۔ جیت کے معاف کر دیا۔
میری مانو تن بدن میں آگ لگ گئی، کیا؟ کیوں؟
بالی نانی کے بھائی تو ان پر جان چھڑکتے تھے پھر؟

نانی اماں نے دکھ سے کہا، میاں کی اماں نے اپنا دوپٹہ ماموں ابا کے پیروں میں ڈال جب ننگے سر، شہزادی سکینہ کا واسطہ دے کر بیٹے کی جاں بخشی مانگی تو ماموں ابا نے ناچار یہ کہہ کے معافی نامے پر دستخط کر دیے کہ پھر میں روز حشر اپنی معصوم بچی کا مقدمہ یونہی جناب سید الشہدا کے قدموں میں دستار ڈال، شہزادی سکینہ کے واسطے پیش کروں گا۔

کہانی یہاں ختم ہوئی۔ میں کیا میری بیٹی بھی اب بالی نانی سے دگنی عمر کی ہو گئی مگر یہ تکلیف یہ تلملاھٹ آج تک کم نہ ہوئی کہ جب اس درندے کو سزا ہو سکتی تھی تو اس مذہبی بلیک میلنگ میں آ کے اسے زندہ اور آزاد کیوں چھوڑا؟ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ جب بالی نانی کے والد اس جہان میں ان سے ملے ہوں گے تو نانی نے ان سے یہ شکوہ ضرور کیا ہو گا۔ کیا خبر ایسی ہی کسی جگر سوختہ بیٹی نے یہ گیت کہا ہو، اگلے جنم موھے بیٹیا نہ کیجؤ۔

ہر بار جب کسی نور مقدم کسی سارہ انعام کی مسخ شدہ تصاویر گردش کرتی دیکھتی ہوں تو ہر ایسے اذیت پسند قاتل میں میاں اور اس کی ماں میں میاں کی ماں دکھائی دیتی ہے۔

بس ایک صدی بعد اتنا ہے کہ اب بیٹیوں کے باپ مکافات عمل یا حشر کے بجائے مجرم کو قانون کے ذریعے کیفر کردار یعنی تختۂ دار تک پہنچانے کی ہمت اور شعور رکھتے ہیں۔

جزا سزا سب یہیں پے ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments