فیض احمد فیض اور سید فخرالدین بلے، داستان رفاقت ( 3 )


ہمارے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے کی بیٹھک ہمیشہ آباد رہتی تھی۔ لاہور، سرگودھا، راولپنڈی، کوئٹہ، قلات، خضدار، بہاولپور اور ملتان میں، ہم جہاں جہاں بھی رہے، ہمارے گھر بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ڈاکٹر سید عبداللہ، ممتاز مفتی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، انتظار حسین، منشا یاد، بشریٰ رحمان، مرتضیٰ برلاس، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، شہزاد احمد، جون ایلیا، محسن بھوپالی، محسن نقوی، مصور صادقین، اختر حسین جعفری، محسن احسان، پریشان خٹک، طارق محمود، جمیل الدین عالی، علامہ سید غلام شبیر بخاری، قتیل شفائی، طفیل ہوشیار پوری، ریاض بٹالوی، صدیقہ بیگم، حنیف رامے، ڈاکٹر اسلم کمال، مسعود اشعر، سید سلطان احمد، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر انور سدید منور سعید، اسرار زیدی، امجد اسلام امجد، عطا الحق قاسمی، اداکار محمد علی، میرزا ادیب، حبیب جالب، مدیر نقوش جناب محمد طفیل، ڈاکٹر آغا سہیل، پھوپھی اماں ادا جعفری، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، پروفیسر غلام جیلانی اصغر، پروفیسر ڈاکٹر اصغر ندیم سید، ظفر علی راجہ، خواجہ نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف، بیدار سرمدی، اور جاوید قریشی سمیت بہت سے ادبی ستارے میری آنکھوں کے سامنے جگمگا رہے ہیں، جو کبھی ہمارے آنگن میں جلوے بکھیر رہے ہوتے تھے۔

یادوں کی کھڑکیاں کھلی ہیں تو بہت سے بیتے مناظر میری آنکھوں کے سامنے آ گئے ہیں۔ اس ماحول میں ہم بہن بھائی پلے اور پروان چڑھے یونیورسٹیوں سے زیادہ مجھے، ہمارے سب سے بڑے بھائی سید انجم معین بلے، اور عارف بھائی کو ان محفلوں میں بیٹھ کر سیکھنے کے بہت مواقع ملے۔ اسی لئے نامور ادبی شخصیات کے ساتھ ہماری بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں

عہد آمریت میں تخلیق ہونے والا ادب خاص طور پر لہو رنگ شاعری کو محض فن پارہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کو ایک درد مند اور غیر جانبدار مورخ کی لکھی ہوئی مستند تاریخ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف کے تمام تر تقاضے بالائے طاق رکھ کر پھانسی دیے جانے کے عمل کو عدالتی قتل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں اب ملاحظہ فرمائیے جناب سید عارف معین بلے صاحب کی یہ شاہکار نظم صلیب شاخ کہ جسے جناب فیض احمد فیض صاحب نے بھی متعدد بار عارف معین بلے صاحب سے فرمائش کر کے سنی۔

نظم : صلیب شاخ
نظم نگار : سید عارف معین بلے
ہوا کی ہچکی بندھی ہوئی ہے
صبا پریشان حال، غم سے نڈھال
بکھرائے بال، باصد ملال
چپ چاپ نوحہ خواں ہے
فضا چمن کی دھواں دھواں ہے
بہار روٹھی ہوئی کھڑی ہے
نسیم ہے اس قدر پریشاں کہ اپنے ہاتھوں کو مل رہی ہے
زمیں بھی تیور بدل رہی ہے
فلک کی آنکھوں میں ہے شفق رنگ اشک حسرت کا بحر کاہل
عجیب عالم ہے گلستاں کا
چمن میں ہے ایک حشر برپا
شجر کھڑے ہوکے با ادب گویا سوگ سا اک منا رہے ہیں
گزر چکی ہے چمن پہ جو کچھ، خموش رہ کر بتا رہے ہیں
بتا رہے ہیں اجاڑ ڈالا ہے شہریاروں نے شہر کو
گھر بسا لیا ہے
چمن کو ویران کر دیا ہے
پر اپنا گلداں سجا لیا ہے
کسی بھی غنچے سے لب کشائی کا جرم سرزد ہوا تو اس کو
صلیب شاخ شجر پہ فوراً چڑھا دیا ہے
ہوئی ہے سبزے کی پائمالی
جھکی ہوئی ہے ہر ایک ڈالی
ہے آج شاخوں کی گود خالی
کوئی بتائے، کہاں ہے مالی؟
جہاں پہ آباد اک جہاں تھا، وہاں پہ اب خاک اڑ رہی ہے
عجیب عالم ہے گلستاں کا
چمن میں ہے ایک حشر برپا
سنی ہے گوش نظر سے میں نے
شجر کی یہ دکھ بھری کہانی
شجر کی اس دکھ بھری کہانی کا
مجھ پہ کوئی اثر نہیں ہے
کہ میں تو لوح جبین اشجار کی عبارت کو
پڑھ کے یک دم ٹھٹھک گیا ہوں
کہ جس پہ لکھا ہوا ہے شبنم کے آنسوؤں سے
ہمارے گلشن کا کیا بنے گا؟

فیض احمد فیض کا ذکر ہو اور بین الاقوامی شہرت کے حامل قادر الکلام شاعر، ممتاز محقق، نقاد اور مایۂ ناز فیض شناس اسکالر جناب اشفاق حسین صاحب کا حوالہ شامل نہ ہو یا تذکرہ نہ کیا جائے یہ کیسے ممکن ہے۔ اشفاق حسین فیض شناسی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہے۔ دھرتی پوجا اور دیش بھگتی فیض کی طرح ان کی بھی پہچان ہے۔ وہ کینیڈا سے اکثر ماں دھرتی کی سلامی کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور جب جب بھی آتے ہیں راقم السطور ظفر معین بلے جعفری کو بھی یاد رکھتے ہیں اور مطلع فرماتے ہیں اور ہم ہمیشہ ہی ان کی بصیرت افروز گفتگو اور شخصیت سے فیض پاتے ہیں، ان کی زیارت اور ان سے گفتگو اور ان کے اعزاز میاں منعقد کی جانے والی تقاریب میں شرکت کا اپنا ہی جداگانہ احساس ہے۔

جیسی بے قراری میں قرار آ جاتا ہے۔ بے شک یہ بھی ان کی بڑائی ہے کہ وہ اپنے قیمتی وقت میں سے ہمارے لیے بھی چند گھڑیاں مخصوص فرماتے ہیں۔ اشفاق حسین صاحب ہمارے سینئر ہیں۔ ان کے ذہن میں آج بھی ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے ملاقاتوں کے حسین لمحات محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت آج بھی بخوبی یاد ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ اشفاق حسین کے مراسم اور روابط قابل صد احترام شعیب بن عزیز صاحب سے بھی ہیں کہ جو ہمارے والد گرامی کی ادبی اور دفتری زندگی کے رفیق بھی رہے ہیں اور ہم ان کا شمار فخریہ طور پر محبان سید فخرالدین بلے میں کرتے ہیں۔

اشفاق حسین یکم جنوری 1951ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ جیکب لائن گورنمنٹ ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں کراچی گورنمنٹ کالج، ناظم آباد، نیشنل کالج اور اسلامیہ کالج سے تعلیمی مراحل اور منازل طے کرتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ ملازمت کے سلسلے میں گورنمنٹ کالج، کورنگی، کراچی اور آرٹس کونسل، کراچی سے وابستہ رہے۔ مارچ1980ء میں کینیڈا چلے گئے جہاں ان کی ٹریول ایجنسی ہے۔ کینیڈا سے ہی انہوں نے اردو انٹرنیشنل کا اجرا کیا جو 1982ء سے 1987ء تک جاری رہا۔

شاعری کے علاوہ انہوں نے تنقیدی مقالات اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کی مشہور و مقبول تصانیف کی گو کہ فہرست طویل ہے پھر بھی یہاں چند تصانیف کے نام پیش کیے جا رہے ہیں۔ ہم اجنبی ہیں، فیض ایک جائزہ، فیض کے مغربی حوالے، کینیڈا سے کچھ نئی اور پرانی نظموں کا ترجمہ انگریزی میں۔ That Day Will Dawn کے نام سے۔ فیض شناسی اور فیض فہمی کے حوالے سے اشفاق صاحب۔ کی متعدد کتابیں کینیڈا، بھارت اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ آج دنیا بھر

میں اشفاق حسین صاحب کو فیض شناسی کے حوالے سے اتھارٹی اور سند کے طور پر گردانا چاہتا ہے۔

فیض احمد فیض پاکستان کے عالمی شہرت کے حامل تخلیق کاروں میں سر فہرست شمار کیے جاتے ہیں۔ میں ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی اور مسعود اشعر صاحب والد گرامی کے پاس آئے بیٹھے تھے کہ اچانک بڑے بھیا سید انجم معین بلے صاحب وارد ہوئے اور فرمایا کہ فیض انکل ( فیض احمد فیض صاحب) تشریف لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی تمام اصحاب کے چہرے کھل اٹھے اور سب کے سب فیض صاحب کا استقبال کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ بادشاہ سلامت کی تشریف آوری ہو رہی ہے۔ ہم نے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے، برادر محترم سید عارف معین بلے اور آنس معین کو ایسی متعدد شعری نشستوں اور ادبی محافل میں اپنا کلام پیش کرتے اور حضرت جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور سجاد حیدر خروش جیسے قادر الکلام شعرا ء اور محمد طفیل اور انتظار حسین جیسے صاحبان علم و ادب سے ملنے والی بھر پور داد سمیٹتے دیکھا ہے۔ فیض احمد فیض کو سید فخرالدین بلے سے فرمائش کر کے پتنگ، ڈسپلن، بازیافت، تسخیر، سالگرہ کا، تحفہ جیسی شاہکار نظمیں اور بہت سی غزلیں سنتے دیکھا۔

جبکہ سید عارف معین بلے سے صلیب شاخ اور دیگر نظمیں اور غزلیں فرمائش کر کے سننا بھی یاد ہے اور ایسی ہی نشستوں میں فیض احمد فیض کو یہ بھی کہتے سنا کہ سید فخرالدین بلے نے تعلق داری کو ہر اچھے برے وقت میں اپنے مخصوص انداز میں نبھایا حتی کہ عہد آمریت میں مجھ جیسے کو غدار اور ملک دشمن قرار دیے جانے والے قیدی سے بھی، خود اعلی سرکاری افسر ہوتے ہوئے بھی نتائج کی پرواہ کیے بغیر کسی نہ کسی طرح ملاقات کے لیے جیل آتے تھے سادے کاغذ، روشنائی کی شیشیاں، مختلف رنگوں کے قلم، پاکٹ ڈائریاں، نمکو اور گڑھ بطور تحائف لایا کرتے تھے۔

اور مجھے تعجب اس وقت ہوا کہ جب حبیب جالب صاحب نے بھی سید فخرالدین بلے صاحب کے حوالے سے اسی طرح کا تجزیہ اور تجربہ بیان کیا۔ ایک اور قصہ بھی ہمیں بہت اچھی طرح سے یاد ہے اور بعد ازاں یہی واقعہ ہم نے متعدد بار خود سجاد حیدر خروش سے بھی مختلف محافل میں سنا۔ حضرت جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، سید فخرالدین بلے، محمد طفیل (مدیر ماہنامہ نقوش لاہور) ، اداکار محمد علی چند اور ادبی شخصیات جوش صاحب کی اقامت گاہ پر یکجا تھے۔

بھرپور مگر غیر رسمی بیٹھک شعری نشست میں بدل گئی۔ سجاد حیدر خروش صاحب نے بابا جانی حضرت جوش سے نشست کا باقاعدہ آغاز کرنے کی اجازت چاہی اور سب سے پہلے آنس معین کو زحمت کلام دی گئی۔ آنس معین کا کلام سن کر تمام شرکائے محفل دم بخود رہ گئے۔ جہاں جوش صاحب نے آنس معین کو کمسن سقراط کے خطاب سے نوازا اور دوران تقریب متعدد بار آنس معین کو کمسن سقراط کہہ کر ہی مخاطب فرمایا وہیں فیض صاحب نے برجستہ طور پر فرمایا

I am yet to see a more grownup intellectual
آنس معین چھوٹی عمر کا بزرگ دانشور ہے۔ میں نے آنس معین جیسا زیرک دانشور، اس عمر میں نہیں دیکھا۔

آج فیض احمد فیض کا تذکرہ کرتے ہوئے خیال آ رہا ہے کہ فیض صاحب کے اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے لگ بھگ ایک سال دو ماہ اور پندرہ روز بعد آنس معین نے بھی رخت سفر باندھ لیا تھا۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں جنہیں ہمارے بچپن کے یادگار واقعات کا نام دیا جاسکتا ہے۔ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ شعر بصد تعظیم اور خلوص فیض احمد فیض صاحب کی نذر کرتا ہوں۔

الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ، آج بھی مرنے کے باوجود
(جاری)

ہوا کی ہچکی بندھی ہوئی ہے

صبا پریشان حال، غم سے نڈھال
بکھرائے بال، باصد ملال
چپ چاپ نوحہ خواں ہے
فضا چمن کی دھواں دھواں ہے
بہار روٹھی ہوئی کھڑی ہے
نسیم ہے اس قدر پریشاں کہ اپنے ہاتھوں کو مل رہی ہے
زمیں بھی تیور بدل رہی ہے
فلک کی آنکھوں میں ہے شفق رنگ اشک حسرت کا بحر کاہل
عجیب عالم ہے گلستاں کا
چمن میں ہے ایک حشر برپا
شجر کھڑے ہوکے با ادب گویا سوگ سا اک منا رہے ہیں
گزر چکی ہے چمن پہ جو کچھ، خموش رہ کر بتا رہے ہیں
بتا رہے ہیں اجاڑ ڈالا ہے شہریاروں نے شہر کو
گھر بسا لیا ہے
چمن کو ویران کر دیا ہے
پر اپنا گلداں سجا لیا ہے
کسی بھی غنچے سے لب کشائی کا جرم سرزد ہوا تو اس کو
صلیب شاخ شجر پہ فوراً چڑھا دیا ہے
ہوئی ہے سبزے کی پائمالی
جھکی ہوئی ہے ہر ایک ڈالی
ہے آج شاخوں کی گود خالی
کوئی بتائے، کہاں ہے مالی؟
جہاں پہ آباد اک جہاں تھا، وہاں پہ اب خاک اڑ رہی ہے
عجیب عالم ہے گلستاں کا
چمن میں ہے ایک حشر برپا
سنی ہے گوش نظر سے میں نے
شجر کی یہ دکھ بھری کہانی
شجر کی اس دکھ بھری کہانی کا
مجھ پہ کوئی اثر نہیں ہے
کہ میں تو لوح جبین اشجار کی عبارت کو
پڑھ کے یک دم ٹھٹھک گیا ہوں
کہ جس پہ لکھا ہوا ہے شبنم کے آنسوؤں سے
ہمارے گلشن کا کیا بنے گا؟

فیض احمد فیض کا ذکر ہو اور بین الاقوامی شہرت کے حامل قادر الکلام شاعر، ممتاز محقق، نقاد اور مایۂ ناز فیض شناس اسکالر جناب اشفاق حسین صاحب کا حوالہ شامل نہ ہو یا تذکرہ نہ کیا جائے یہ کیسے ممکن ہے۔ اشفاق حسین فیض شناسی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہے۔ دھرتی پوجا اور دیش بھگتی فیض کی طرح ان کی بھی پہچان ہے۔ وہ کینیڈا سے اکثر ماں دھرتی کی سلامی کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور جب جب بھی آتے ہیں راقم السطور ظفر معین بلے جعفری کو بھی یاد رکھتے ہیں اور مطلع فرماتے ہیں اور ہم ہمیشہ ہی ان کی بصیرت افروز گفتگو اور شخصیت سے فیض پاتے ہیں، ان کی زیارت اور ان سے گفتگو اور ان کے اعزاز میاں منعقد کی جانے والی تقاریب میں شرکت کا اپنا ہی جداگانہ احساس ہے۔

جیسی بے قراری میں قرار آ جاتا ہے۔ بے شک یہ بھی ان کی بڑائی ہے کہ وہ اپنے قیمتی وقت میں سے ہمارے لیے بھی چند گھڑیاں مخصوص فرماتے ہیں۔ اشفاق حسین صاحب ہمارے سینئر ہیں۔ ان کے ذہن میں آج بھی ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے ملاقاتوں کے حسین لمحات محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت آج بھی بخوبی یاد ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ اشفاق حسین کے مراسم اور روابط قابل صد احترام شعیب بن عزیز صاحب سے بھی ہیں کہ جو ہمارے والد گرامی کی ادبی اور دفتری زندگی کے رفیق بھی رہے ہیں اور ہم ان کا شمار فخریہ طور پر محبان سید فخرالدین بلے میں کرتے ہیں۔

اشفاق حسین یکم جنوری 1951ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ جیکب لائن گورنمنٹ ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں کراچی گورنمنٹ کالج، ناظم آباد، نیشنل کالج اور اسلامیہ کالج سے تعلیمی مراحل اور منازل طے کرتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ ملازمت کے سلسلے میں گورنمنٹ کالج، کورنگی، کراچی اور آرٹس کونسل، کراچی سے وابستہ رہے۔ مارچ1980ء میں کینیڈا چلے گئے جہاں ان کی ٹریول ایجنسی ہے۔ کینیڈا سے ہی انہوں نے اردو انٹرنیشنل کا اجرا کیا جو 1982ء سے 1987ء تک جاری رہا۔

شاعری کے علاوہ انہوں نے تنقیدی مقالات اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کی مشہور و مقبول تصانیف کی گو کہ فہرست طویل ہے پھر بھی یہاں چند تصانیف کے نام پیش کیے جا رہے ہیں۔ ہم اجنبی ہیں، فیض ایک جائزہ، فیض کے مغربی حوالے، کینیڈا سے کچھ نئی اور پرانی نظموں کا ترجمہ انگریزی میں۔ That Day Will Dawn کے نام سے۔ فیض شناسی اور فیض فہمی کے حوالے سے اشفاق صاحب۔ کی متعدد کتابیں کینیڈا، بھارت اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ آج دنیا بھر

میں اشفاق حسین صاحب کو فیض شناسی کے حوالے سے اتھارٹی اور سند کے طور پر گردانا چاہتا ہے۔

فیض احمد فیض پاکستان کے عالمی شہرت کے حامل تخلیق کاروں میں سر فہرست شمار کیے جاتے ہیں۔ میں ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی اور مسعود اشعر صاحب والد گرامی کے پاس آئے بیٹھے تھے کہ اچانک بڑے بھیا سید انجم معین بلے صاحب وارد ہوئے اور فرمایا کہ فیض انکل ( فیض احمد فیض صاحب) تشریف لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی تمام اصحاب کے چہرے کھل اٹھے اور سب کے سب فیض صاحب کا استقبال کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ بادشاہ سلامت کی تشریف آوری ہو رہی ہے۔ ہم نے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے، برادر محترم سید عارف معین بلے اور آنس معین کو ایسی متعدد شعری نشستوں اور ادبی محافل میں اپنا کلام پیش کرتے اور حضرت جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور سجاد حیدر خروش جیسے قادر الکلام شعرا ء اور محمد طفیل اور انتظار حسین جیسے صاحبان علم و ادب سے ملنے والی بھر پور داد سمیٹتے دیکھا ہے۔ فیض احمد فیض کو سید فخرالدین بلے سے فرمائش کر کے پتنگ، ڈسپلن، بازیافت، تسخیر، سالگرہ کا، تحفہ جیسی شاہکار نظمیں اور بہت سی غزلیں سنتے دیکھا۔

جبکہ سید عارف معین بلے سے صلیب شاخ اور دیگر نظمیں اور غزلیں فرمائش کر کے سننا بھی یاد ہے اور ایسی ہی نشستوں میں فیض احمد فیض کو یہ بھی کہتے سنا کہ سید فخرالدین بلے نے تعلق داری کو ہر اچھے برے وقت میں اپنے مخصوص انداز میں نبھایا حتی کہ عہد آمریت میں مجھ جیسے کو غدار اور ملک دشمن قرار دیے جانے والے قیدی سے بھی، خود اعلی سرکاری افسر ہوتے ہوئے بھی نتائج کی پرواہ کیے بغیر کسی نہ کسی طرح ملاقات کے لیے جیل آتے تھے سادے کاغذ، روشنائی کی شیشیاں، مختلف رنگوں کے قلم، پاکٹ ڈائریاں، نمکو اور گڑھ بطور تحائف لایا کرتے تھے۔

اور مجھے تعجب اس وقت ہوا کہ جب حبیب جالب صاحب نے بھی سید فخرالدین بلے صاحب کے حوالے سے اسی طرح کا تجزیہ اور تجربہ بیان کیا۔ ایک اور قصہ بھی ہمیں بہت اچھی طرح سے یاد ہے اور بعد ازاں یہی واقعہ ہم نے متعدد بار خود سجاد حیدر خروش سے بھی مختلف محافل میں سنا۔ حضرت جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، سید فخرالدین بلے، محمد طفیل (مدیر ماہنامہ نقوش لاہور) ، اداکار محمد علی چند اور ادبی شخصیات جوش صاحب کی اقامت گاہ پر یکجا تھے۔

بھرپور مگر غیر رسمی بیٹھک شعری نشست میں بدل گئی۔ سجاد حیدر خروش صاحب نے بابا جانی حضرت جوش سے نشست کا باقاعدہ آغاز کرنے کی اجازت چاہی اور سب سے پہلے آنس معین کو زحمت کلام دی گئی۔ آنس معین کا کلام سن کر تمام شرکائے محفل دم بخود رہ گئے۔ جہاں جوش صاحب نے آنس معین کو کمسن سقراط کے خطاب سے نوازا اور دوران تقریب متعدد بار آنس معین کو کمسن سقراط کہہ کر ہی مخاطب فرمایا وہیں فیض صاحب نے برجستہ طور پر فرمایا

I am yet to see a more grownup intellectual
آنس معین چھوٹی عمر کا بزرگ دانشور ہے۔ میں نے آنس معین جیسا زیرک دانشور، اس عمر میں نہیں دیکھا۔

آج فیض احمد فیض کا تذکرہ کرتے ہوئے خیال آ رہا ہے کہ فیض صاحب کے اس جہان فانی سے کوچ کر جانے کے لگ بھگ ایک سال دو ماہ اور پندرہ روز بعد آنس معین نے بھی رخت سفر باندھ لیا تھا۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں جنہیں ہمارے بچپن کے یادگار واقعات کا نام دیا جاسکتا ہے۔ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ شعر بصد تعظیم اور خلوص فیض احمد فیض صاحب کی نذر کرتا ہوں۔

الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ، آج بھی مرنے کے باوجود
(جاری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments