جسٹس عبد المجید ملک۔ چیف جسٹس (ر) آزاد جموں وکشمیر


نوے سال کی عمر میں بھی ہینڈ سم سمارٹ، خوش لباس، خوش گفتار، چہرے پر مسکراہٹ و شفقت لئے مدلل اور پر مغز گفتگو کرنے والی شخصیت تھی آزاد جموں وکشمیر عدالت عالیہ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس جناب عبد المجید ملک صاحب کی۔ مسئلہ کشمیر پر ان کو ایک اتھارٹی سمجھا جاتا تھا، جس پر وہ بڑی بیباک گفتگو کیا کرتے تھے۔ میری ملک صاحب سے نیاز مندی کے تعلق کو تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ اپنی ایک تنظیم کی طرف سے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پر ہونے والی کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی ان کو مدعو کرنے کی ڈیوٹی میری لگی۔

میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے درخواست کی تو انہوں نے کمال شفقت سے نہ صرف رضامندی کا اظہار کیا بلکہ کانفرنس میں وہ بروقت پہنچے اور مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اکثر دو تین گھنٹے کے لیے وکلاء چیمبر میں اپنے دفترمیں بیٹھتے تھے۔ جب بھی آفس میں جانا ہوا، وہ ہمیشہ جوانوں کی طرح چاق و چوبند، بہترین تراش خراش کے سوٹ اور میچنگ ٹائی میں ملبوس نظر آئے۔ ان کے چیمبر میں ان کے پرانے دوستوں اور سینئر وکلا ء کی محفل لگی رہتی تھی۔

ان کے دفتر میں بیٹھے ایک دن میں نے ان کا انٹرویو لینے کی بات کی تو کہنے لگے کہ رسمی انٹرویو میں سوالات کے جواب بھی انتہائی روایتی ہو جاتے ہیں، یہاں جو گفتگو ہوتی ہے وہ آپ نوٹ کر لیا کریں، آپ کو کافی باتیں مل جائیں گی اور ہاں جلد ہی میری خود نوشت بھی چھپنے والی ہے، جس کو پڑھ کر آپ کو انٹرویو کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

اندرہل، میرپور سے شمال میں دریاء پونچھ اور دریاء جہلم کے کنارے پہاڑی سلسلہ پیر پنجال اور جنوب میں سنگلاخ چوٹیوں اور ٹیلوں کے دامن میں واقع بہت خوبصورت اور جاذب نظر علاقہ ہے۔ آزاد کشمیر کی عدلیہ کے قابل ترین جج صاحبان کے علاوہ بہت ذہین و اچھے قانون دان، بیوروکریٹس اور پروفیسر صاحبان کا تعلق اسی مردم خیز علاقہ سے ہے۔ اندرہل کے گاؤں ڈڈیال کے موہڑا ملکاں نام کے پچیس گھروں کی آبادی کے موہڑا میں ملک ککے زئی خاندان آباد تھا۔

اسی آبادی میں خوبصورت، باوقار اور رعب دار شخصیت کے مالک ملک محمد لطیف آباد تھے۔ 1931 ء میں چلنے والی کشمیر کی تحریک آزادی میں وہ پیش پیش تھے۔ انہی ملک محمدلطیف کے گھر 16 دسمبر 1932 ء کو عبدالمجید ملک پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ خانم بیگم ایک تہجد گزار اور ذکر اذکار کرنے والی صوم و صلوۃ کی پابند خاتون تھیں۔ وہ گاؤں کے بچوں اور بچیوں کو قرآن مجید بھی پڑھاتی تھیں۔ آپ کا نام عبدالمجید رکھا گیا لیکن والدہ انہیں سائیں کہہ کر پکارتی تھیں۔ سکول میں داخلے پر بھی ان کا نام سائیں امام دین ہی لکھوایا گیا جو میٹرک کا داخلہ بھیجنے تک چلتا رہا۔ میٹرک کا داخلہ بھیجنے پر آپ کا نام عبد المجید لکھوایا گیا۔ بچپن سے آپ کی طبیعت بہت غصیلی تھی لیکن وقت کے ساتھ آپ نے اس پر قابو پا لیا۔ زندگی بھر آپ کسی ڈر، رعب یا دباؤ کے آگے کبھی نہیں جھکے۔

ڈڈیال میں ان دنوں مڈل سکول تھا جہاں آپ کو ابتدائی تعلیم کے لئے داخل کرایا گیا۔ قیام پاکستان سے پہلے ڈڈیال اور میرپور میں بہت سے سکھ آباد تھے۔ ان کے کچھ ہم جماعت بھی سکھ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ میرپور کے ہندو اور سکھ بہت خوبصورت تھے اور ان کی خواتین بھی بہت زیادہ حسین تھیں۔ آپ نے ڈڈیال سے مڈل کر کے سری کرن سنگھ کالج میرپور میں نویں جماعت میں داخلہ لیا جو ان دنوں انٹرمیڈیٹ کالج تھا۔

میٹرک کے دوران آزادی کشمیر کے ہنگامے شروع ہو گئے جس وجہ سے کالج بند ہو گیا۔ آزادی کے بعد مڈل سکول ڈڈیال کو ہائی سکول کا درجہ مل گیا تو آپ نے وہاں داخلہ لیا اور وہیں سے میٹرک پاس کیا۔ جماعت کے ماسٹر صاحب جو پرائمری جماعت سے آپ کو سائیں امام دین کے نام سے جانتے تھے رزلٹ کارڈ پر عبدالمجید لکھا ہونے کی وجہ سے رزلٹ ایک ماہ آپ کو نہیں دیا، جس وجہ سے آپ کالج میں انٹر میں داخلہ کے لئے لیٹ ہو گئے۔ ان دنوں گورڈن کالج راولپنڈی خطہ پوٹھوار کی ایک مثالی اور بڑی اچھی علمی درسگاہ سمجھی جاتی تھی، جہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے اپنے اپنے شعبوں میں عروج تک پہنچے۔

اس وقت ڈڈیال کے کچھ اور طالب علم بھی اس کالج میں داخل تھے یہیں آپ کا انٹرمیڈیٹ میں داخلہ ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد پڑھائی ادھوری چھوڑ کر آپ نے اپنی تقرری استاد کے طور ڈڈیال سکول میں کروا لی لیکن والدہ کی ناراضی اور اپنے استاد کے کہنے پر دوبارہ پڑھائی کی طرف رجوع کر لیا۔ گورڈن کالج میں آپ کا دور بڑا ہنگامہ خیز گزرا۔ نصابی سرگرمیوں کے علاوہ مضمون نویسی، مباحثوں، کھیلوں اور دوسری غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ کالج میں کشمیری طلبا ء کے حقوق کے لئے بہت کام کیا۔ ان ابتدائی دنوں میں اندرہل کے علاقہ میں آپ کی مقبولیت اور آپ کو ترقی کی طرف گامزن دیکھ کر کچھ حسد کرنے والوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی تو دو دفعہ آپ کے قتل کی سازش کی گئی جو اللہ تعالی کے فضل و کرم اور آپ کی ذہانت کی وجہ سے دونوں دفعہ ناکام ہوئی۔

لاہور کے مشہور وکیل سردار اقبال سے آپ کی نیازمندی تھی۔ انٹر پاس کرنے پر انھوں نے آپ کو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہونے کا مشورہ دیا جہاں داخلہ صرف قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر ملتا تھا۔ کالج میں داخلے کا امتحان پاس کرنے اور انٹرویو میں کامیابی پر آپ کا میرٹ کی بنیاد پر گورنمنٹ کالج میں داخلہ ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی آپ نے کالج کی نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ کے والد محترم پچاس کی دہائی کے شروع میں روزگار کے لئے برطانیہ گئے تھے۔

تعلیم کی اہمیت اور قدر جانتے ہوئے انہوں نے بیٹے کو برطانیہ بلا کر کام کرانے کی بجائے تعلیم دلانے کو ترجیح دی تھی۔ آپ کے والد محترم نے آپ کی پرورش شہزادوں کی طرح کی۔ گورڈن کالج راولپنڈی اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھائی کے دوران آپ کے اخراجات کے لئے خطیر رقم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے لئے بہترین لباس برطانیہ سے بھیجتے رہے۔ مجید ملک صاحب کا قد کاٹھ، ورزشی جسم، بہترین تراش خراش کا کالج یونیفارم اور انگلش جوتے آپ کو کالج کے دوسرے طلباء سے ممتاز کرتے تھے۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کرنے کے بعد آپ کا لنکنزان کالج لندن میں بار ایٹ لاء میں داخلہ ہو گیا لیکن گورڈن کالج میں طلبا ء کے حقوق کے لئے جد و جہد کرنے پر وزیر امور کشمیر مشتاق گورمانی سے تلخ کلامی ہونے کی وجہ سے آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے بلیک لسٹ کرنے کا اقدام آڑے آ گیا۔ کئی ماہ کے لیت و لعل کے بعد پاسپورٹ دینے سے انکار کی وجہ سے آپ اعلی تعلیم کے لئے برطانیہ نہ جا سکے۔ اس پر آپ نے یونیورسٹی لاء کالج لاہور سے ایل ایل بی کر لیا۔

اتنا عرصہ گزر نے کے باوجود نوکر شاہی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پاسپورٹ نہ ملنے پر آپ بار ایٹ لاء کرنے کے لئے برطانیہ نہ جا سکے۔ اس پر آپ نے لاہور وکالت کا فیصلہ کر لیا اور 1956 ء کے آغاز میں وکالت شروع کر دی۔ سردار اقبال اس وقت لاہور کے ایک نامور وکیل تھے اور وکالت کی معراج کہلاتے تھے۔ ان سے آپ کے دیرینہ تعلقات تھے۔ ان کی والدہ کے کہنے پر آپ نے ان کی لاء فرم میں شمولیت اختیار کر لی۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے دور سے آپ کالج یونیفارم انارکلی کے مشہور ٹیلر ایم اسماعیل سے سلواتے تھے۔

ایم اسماعیل کا بنا ہوا بہترین تراش خراش کا وکلا ء کا لباس اور برطانوی سوٹ پہن کر آپ نے دفتر جانا شروع کیا تو دفتر میں مشہور ہو گیا کہ یہ تو خاندانی رئیس ہیں جو صرف شوق کے لئے وکالت کرنے آئے ہیں۔ چار پانچ ماہ آپ نے دفتر میں مقدمات کی بہت سی فائلوں کا مطالعہ کیا اور وکالت کے بہت سے اسرار و رموز سیکھ لئے۔ تب سردار اقبال نے انہیں مزید پریکٹس کے لئے اپنے ایک شاگرد سید محمد ظفر سے منسلک کر دیا جن کا اپنی ایک علیحدہ لاء فرم تھی۔

یہاں بھی آپ نے اپنی ذہانت اور سمجھ داری سے تھوڑے عرصہ میں دفتر میں اپنا ایک مقام بنا لیا اور عدالتوں میں پیش ہونا شروع کر دیا۔ پہلی کامیابی آپ کو ایک دیوانی مقدمہ کی اپیل کی منظوری کی ملی اس کے بعد آپ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان دنوں ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کی آبادکاری اور ان کے عدالتوں سے جھوٹے سچے کلیم پاس کروا کر وکیل بہت پیسہ بنا رہے تھے۔ لیکن ایس ایم ظفر نے یہ کہہ کر انہیں یہ کیس لینے سے منع کر دیا کہ اگر اچھا وکیل بننا ہے تو کلیم کے مقدمات کا مت سوچو، اس پر آپ نے ساری توجہ دوسرے مقدمات پر مرکوز کر لی۔

سردار اقبال کے دفتر میں ممتاز وکلاء اے۔ کے۔ بروہی اور محمود علی قصوری سے آپ کی ملاقاتیں ہوتی رہیں جو ہمیشہ آپ کی مردانہ وجاہت، خوش لباسی اور ذہانت کی تعریف کیا کرتے تھے۔ اپنی شخصیت کے حوالہ سے ملک صاحب کا اپنا کہنا تھا کہ سرداراقبال کی تربیت میں انہیں حسن اخلاق اور معاشرتی آداب کے علاوہ باہمی احترام اور مہذب انداز اپنانے کا درس ملا جس کا دامن انہوں نے زندگی بھرنہیں چھوڑا۔ 1958 ء میں منگلا ڈیم بننے کا آغاز ہو گیا تھا۔

جس کے لئے واپڈا کے حکام متاثرہ لوگوں کو معاوضے دینے میں تساہل سے کام لینے کے علاوہ گھپلے بھی کر رہے تھے۔ آپ کو اپنے مکانات اور زمینوں کے معاوضہ کی خاطر بار بار میرپور آنا پڑتا جس وجہ سے آپ نے میرپور منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے پر سردار اقبال اور ایس ایم ظفر بہت ناراض ہوئے۔ اس وقت میرپور میں محمد یوسف صراف، محمد یحیی چیمہ، عبدالخالق انصاری، راجہ لہراسب خان اور قاضی عبدالغفور جیسے مشہور وکیل موجود تھے۔

میرپور میں آنے کے بعد آپ یہاں کے افسر کلب کے ممبر بنے۔ اپنی وکالت کا آغاز کیا۔ ان جیسے لائق اور قابل وکیل کا میرپور میں وکالت کا آغاز کرنا یہاں کے کچھ جونیئر وکلا کو اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے آپ کے خلاف سازش کر کے ایک مقدمہ میں پھنسانے کی کوشش کی لیکن آپ کی اصولی اور صاف ستھری وکالت کے آغاز کی وجہ سے آپ محفوظ رہے۔ اپنی ذہانت، قابلیت، محنت اور لاہور کی عدالتوں میں پیش ہونے کے تجربے کی بنیاد پر آپ وکالت کے میدان میں آگے بڑھتے رہے اور بہت جلد شہر کی عدالتوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ وکالت کے دوران ہمیشہ باوضو رہتے تھے۔ وکالت کے دوران ان کی کئی جج حضرات سے ناراضگی بھی ہوئی لیکن آپ اپنے اصولی موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے جس و جہ سے ایک جج صاحب کی برطرفی بھی ہو گئی۔

میرپور میں پاکستان کے نامور وکلا ء اے کے بروہی، شیخ منظور قادر، ایس ایم ظفر کے علاوہ دیگر وکلا کے مد مقابل عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ 1975 / 1976 کی ایک چشم دید عدالتی کارروائی، جس میں انتہائی تجربہ کار اور قابل وکیل محمود علی قصوری ان کے مد مقابل تھے، کی بحث میرپور عدالت میں سننے کا موقع ملا۔ آپ نے وہ مقدمہ جیتا جس پر میرپور بار کے علاوہ جج صاحبان نے بھی آپ کو مبارک باد دی۔

میرپور میں وکالت شروع کرنے کے کچھ عرصہ بعد آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے آپ کو ایڈوکیٹ جنرل بننے کی پیش کش کی گئی لیکن آپ نے معذرت کر لی۔ 1971 ء میں پہلی بار آپ میرپور بار کے صدر منتخب ہوئے، دوسری بار 1978 ء میں آپ کو بار کا بلا مقابلہ صدر چنا گیا۔ آپ میرپور بار کے ایک نہایت ہی قابل، ذہین اور کامیاب وکیل تھے۔ میرپور کے علاوہ آپ کوٹلی میں بھی مقدمات میں پیش ہوتے رہے۔

ہائی کورٹ کے جج کی تقرری کے معیار پر پورا اترنے کے باوجود حکومتی سطح پر اپنی برادری کے افراد کو نوازنے کے لئے آپ کے ہائی کورٹ کا جج بننے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ اس وقت آپ کی وکالت اور سیاست دونوں بام عروج پر تھیں جس سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے آپ کے متعدد بار انکار کے باوجود آپ کو ہائی کورٹ کا جج بنا نے کی منظوری دے دی۔ اس پر حکومت کی طرف سے ان کی حلف برداری میں بد مزگی پیدا کی گئی لیکن عدلیہ کے وقار کی خاطر آپ نے یہ سب کچھ حوصلے اور ہمت سے برداشت کر لیا۔

آپ کو ہائی کورٹ کے جج مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ کسٹوڈین متروکہ املاک کا اضافی چارج بھی دیا گیا تھا۔ آپ نے متروکہ املاک بورڈ کے لئے بہت کام کیا۔ بہت سے بگڑے ہوئے معاملات کو یکسو کر کے تمام ریکارڈ کو مکمل کرایا اور زیر التوا وصولیاں کر واکر اس کو مالی طور پرایک مضبوط ادارہ بنا دیا۔ آپ نے برادری ازم کے خلاف جنگ لڑی۔ حکومت کی طرف سے سیاستدانوں کے خلاف بنائے گئے ریفرنس عدالت عالیہ میں دائر کیے گئے۔ دوسرے ججوں کے بوجہ یہ کیس نہ سننے پر وہ سب مقدمے آپ کے سامنے پیش کیے گئے۔

آپ کی ہائی کورٹ میں تقرری پر سیاست دانوں میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے سیاستدانوں کو سزائیں دینے کے لئے جج مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن آپ نے ان سب ریفرینسوں کا بغور جائزہ لے کر حکومت کی منشا کے خلاف میرٹ پر فیصلہ کر کے سیاست دانوں کو ان مقدمات میں بری کر دیا۔ یہ فیصلے حکومت وقت کو بہت ناگوار گزرے جس پر حکومت نے آپ کو سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج لگا دیا۔ آپ نے اس پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا لیکن خاندان اور دوستوں کی مشاورت کے بعد اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا۔

کچھ عرصہ بعد آپ کو دو بارا ہائی کورٹ میں جج لگا دیا گیا۔ آپ 1983 ء سے لے کر 1994 ء آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تعینات رہے۔ اس دوران انہوں نے ہزاروں مقدمات کا فیصلہ کیا۔ حکومت وقت اپنے دائر کیے گئے مقدمات میں انصاف نہیں بلکہ اپنے حق میں فیصلہ سننا چاہتی تھی بے شک وہ انصاف پر مبنی نہ ہو۔ حکومت وقت کے خلاف ہونے والے ہر فیصلے کے بعد ان کو چیف جسٹس سے ہٹانے کے غیر آئینی فیصلے کیے گئے۔ ان کے ہزاروں مقدمات میں کیے گئے فیصلوں کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے لیکن دو مقدمات ایسے ہیں جن کا میں ذکر کرنا چاہوں گا۔

ایک تو میرے شعبے سے متعلق ہے اور دوسرا میرے وطن کشمیر سے متعلق۔ ایک پٹیشن میں نابالغ بچے کے بینک اکاؤنٹ میں پڑی رقم بچے کے بالغ ہو جانے پر اسے نہ دینے اور بینک کی طرف سے اس میں رکاوٹیں ڈالنے پر بچے کی درخواست پر فیصلہ سنایا کہ جب بچہ بالغ ہو جائے تو شناختی دستاویزات لے کر اکاؤنٹ میں موجود رقم اس کے حوالے کر دی جائے۔ اس فیصلہ نے نابالغ بچوں کے بالغ ہونے پر ان کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کی ادائیگی کے لئے ایک راہ متعین کر دی۔

گلگت بلتستان کی حیثیت کے تعین کے لئے بحیثیت چیف جسٹس 8 مارچ 1993 ء کو کیے گئے اپنے فیصلے میں پاکستانی شمالی علاقہ جات گلگت اور بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے ان علاقوں کا انتظام و انصرام آزاد کشمیر حکومت کے سپرد کرنے حکم جاری کیا۔ گو کہ بعد میں حکومتی دباؤ کی وجہ سے سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو منسوخ کر دیا لیکن اس فیصلہ سے آزاد کشمیر عدلیہ کو عالمی سطح پر ایک شناخت ملی اور اس سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آزاد کشمیر ہائی کورٹ کو انسانی حقوق کے تحفظ میں سرفہرست رکھا۔

آپ نے چیف جسٹس کے طور پر اپنی تعیناتی کے دوران آپ نے آزاد کشمیر کے سب ضلعی صدر مقام کی عدالتوں میں وکلا ء کے لئے چیمبرز کی تعمیر کروائی۔ اس سے وکلا کو عدالتوں میں بیٹھنے کے لئے ایک اچھی اور باعزت جگہ میسر آئی۔ دارالحکومت میں ہائی کورٹ کی بلڈنگ آپ نے اپنے دور میں تعمیر کروائی اس سے پہلے آزاد کشمیر ہائی کورٹ کی اپنی کوئی عمارت نہیں تھی۔ آپ کے انصاف پر مبنی فیصلوں سے عدلیہ کا وقار بلند ہوا۔ عدلیہ کے فیصلوں پر حکومت رد عمل کے متعلق آپ کا کہنا تھا۔

”اقتدار میں ایک گھمنڈ اور تکبر ہوتا ہے۔ اس کی نفسیات میں ہی من مانی اور خود پسندی ہوتی ہے جو کینہ اور انتقام کو جنم دیتی ہے۔ اور اس پر اردگرد چاپلوس، خوشامدی اور چغل خور درباری طبقہ کی جعلی اور نمائشی ملمع سازی بڑے بڑے دانشور چابک دست، دانا حکمرانوں میں خود پسندی پیدا کر دیتی ہے اور وہ اپنی ہر بات منوانا چاہتے ہیں۔“

آپ نے سیاست کا آغاز گورڈن کالج میں کشمیری طلباء کے حقوق کے لئے کوششوں سے کیا بعد میں آپ فیڈریشن کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوئے۔ طلبا کے حقوق کے لئے کشمیر افیئرز کے وزیر مشتاق گورمانی سے مذاکرات منوانے کے لئے احتجاجی جلوس نکالا جس کی پاداش میں انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے بلیک لسٹ کر دیا گیا، اس وجہ سے آپ اعلی تعلیم کے لیے بیرون ملک نہ جا سکے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے کمپنی باغ (لیاقت باغ) میں آخری جلسہ کے وہ چشم دید تھے جس میں لیاقت علی کو قتل کیا گیا تھا۔

لاہور میں گورنمنٹ کالج اور یونیورسٹی لاء کالج کے زمانے میں کشمیری طلبا کی مختلف کالجوں کی تنظیم جموں و کشمیر فیڈریشن کی تنظیم نو کی اور اس کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوئے۔ دو دفعہ میرپور بار ایسوسی ایشن کے صدر رہے۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے خلاف بننے والی منگلا ڈیم مخالف کمیٹی میں سرگرم رہے۔ بھرپور احتجاجی تحریک کے مظاہروں کے دوران آپ گرفتار ہوئے اور قید و بند کی سختیاں برداشت کیں۔ 1973 ء میں میرپور میں جائیداد ٹیکس کے ظالمانہ نفاذ پر وکلا کی طرف سے بھرپور احتجاجی تحریک چلائی گئی۔

اس تحریک کے دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ وکلا اور شہریوں کے اس تحریک میں اکٹھے ہو جانے پر حکومت جائیداد ٹیکس واپس لینے پر مجبور ہو گئی۔ آپ کشمیر میں ایک آزاد ریاست کے قیام کے حامی تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح اور حسین شہید سہروردی سے آپ کی ملاقاتیں رہیں۔ آپ کے خورشید حسن خورشید کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے، لبریشن لیگ کے قیام میں آپ نے دن رات کام کیا۔ اس کے باوجود جماعت میں کوئی عہدہ نہ ملنے پر مسلم کانفرنس کی طرف سے جماعت میں شمولیت پر سیکرٹری جنرل کے عہدے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کیونکہ آپ ایک نظریاتی سیاستدان تھے۔

انہوں نے جماعت نہیں چھوڑی۔ 1970 ء کے الیکشن میں خورشید صاحب کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے چیف پولنگ ایجنٹ مقرر ہوئے۔ آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے اور ریاست کی شناخت ختم ہمیشہ کرنے کی مخالفت کی۔ آپ کو اعتماد میں لئے بغیر لبریشن لیگ کو پیپلز پارٹی میں ضم کرنے پر آپ کو بہت بڑا دھچکا لگا جس پر وہ سیاست سے بد دل ہو گئے اور آپ نے اپنی توجہ وکالت پر مرکوز کر لی۔ ذوالفقار علی بھٹو سے آپ کی ملاقاتیں رہیں جنہوں نے آپ کی ذہانت اور لیاقت کو دیکھتے ہوئے آپ کو ہائی کورٹ کا جج بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن مارشل لاء لگنے کی وجہ سے ان کی دستخط شدہ سمری پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

جب خورشید صاحب نے 1977 ء میں لبریشن لیگ کو دوبارہ بحال کیا تو آپ نے پھر ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ خورشید حسن کی وفات اور عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے پرانے ساتھیوں کے پرزور اصرار پر لبریشن لیگ کی صدارت سنبھالی اور دوبارہ جماعت کو منظم کیا۔ لیکن وقت کی گردش نے حالات کو بہت حد تک تبدیل کر دیا تھا اس لئے لبریشن لیگ ماضی میں ملنے والی مقبولیت دوبارہ حاصل نہ کر سکی۔

آپ نے مسئلہ کشمیر کو سفارتی محاذ پر اجاگر کرنے کے لئے بہت کام کیا۔ ہائی کورٹ کے جج اور چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہوتے ہوئے آپ نے اندرون ملک اور بیرون ملک مسئلہ کشمیر پر ہونے والے بہت سے سیمینار اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔ لبریشن لیگ کے صدر کی حیثیت مسئلہ کشمیر پر سفارت کاروں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا۔ برطانوی سفارت کار سے ملاقاتوں کا آغاز کر کے پاکستان میں فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، چین اور ایران کے سفیروں سے ملاقاتیں کر کے آپ نے ان سے مسئلہ کشمیر پر ان سے بات کی۔

جولائی 1996 ء میں لندن میں گریٹ ہال کشمیر کانفرنس میں شرکت کی جس میں آپ کی کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے کی گئی کوششوں کو سراہا گیا۔ لندن میں منعقدہ ولنگٹن کانفرنس میں آپ نے شرکت کی جس میں ہندوستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کے دانشور اور ماہرین نے شریک ہوئے۔ انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں 1995 ء میں ہونے والی تین روزہ کانفرنس میں آپ نے عوام کی آزادی اور ریاست کو خود مختار حیثیت دینے کی تجویز کی جس کی تائید جموں اور سری نگر کے وفد نے بھی کی۔

2005 ء میں سرینگر میں ہونے والی کشمیر کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں 1947 ء کے بعد پہلی دفعہ جموں و کشمیر، پاکستان اور انڈیا کے مندوبین سرینگر میں مسئلہ جموں و کشمیر کے حل پر سوچ و بچار کے لئے جمع ہوئے تھے۔ ہندوستان کی طرف سے متعدد بار انکار کے بعد اس کانفرنس میں شرکت کے لئے آپ کو ویزہ دیا تھا۔ اس سفر میں آپ نے کشمیری بزرگ راہنما علی گیلانی، یسین ملک اور دوسرے حریت راہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورہ میں جموں، سری نگر اور دیگر مقامات پر آپ کی حد سے زیادہ آؤ بھگت کی گئی۔ ہندوستان میں ڈاکٹر کرن سنگھ، سابق چیف جسٹس اے ایس آنند کے علاوہ بہت سی مشہور شخصیات سے ملاقات ہوئیں۔

پینتیس سال سے زیادہ وکالت کی پریکٹس اور بحیثیت جج اور چیف جسٹس عدالت عالیہ کے پندرہ سال سے زیادہ عرصہ میں آپ نے ملک کے نظام عدل کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ ہزاروں مقدمات کی پیروی کی اور عدالت عالیہ میں ہزاروں مقدمات کا فیصلہ کیا۔ نظام عدل کی خرابیوں اور ان کو دور کرنے کی تجاویز ان الفاظ میں پیش کی ہیں۔ ”مروجہ نظام عدل کی خامیوں، سوسائٹی اور معاشرہ میں سچ میں جھوٹ شامل کرنے، پولیس کی تفتیش میں اثر و رسوخ اور رشوت کا دخل، شہادت میں اغماز اور بے شمار دیگر امور قابل اصلاح کی نشاندہی پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح عدالت میں ابتداء سے اعلی عدلیہ تک جج صاحبان کی تقرری میں اعلی اوصاف، علمیت، اہلیت، دیانت، شہرت اور شخصیت کے معیار اور ماتحت عملہ کی تقرری میں اعلی اوصاف اور معیار کی ضرورت و اہمیت توجہ کی متقاضی ہے، جس کی بہترین کسوٹی اسلام کے وضع کردہ اور تجویز کردہ اصول ہیں۔ ان پر عمل سے ہی صحیح نظام عدل و انصاف قائم و رائج کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں عدل و انصاف زندگی کے تمام شعبوں میں فائق تر مقام رکھتا ہے۔ حتی کہ انسان کو زندہ رہنے کے لئے جس قدر خوراک کی اہمیت ہوتی ہے اس سے بھی کئی گنا زیادہ عدل و انصاف کی اہمیت حاصل ہے اور یہ انسان کی تخلیق میں شامل ہے۔ یہ کسی تلقین اور ہدایت کے تابع نہ ہے، بلکہ اس پر جتنا تدبر کیا جائے، اس کی گرہیں کھلتی جاتی ہیں، جن میں بہت زیادہ بہت وسعت ہے۔ “

میں یہ مضمون ان کی زندگی میں لکھنا چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں جون میں میرے برطانیہ جانے سے پہلے ملاقات میں انہوں نے مجھے کہا تھا کہ جب آپ واپس آئیں گے تو تفصیل سے بیٹھ کر بات کریں گے لیکن زندگی نے اس کی مہلت نہیں دی۔ یکم مارچ کو جب مجھے برمنگھم میں ان کی رحلت کی خبر ملی تو صدمے سے مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments