خاص لوگ


پی ڈی ایم کی 13 جماعتوں پر مشتمل وفاقی حکومت ختم کرانے اور نئے انتخابات کی تاریخ لینے کا عزم لے کر عمران خاں نے راولپنڈی میں خیمہ بستی بسائی تھی۔ ملک بھر سے عوام کو راولپنڈی بلایا گیا تھا۔ لیکن نہ جانے ج خاں صاحب کو کیا سوجھی کہ انہوں نے وفاقی حکومت سے استعفی لینے کی بجائے صوبائی اسمبلیاں تخلیل کرنے کا اعلان کر دیا اور عوام کو واپس گھروں کو بھیج دیا۔

میدان صحافت و سیاست کے عالی دماغ سوچ رہے ہیں کہ مقبولیت کے آسمان کے چاند کپتان کے دماغ میں خرکار کیا چل رہا ہے۔ ؟ کیا وہ اپنے تمام کارڈ کھیل بیٹھے ہیں؟ یا اب بھی ان کے پاس کوئی ایسا کارڈ ہے جسے پھینک کر بازی پلٹنے کی امید رکھتے ہیں؟ اس حوالے سے دو آراء موضوع بحث ہیں ایک رائے ان لوگوں کی ہے جو پی ٹی آئی کی مخالف سمت کھڑے ہیں۔ اور دوسری رائے ان لوگوں کی ہے جو عمران خاں کے بیانیے اور مطالبات سے متفق ہیں۔

پہلے لوگوں کی رائے میں عمران خاں کے اس اعلان کو فیس سیونگ یا سبکی سے بچنے کی کوشش ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان اپنے لانگ مارچ کے ذریعے آرمی چیف کی تقرری پر کوئی دباؤ ڈال سکے اور نہ ہی قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں لانگ مارچ بری طرح فلاپ ہوا اور راولپنڈی میں کارکنوں کی کم تعداد آنے کی وجہ سے، اسلام آباد کی جانب رخ کرنے کا جواز مہیا ہوسکا اور نہ ہی احتجاجی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے عوامی طاقت میسر آ سکی۔

جبکہ عمران خان کے طرف کھڑے ان کا حامی گروہ اس اعلان کو خاں صاحب کی بہترین سیاسی چال قرار دے رہا ہے۔ اس طبقہ کا خیال ہے کہ عمران خان نے وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا ہے۔ آرمی چیف کی خوش اسلوبی سے طے پا جانے والی تعیناتی نے وفاقی حکومت کے اعتماد میں جو اضافہ کر دیا تھا۔ عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے رکا اعلان کر کے اس اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔

عوامی سطح پر یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ کیا واقعی عمران خان صاحب اسمبلیوں سے باہر نکل جائیں گے یا ایک بار پھر یوٹرن لے لیں گے اور یوٹرن لے کر اپنا رکارڈ برقرار رکھیں گے۔ کیا اسمبلیاں تحلیل ہوں گی، یا ان کی راہ میں عدم اعتماد کی تحریک حائل ہو جائے گی؟

عمران خاں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس صورت میں اسلام آباد ( وفاق) کے پاس کیا آپشن ہوں گے؟

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کپتان ایسا کر کے اپنے ووٹرز اور حامیوں کو متحرک اور حریف جماعتوں پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ آزاد سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران خان موجودہ نظام اور پی ڈی ایم حکومت کے خلاف اپنی مہم جوئی کو جاری رکھنا۔ چاہتے ہیں۔

سیاسی و صحافتی پنڈتوں کے مطابق ’ایسے لوگوں کی رائے جو یہ سمجھتے ہیں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن عمران خاں کے دباؤ میں آ کر قبل از وقت انتخابات منعقد کروا دی نہیں کروائیں گے، یہ لوگ اپنے ہاتھ خود کاٹ کر کیوں دیں گے۔ ‘

چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے اور ان کی سیاست کے وارث چودھری مونس الہی نے قاف لیگ کے اپنے دھڑے کی مستقبل کب سمت واضح کردی ہے کہ و اگلا بجٹ پیش کر کے اسمبلی توڑیں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ پرویز الہی عمران خاں کے کہنے پر جون 2023 سے قبل پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔

پیپلز پارٹی، جے یو آئی، مسلم لیگ نواز اور پی ڈی ایم کی جماعتوں ذمہ پاکستان کو سیاسی خلفشار اور بدامنی سے بچانا ہے اور سیاسی استحکام کو بروئے کار لانے کی ذمہ داری بھی انہیں کی ہے۔ عوام کو کوئی ریلیف دے کر اور انہیں سہولیات باہم پہنچا کر اگلے الیکشن میں اپنے ووٹرز کی ناراضی کو ختم کرنا بھی لازم ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان کے اس فیصلے سے حکومت اور اس میں شامل جماعتیں متاثر ہوئی ہیں اور آگے بھی ہوں گی۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان نے جو فیصلہ کیا ہے، یہ کہنا کہ ہم پر فرق نہیں پڑا ٹھیک نہیں۔ اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان یقینی طور پر ملکی سیاست میں ایک بحرانی کیفیت ہے، مگر انتخابات کا فوری ہونا ممکن نہیں

مسلم لیگ نون کے رہنما ملک احمد خان کا کہنا ہے مسلم لیگ نواز اسمبلی کو تحلیل ہونے سے روکنے کی کوشش کرے گی ہمارے پاس عدم اعتماد کا آپشن ہے۔

اگر پاکستان تحریک انصاف اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ ہوئی تو اسے اسمبلیوں کے ساتھ سینٹ بھی چھوڑنا ہو گا اور قومی اسمبلی بھی خالی کرنی ہو گی۔

پنجاب اور کے پی کے میں گورنر راج کے نفاذ کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ اگر وفاقی حکومت خیبر پختون خوا اور پنجاب میں اسمبلیوں کو تخلیل ہونے سے روکنے کے لیے گورنر راج کا نفاذ کرتی ہے تو اسے عدالتی مزاحمت سمیت دیگر کئی مشکلات سے پالا پڑ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments