”پارری ہو رہی ہے“ سے ”دل یہ پکارے“ تک کا سفر


معاشرے ان میں رہنے والے لوگ بناتے ہیں، وہی ان معاشروں کو اقدار اور روایات کے بندوں میں باندھتے ہیں۔ یہی لوگ ہی اس معاشرے میں تغیراتی تخریب یا تعمیر کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اسی معاشرے کی اشرافیہ معاشرے پر اثرات ڈالتی ہے اور وہی اشرافیہ اس کی حدود قیود کا تجاوز کرتی ہے۔ ان کو دیکھ کر طبقاتی تقسیم میں منقسم لوگ اپنا قبلہ درست کرتے ہیں۔ تو جب معاشرے کے لوگ خود معاشرتی اقدار کا بیڑا غرق کرنے کا فیصلہ کر لیں تو پھر کون ہے جو اس معاشرے کو بچا سکے۔ بناؤ سے زیادہ بگاڑ کے طرف مائل لوگ اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے بگڑتے ہوئے معاشرے پر تنقید نہ ہی کریں تو اچھا ہے۔

احساس کمتری، ذہنی غلامی اور اندھی تقلید مجموعی طور پر بحیثیت قوم اور معاشرہ کے ہماری مسلسل ہماری جڑیں کاٹ رہی ہے۔ ہم ذہنی طور پر الجھن کا شکار ہم لوگ مغرب کے تقلید بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن خود کو پاکباز بھی کہلوانا چاہتے ہیں۔ ہم مومن بھی رہنا چاہتے اور ایک مادر پدر آزاد معاشرہ بھی چاہتے ہیں۔ قحبہ خانوں اور عبادت گاہوں دونوں میں معتبر ہونا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر جگہ پر ہم سے پچھلی جگہ کی کوئی بات منسوب نہ ہو۔ یعنی اس وقت ہم اس ذہنی تقسیم کی وجہ منافقت کے اس اعلی درجے پر فائز ہو چکے ہیں جہاں سے قوموں کی تباہی شروع ہوتی ہے۔

اب حال ہی میں ایک لڑکی کی ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ ایک پرانے گانے پہ رقص کے جوہر دکھا رہی ہے۔ اب حسب ماضی احساس کمتری میں مبتلا ہم لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں ایک وہ لوگ جو اسے معاشرے میں عام کرنا چاہتے ہیں اور ٹی وی اسکرین اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں اس لڑکی کو اور اس کے کارنامے کو مشہور سے مشہور تر بنانے میں صرف کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے خود اس کو ویڈیو کو دل کھول کر دیکھا محفلوں میں دکھایا، دوستوں کے ساتھ مل کر تبصرے کئیے اور اب جب کہ وہ مشہور ہو چکی ہے تو اب وہ میڈیا اور اس لڑکی کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں۔

ایک اور گروہ جو کہ ڈاکٹر ولید کی ایک تصویر کو شیئر کر رہے ہیں جس میں انہوں نے ڈھیروں میڈل پہنے ہوئے ہیں۔ اس تصویر کا موازنہ اس لڑکی کے مشہور ہو جانے سے کر کے قوم کی ترجیحات کے بارے میں قوم کو نصیحت کر رہے ہیں۔ اب ان سب سے سوال یہ ہے کہ کیا اس سب میں صرف اس لڑکی کا قصور ہے یا اس کو پروگرام میں بلانے والی ندا یاسر کا قصور ہے یا پھر بحیثیت قوم ہم اس ذہنی تنزلی کے ذمہ دار ہیں۔

ابھی ماضی قریب میں ہی اسی طرح کے دو واقعات رونما ہوئے۔ ایک واقع میں ایک لڑکی مصنوعی تتلاہٹ کا استعمال کرتے ہوئے پارری ہونے کا اعلان کرتی ہے اور دنوں میں ہی وائرل ہو جاتی ہے شوبز کے ستارے اس ویڈیو کے ری مکس بناتے ہیں۔ اور دنوں میں وہ لڑکی کچھ نہیں سے سب کچھ بن جاتی ہے یہاں تک کہ پاک فوج کے زیر اہتمام بننے والے ایک ڈرامے میں مرکزی کردار بھی مل جاتا ہے۔ تبھی اس قوم کو پھر سے فکر لاحق ہوتا ہے اور یہ ایک پڑھنے والی لڑکی زارا ڈار کو وائرل کرتے ہیں اسے پروگرامات میں بلا کر اس کی غیر معمولی ذہانت اور کامیابیوں پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نتیجتاً وہ بھی وائرل ہوتی ہے اور ان کے فینز اور فالورز بھی بڑھتے ہیں۔ آج کل وہ بھی اپنے پڑھنے لکھنے سے زیادہ اپنے میک اپ اور پارٹیوں کی ویڈیوز شیئر کر رہی ہوتی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم سب لوگ سستی شہرت کے طلبگار ہیں۔ بس اگر وہ کسی اور کو مل جائے تو یہ ہم سے ہضم نہیں ہوتا۔ یہ معاشرہ ایسے ہے تباہ ہوتا رہے گا جب تک ہم خود کوئی فیصلہ نہیں کر لیتے۔ ہمیں کوئی ایک راستہ چننا ہو گا۔ کسی ایک کشتی کا سوار بننا ہو گا۔ ہم مشرق اور مغرب کو ایک ہی برتن میں نہیں رکھ سکتے۔ ہم ایک ہی وقت میں مذہبی اور آزاد خیال نہیں ہو سکتے۔ ہمیں چننا ہو گا ورنہ آنے والی نسلیں مزید الجھن کا شکار ہوں گی اور پھر شاید ان کے رہنے کے لئے معاشرہ بچ ہی نہ پائے۔

چار سال کا عرصہ مکمل ہوا لیکن پہلے مرکزی کردار کا ابھی اداکاری سے دل نہیں بھرا تھا وہ کردار میں مکمل رچ بس گیا تھا۔ جب ہدایتکار نے کہا کہ اب بس کرو اگلے کی باری ہے تو اداکار نمبر ایک بپھر گیا۔ وہ بھی مایہ ناز اداکار تھا لوگ اس کو چاہتے تھے اداکاروں کا ایک جتھا بھی اس کے ساتھ تھا۔ دوسرا اداکار بھی مضبوط اور منجھا ہوا تھا اور وہ باہر بیٹھ کر اداکاروں کے ایک جتھے کو سنبھالتا تھا۔ تیسرا بڑا اداکار بھی اس کے ساتھ تھا لیکن پہلا اداکار کسی صورت اپنا کردار چھوڑنے پہ تیار نہ تھا۔

آخر کب تک وہ اداکاری کے پیچھے لڑتا رہتا جب پہلے اداکار کو ہدایتکار کی ناراضگی کا علم ہوا تو اس نے جانے کا سوچ لیا لیکن پھر بھی اس نے جاتے جاتے ہدایتکار اور دوسرے اداکاروں اور ہمنواؤں کو ننگا۔ ۔ ۔ میرا مطلب ٹف ٹائم دینے کا سوچا۔ اس نے قبل از وقت سارے ڈرامے کی کہانی کھول دی اور اپنی راہ لی۔ ڈرامے میں اس نے اداکاری کمال کی تھی اس وجہ سے نوجوان اسے بہت پسند کرتے تھے۔ لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس کے لئے جیل جا سکیں وہ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اسے خوب داد دیتے تھے۔

یوں ایک بہترین ہدایتکار کی بہترین تخلیق جس نے دیکھے جانے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے وہ لوگوں کے سامنے کہانی کے آشکار ہو جانے کی وجہ سے ناکام ہو گیا لیکن پھر بھی کمائی اور ویورشپ کے اعتبار سے وہ تاریخ کا سب سے بڑا ڈراما ثابت ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments