کتاب: زندہ رود کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ۔ تبصرہ


مصنف: ڈاکٹر راشد حمید
پبلشر: اقبال اکادمی، لاہور
اشاعت دوم: 2022
طبع اول: 2007 پورپ اکادمی
قیمت: 540
صفحات: 156
مبصر: ڈاکٹر تہمینہ عباس

”زندہ رود“ اقبال کی سوانح عمریوں میں نمایاں ترین سوانح عمری ہے جو علامہ اقبال کے بیٹے جسٹس جاوید اقبال نے تحریر کی۔ یہ کتاب ابتدا میں تین جلدوں میں شائع ہوئی اور بعد میں ایک ہی جلد میں شائع ہونے لگی۔ ”زندہ رود کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ“ ڈاکٹر راشد حمید کا ایم فل کا مقالہ ہے جو انھوں نے مشہور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی نگرانی میں تحریر کیا ہے۔

پہلا باب ڈاکٹر جاوید اقبال کے سوانحی خاکے پر مبنی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے انتقال سے قبل جسٹس جاوید اقبال پڑھائی کی طرف رغبت نہ رکھتے تھے۔ اقبال کے انتقال کے بعد انھوں نے بتدریج تعلیم کی طرف توجہ دی اور آہستہ آہستہ کامیابی حاصل کرتے چلے گئے۔ پہلے ایم اے انگریزی کیا پھر ایم اے فلسفہ کیا۔ پی ایچ ڈی 1954ء میں مکمل کیا۔ بار ایٹ لا کیمبرج یونیورسٹی لندن سے کیا۔ 1907ء سے 1970ء تک پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں جز وقتی استاد رہے۔

جسٹس جاوید اقبال نے افسانے اور ڈرامے لکھے۔ دنیا کی بیشتر جامعات میں مختلف موضوعات پر اعزازی لیکچرز دیے۔ ”جہان اقبال“ کے عنوان سے ٹی وی پر پندرہ خطبے دیے۔ 1971ء سے 1986ء تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے۔ 1986ء سے 1989ء تک سپریم کورٹ کے جج رہے اور بعد میں اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ جاوید اقبال کی بیوی ڈاکٹر ناصرہ اقبال مشہور پبلشر، فیروز سنز کی پوتی تھیں جن سے جاوید اقبال کی ملاقات نیویارک میں ہوئی۔ جب وہ لاہور واپس آئیں تو ان کی شادی لاہور میں ہوئی۔ ڈاکٹر ناصرہ نے لا کالج لاہور سے ایل ایل ایم کیا اور پھر اسکالر شپ پر ہارورڈ یونیورسٹی سے ایک ہی سال میں ایل ایم کیا۔ 1994ء میں ڈاکٹر ناصرہ کا تقرر بطور جج لاہور ہائی کورٹ میں ہوا۔

”زندہ رود“ ڈاکٹر جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی تصنیفی اور تالیفی زندگی کا اہم کارنامہ ہے جو انھوں نے اپنی منصبی ذمے داریوں کے ساتھ تحریر کی۔ اس تحقیقی کام میں انھیں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اقبال کے سوانحی ادب میں اس کتاب کے مقام و مرتبے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سوانح اقبال پر مشتمل ”زندہ رود“ (تین جلدوں میں ) اردو کی بہترین سوانح عمریوں میں سے ایک ہے۔ اقبال کی مکمل، مبسوط، سوانح عمری کا پہلا اور اس وقت تک آخری نمونہ ہے۔

یہ کتاب دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے۔ اور ایک مقبول کتاب ہے۔ اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں مگر اس پر کئی اعتراضات بھی ہوئے جیسے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے اس کتاب کو لکھتے وقت ثانوی مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔ علامہ اقبال کے خطوط جو بنیادی مآخذ کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان سے بہت کم استفادہ کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان کے سوانحی اشارات کے لیے زیادہ سے زیادہ ان کے خطوط سے استفادہ کیا جاتا۔

”زندہ رود“ ثانوی مآخذ و مصادر کی وجہ سے تحقیق کے مسلمہ اصولوں پر پوری نہیں اترتی۔ ”زندہ رود“ میں زبان و بیان، قواعد اور املا کی غلطیوں نے اس کے مجموعی تاثر کو ابھرنے نہیں دیا۔ ”زندہ رود“ میں اقبال کی حیثیت و مرتبے کو مدنظر رکھ کر زبان و بیان کا انداز اور آہنگ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کو فرزند اقبال کی حیثیت سے جن آثار اور مآخذ تک رسائی حاصل تھی یا رہی ان سے استفادے کی صورت آٹے میں نمک کے برابر ہے ”زندہ رود“ کے مجموعی مطالعے کے بعد یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ انتہائی عجلت میں کیا گیا کام ہے۔ اس کی بنیاد تحقیقی اصولوں پر استوار نہیں۔

جاوید اقبال کو تمام ذرائع، آثار اور لوازمات میسر تھے جو اقبال جیسے عظیم شاعر اور فلسفی کی سوانحی حیات کی ترتیب میں مددگار ثابت ہوسکتے تھے۔ جاوید اقبال اتنے قد آور تھے کہ سوانح اقبال کو جتنی جلدوں میں بھی مرتب کرتے بڑے سے بڑا ناشر چھاپنے کو تیار ہوجاتا۔ جاوید اقبال زیادہ سے زیادہ لائبریریوں اور اقبال شناسوں سے مدد لے سکتے تھے مگر انھوں نے اس طرف توجہ نہیں دی ”زندہ رود“ میں اقبال کے خطوط اور قلمی آثار سے استفادہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

حالاں کہ علامہ اقبال کے خطوط کا بیشتر حصہ ان کی سوانح، نظریات، ماحول اور معاشرتی تاریخ سے متعلق ہے۔ علامہ اقبال کے خطوط اور ملفوظات سے ایک مستند سوانح عمری مرتب کی جا سکتی تھی۔ پوری کتاب پڑھنے سے علامہ اقبال بحیثیت وکیل کا فکری تاثر نمایاں نہیں ہوتا۔ وہ اپنے عہد کے اہم تر وکلا میں شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے جو بھی مقدمے لڑے وہ عام سطح کے نہ تھے۔ ان مقدموں کی کارروائی انگریزی اور اردو میں موجود ہوگی مگر ”زندہ رود“ میں ایسی کسی دستاویز کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اقبال اور احمدیت کے موضوع پر جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال انصاف نہیں کرسکے۔

”زندہ رود“ کے جو بھی ایڈیشن شائع ہوئے اس میں جاوید اقبال نے کوئی ترمیم یا اضافہ نہیں کیا۔ حالاں کہ بعد میں آنے والے ایڈیشنوں کو وہ مزید بہتر کر کے شائع کر سکتے تھے۔ ”زندہ رود“ میں علامہ اقبال کے عقائد پر بھی تفصیلی گفتگو نہیں ملتی ہے۔ علامہ اقبال قرآن کی جو تفسیر ”Islam As I Understand It“ کے نام سے لکھنا چاہیے تھے اس سلسلے میں انھوں نے بنیادی خاکہ بھی تیار کر لیا تھا جو ”آثار اقبال“ میں مدتوں موجود رہا جس کے مالک و مختار جسٹس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر جاوید اقبال تھے مگر انھوں نے اس سے استفادہ نہیں کیا۔

ضروری تھا کہ ”زندہ رود“ میں موجود بیشتر تسامحات کو دور کر کے شائع کیا جاتا مگر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ ”زندہ رود کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ“ میں ڈاکٹر راشد حمید نے ان شامحات کی تفصیلی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے ایک اردو کی ایک ممتاز سوانح عمری ہونے کے باوجود تنقید کا شکار رہی۔

سات سو صفحات پر مشتمل ”زندہ رود“ کی تینوں جلدیں ڈاکٹر جاوید اقبال کی نو سالہ محنت کا ثمر ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں علامہ اقبال کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور فکری زندگی کے اہم تر خدوخال، برصغیر کے سیاسی و سماجی پس منظر میں نمایاں کیے ہیں۔ ان جلدوں میں علامہ اقبال کی داستان حیات کے پہلو بہ پہلو برصغیر کی اہم شخصیات اور حالات کا تذکرہ بھی آ گیا ہے۔ مگر بعض معاملات اور واقعات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ بحیثیت مجموعی سوانحی ادب میں ”زندہ رود“ کا اپنا ایک اہم اور اعلیٰ مقام ہے۔ جب تک اقبال کی کوئی اور سوانح عمری مرتب نہیں کی جاتی۔ بلاشبہ ”زندہ رود“ ممتاز ترین کتاب سمجھی جاتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments