قومیت بمقابلہ انسانیت


اس بات کا اندازہ شاید آپ لوگ نہ کر پائے کیونکہ اس کی وجہ آج کا انسان وہ انسان نہ رہا۔ جو اب مختلف طرح سے تقسیم ہو کر بٹوارے کا شکار ہو چکا ہے۔ اس تقسیم کار کمپنیوں نے جیتے جی قومیت بمقابلہ انسانیت کروا کر ثابت کر دیا، حتیٰ کہ بنانے والا بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ کیا سلسلہ چل پڑا ہے۔ ان الفاظ کے پس منظر پر ذرا غور کرنے کی کوشش کریں تو دونوں متضاد حیثیت کے حامل اور ایک دوسرے کے خلاف بات کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے قومیت کے دعوے داروں نے اس کا بول بالا بلند کیا ہے انسانیت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ شاعر لکھتا ہے :

اس نے میرے اور اپنے درمیاں
اک چراغ تھا جسے بجھا دیا

ہم لفظ قومیت کے آبا و اجداد پر سرسری نظر کریں تو انھوں نے اس کو ہمیشہ تقسیم کاری، گروپ بندی اور اختلاف رائے کی تربیت دے کر سیر کیا۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اس کی تعلیم و تربیت کو ایک ایک فرد پر بکھیرنا شروع کیا۔ جیسے کہ بنی نوع انسان کا تعلق انسانیت سے نہ تھا بلکہ اس کی بنیاد ہی قومیت کا انجذب تھی۔ اس نے معاشی، معاشرتی، مذہبی، ثقافتی، سائنسی، سیاسی، تعلیمی، لسانی، یہاں تک علاقائی اور جغرافیائی حد کو بھی نہ چھوڑا۔ اس ایک خاندان کو بکھیر کر رکھ دیا۔

اس عمل کا ردعمل دیکھ لیں، بغور مطالعہ کر لیں کسی نہ کسی رنگ میں آج قومیت کا پلہ بھاری کرتی اور دن بدن اثر و رسوخ دکھاتی ہوئی ملتی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ لبادہ انسانیت کا اوڑھ کر قومیت کو فروغ دیتے آدم کی اولاد ملتی ہے۔ جو ایک باپ کی، ایک ماں اور ایک خاندان کے نسب و چراغ ہیں۔ اس تفریق پر ایک سرسری نظر کریں تو ہمیں بلاشبہ اس بات کا اقرار کرنا پڑے گا کہ آج وہ قومیت ہی انسانیت کے مد مقابل کھڑے ہو کر للکار رہی ہے۔

جغرافیائی بات ہو تو ایک ملک کا دوسرے سے فرق، یہاں تک کہ ایک ملک کے رہنے والے ہی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ مثال اپنے ملک یعنی پاکستان کی ہی لے لیں تو ایک خطہ میں ایک کنبہ، قومیت کی بھینٹ چڑھ کر انسانیت کو بلند آواز سے للکارتا ملتا ہے۔ پنجابی سندھی کو، سندھی پٹھان کو، سرائیکی بلوچی کو، ملک اعوان کو، کھرل بھٹی کو، جٹ شیخ کو، سندھو ورک کو، جٹ چودھری کو وغیرہ نہ جانے کتنی تفریق کی مثالیں قائم کرنے انسانیت کے مد مقابل ڈنڈا بردار کھڑے ہیں۔

بات صرف یہاں پر ہی نہیں ہوتی بلکہ آگے مزید بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہی منظر سیاسی، اختلاف اور خاندان کو تمیز کے دائرہ کا شکار کرتی معلوم ہوتی ہے۔ اگر اپنے دیس کا تذکرہ کروں تو کسی سے چھپا ہوا نہ ہے۔ ذات پات تفریق، رنگ کی تفریق، زبان اور علاقائی تمیز، سیاسی فرق، مذہبی اور ثقافتی فرق، امیر اور غریب کا پیسے کے اعتبار سے فرق، ایک خاندان نہ جانے کس کس مقابلہ بازی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ مطلب ایک خاندان، ایک کنبہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر چکا ہے۔

جس کو یکجا کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں رہا۔ حالانکہ خدا ایک، کتاب ایک، گھرانا ایک تھا مگر اس قومیت کے نظریہ نے اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اس ایک کنبہ کی اصلیت اور اہمیت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ تو دوسری جانب یہی خاندان ثقافتی اور مذہبی انا پرستوں کے ہاتھوں بکھرتا ملا، تو کہیں ذات پات کے معماروں کی تراش کا شکار ہوا ملا۔ یہ سب انسانیت کی تذلیل اور ظلم کے مترادف ہے۔ اس بات کو مزید سادہ لفظوں میں الطاف حسین حالی کی زبانی سمجھتے ہیں۔ ان کی نظم مسدس حالی میں کچھ یوں لکھا ہے۔

یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدی کا
کہ ساری مخلوق کنبہ خدا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان

میرے نزدیک جتنے بھی قومیت کے پیروکار ہیں انھوں نے جیتے جی انسانیت کو دفن کر کے اس کے مدمقابل قومیت کو لا کھڑا کیا ہے جس نے اس محبت، پیار، اور یگانگت کی جگہ تفریق، تمیز، نفرت، مخالفت اور حقارت کو پروان چڑھا رکھا ہے۔ اس بات کو مزید آسان لفظوں میں سید ضمیر جعفری کی نظم آدمی کی روشنی میں دیکھیں تو بقول شاعر:

تھا کبھی علم آدمی، دل آدمی، پیار آدمی
آج کل زر آدمی، قٙصر آدمی، کار آدمی
زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی

یہ زر، قصر اور کار اور معیار زندگی صرف اور صرف اس نظریہ قومیت کا ردعمل ہے جو اکثریت کے منہ پر سننے کو ملا ہے۔ یہ تو ہمارے معیار کا ہی نہ ہے۔ افسوس ان کے قومیت کے ٹھیکیداروں پر اور ان کی سوچ پر جنھوں نے ایک گھرانا کو ٹکڑے اور محبت کو محدود کر کے اس کے معانی بدل ڈالے۔ اس قومیت کے تاثرات نہ صرف ذاتی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر لے گئے۔ اس عنوان کے اعتبار سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ اب صرف قومیت کے دعوے دار ہی چاروں اطراف ملتے ہیں۔ جنھوں نے انا پرستی، تنگ نظری، حقیر نگاہ، اور نفرت کی بھرمار کو فروغ دے رکھا ہے۔ اس کے عوض ایک باپ کی اولاد کو کئی طرح سے دگرگوں کر کے بیگانہ پن کا تاثر اور روپ دے کر جدا کر دیا ہے۔ حالانکہ ازل کائنات کا مطالعہ ایک کنبہ، ایک باپ، ایک سربراہ اور ایک حکم کا متعین کرواتا ہے۔ مطلب :

” اے انسان تو خاک ہے اور خاک میں ہی لوٹ جائے گا۔“

اس خاک کو بتایا کہ تیرا ماضی بھی مٹی اور مستقبل بھی خاک ہے۔ افسوس صد افسوس اس خاک نے زر، زن، زمین، تفریق، رنگ اور نہ جانے کس کس فرق کو قومیت کا نام دے کر انسانیت کے مدمقابل کھڑا کیا کر دیا ہے۔ اب اس قومیت کے روپ میں نئے رنگ اور بدلتی کروٹ کے ساتھ اپنا الگ تعارف بنا دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments