احسان دانش کی آپ بیتی ”جہان دانش“، غریب طبقہ اور جہد مسلسل


احسان دانش کا تعلق چونکہ خود غریب طبقے سے تھا اس لیے انھوں نے اس طبقے کی حالت زار کو قریب سے دیکھا اور آپ بیتی میں بیان کیا۔ انھوں نے اپنے قصبہ ”کاندھلہ“ کے باسیوں کی محنت، مشقت اور مشکلات کا تذکرہ کیا۔ احسان دانش کو غربت اور مزدوری گویا وراثت میں ملی تھی۔ چوتھی تک تعلیم حاصل کی پھر والد کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ ان کے اخراجات اٹھا سکتے۔ تعلیم ترک کی اور والد کے ساتھ مزدوری پر جانے لگے۔ چونکہ مزدوری بھی کوئی مستقل اور مسلسل چیز نہیں ہوتی اس لیے اس معاشی خلا کو پر کرنے کے لیے ان کی والدہ محلے سے سینے کے کپڑے اور پیسنے کے لیے اناج منگا لیا کرتیں۔ دن بھر کپڑے سینا اور صبح کے چار بجے چکی کی جانگداز مشقت ان کا معمول تھا۔

گھر کی حالت زار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ساون میں برسات کے بے رحم بادل پھونس کے شگافوں سے ہماری کوشش کے باوجود ہمارے بچھونے بھگو دیا کرتے۔ بعض اوقات تو میری والدہ کو تمام رات پانی الیچتے گزر جاتی۔ احسان دانش نے چونکہ خود مزدوری کی اس لیے مزدور طبقے کی مشکلات کو بیان کیا۔ انھیں اس پورے طبقے کا دکھ تھا جس کے وہ خود بھی حصہ تھے۔ یہ ایک استحصال زدہ طبقہ ہے جو کئی دہائیوں سے جاگیر داروں اور وڈیروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو رہا ہے۔

احسان دانش نے اپنے گھر کی جو منظر کشی کی اس میں نچلے طبقے کی تصویر نظر آتی ہے کہ شبانہ روز محنت کے باوجود معاشرہ انھیں ان کے بنیادی حقوق دینے سے بھی قاصر ہے۔ ان کا خیال ہے کہ محنت اور سرمایہ میں ایک واضح تضاد ہے۔ جو طبقہ دن رات محنت کرتا ہے اسے بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ اور جو سرمایہ وہ پسینا بہا کر جمع کرتا ہے وہ کسی دوسرے کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ ان کی حالت تمام عمر یہ رہتی ہے کہ دن فاقوں میں گزرتے ہیں اور راتیں کمروں سے بارش کا پانی الیچتے ہوئے گزرتی ہیں۔

احسان دانش نے مزدوری بھی کی اور چوتھی جماعت تک تعلیم بھی حاصل کی۔ تعلیم کے متعلق ان کے والدین کے ارادے تو بلند تھے مگر افلاس میں ہر ارادے کی بنیاد بے اعتبار ہوتی ہے۔ احسان دانش نے امرود کے باغ میں کام کیا۔ والد کے ساتھ کھیتوں سے گھاس نکالی۔ رنگ سازی کا کام کیا۔ لیکن جب تیسری جماعت میں کامیاب ہوئے تو والدین کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ اسے کتابیں خرید کر دیتے۔ بالآخر والدہ نے گھر میں موجود پیتل کے برتن فروخت کر کے انھیں چوتھی کی کتابیں لا کر دیں۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ برتن کتنے میں فروخت ہوئے تھے لیکن اتنا یاد ہے کہ جب میں نے درجہ چہارم کی کتابیں خریدی تھیں اس وقت ہمارے گھر میں کوئی تانبے یا پیتل کا برتن نہیں رہا تھا۔

اس کے باوجود حالت یہ تھی کہ چوتھی کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ مہاجن کی نوکری کی۔ بیوپاری کی ملازمت کی۔ نہر جمن شرقی کی کھدائی میں مزدوروں کے ساتھ کام کیا۔ جنگل میں بکریاں چرائیں اور وہاں ایک دوست اصغر جنگ سے کتب لے کر مطالعہ بھی کرتے رہے۔ اس جہد مسلسل اور ناداری کی وجہ سے ان کے ذہن میں جو خیالات پیدا ہوئے ان کے بارے میں کہتے ہیں کیا دنیا میں ہم اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو امیروں کے ظلم و ستم برداشت کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ کیا غریبوں اور ناداروں کی دعاؤں میں اثر نہیں ہوتا۔

احسان دانش کی زندگی میں جتنے بھی مسائل آئے، غریبی کا سامنا کرنا پڑا یا بے روزگاری کا، لیکن انھوں نے مطالعہ کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اگر انھیں ملازمت کے دوران مطالعے کا وقت نہ ملتا تو ان کی روح بے چین ہونا شروع ہو جاتی۔ اور ملازمت چھوڑ دیتے۔ مطالعے کی خاطر اس نے بے روزگاری کو گلے لگایا۔ وہ کون سے ایسے پرخار راستے ہوں گے جن سے وہ شخص نہیں گزرا ہو گا۔ لیکن اس نے کبھی کسی مشکل کو راستے کی کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اور دنیا کے لیے محنت اور جہد مسلسل کی ایک مثال چھوڑ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments