کیا پاکستان کے ڈیفالٹ کر جانے کے خطرات چھٹ سکتے ہیں؟


کئی ہفتوں سے پاکستان کے ڈیفالٹ کر جانے کی خبریں گردش میں ہیں۔ پہلے اطلاعات آئیں کہ عالمی سرمایہ کاروں کو سکوک بانڈ کی ادائیگی نہ کی گئی تو ڈیفالٹ کر جائیں گے ایسی اطلاعات کے باعث اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے ۔

وطن عزیز اس وقت جس صورتحال سے گزر رہا ہے اس کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم سب ( حکومت اور اپوزیشن ) ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں تاکہ وطن عزیز معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی بدترین سطح پر نہ پہنچ پائے ، یہ صورتحال پی ڈی ایم کے لیے سود مند ہوگی اور نہ ہی حقیقی آزادی کے علمبرداروں کے لیے نفع بخش ثابت ہوگی۔ یہ راستہ سراسر گھاٹے کا سودا ہو گا۔

ان حالات اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں کہلائے گا جب کہ حقائق یہی ہیں ہماری سیاسی جماعتوں کی لڑائی ملک میں سیاسی، سماجی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوا ہے ۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے سیاسی مفادات کو مد نظر رکھے ہوئے ہے ۔ اس گھمبیر اور سنگین صورتحال سے تب ہی نکلنے کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوگی جب سیاسی قائدین اپنی ذات سے باہر نکل کر ملکی مفادات کو ترجیح دیں گے ۔

یقیناً وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ کہنا امید افزاء ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا لیکن ہماری جنتا کا مزاج یہ ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے کی گئی باتوں پر اعتبار کم کرتی ہے اور اپوزیشن کے بیانات کو اہمیت دیتی ہے ۔ واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈز کی ادائیگی کی تاریخ 3 سے 5 دسمبر ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ سکوک کی ادائیگیاں مؤخر نہیں کریں گے کیوں کہ ایسا کرنے سے عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوگی۔ وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک دوست ملک سے تین ارب ڈالرز چند روز تک مل جائیں گے ۔

اس بحرانی صورتحال میں سابق وزیر خزانہ و تحریک انصاف کے راہنما شوکت ترین کے اس بیان نے قوم کو حوصلہ عطا کیا ہے جس میں انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کئی طرف نہیں جا رہا، انہوں یہ بھی کہا کہ وہ افراتفری میں کوئی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کریں گے ۔

اس ضمن میں ہمارے برادر اسلامی ملک اور ہر مشکل گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونے والے سعودی عرب سے بھی یہ خوشخبری چکی ہے کہ اس نے نومبر 2021 میں دیے گے تین ارب ڈالرز کی مدت میں مزید ایک سال بڑھا دی ہے ،

لیکن حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں برتنی چاہیے کہ ہمیں معاشی و سیاسی عدم استحکام سے بچانے کے لیے بارڈر پار سے کسی نے نہیں آنا اور نہ ہی ملائکہ آسمان سے اتریں گے ۔ یہ بھاری پتھر ہمیں ہی اٹھانا ہو گا بات جس قدر جلد ہماری سمجھ میں آ جائے اتنا ہی ملک و قوم کے لیے بہتر ہو گا۔

سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے مقررہ تاریخ سے 3 دن پہلے ہی سکوک بانڈز کی ادائیگی کردی ہے جبکہ پاکستان نے یہ کیوں کہ ادائیگی کی آخری تاریخ 5 دسمبر تھی لیکن حکومت نے ادائیگی 2 دسمبر ہی کو کردی۔

یہ سب باتیں اور دعوے اپنی جگہ درست مگر یہ مسلے کا حل نہیں، ہمیں اس مسلے مستقل اور دیرپا حل تلاش کرنا ہے ۔ دوست ممالک کی طرف سے ہمارے زرمبادلہ لے ذخائر بڑھانے کے لیے سٹیٹ بنک آف پاکستان کے پاس ڈالرز ایک مدت تک رکھنا ہماری مدد ضرور ہے مگر ہماری پریشان برقرار رہتی ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے بتایا ہے کہ ”ہم پاکستانی ہر سال طاقتور لوگوں کو سترہ ارب ڈالرز کی مراعات فراہم کرتے ہیں“ جبکہ پاکستان کے کمزور طبقہ پر بے تحاشا ٹیکسز لگا کر ان کے لیے سانس لینا مشکل بنا دیا گیا ہے ۔

ہمارے حکمران گزشتہ 75 سالوں سے ملک کے مفاد کے نام پر قربانی لیتے چلے آ رہے ہیں ان سطور کے ذریعہ ہماری التماس ہے کہ اس بار پاکستان اس اشرافیہ سے قربانی لیں جن پر سالانہ ستر ارب ڈالرز کی مراعات کی نوازشات کی جاتی ہیں چاہے اس کے لیے ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا کر یہ نیک کام کرنا پڑے ، کر گزریے ۔

اس حوالے سے ہماری پارلیمانی شخصیات اور عوامی عہدوں پر فائز شخصیات صدر مملکت سے گورنرز، وزیر اعظم سے وزرائے اعلی، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، وفاقی و صوبائی وزراء اور تمام اراکین پارلیمنٹ اپنی خدمات رضاکاران اپنی گرہ سے ادا کرنے کا اعلان کریں۔ اگر یہ کام بھی ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments