فیض احمد فیض اور سید فخرالدین بلے، داستان رفاقت (آخری قسط)


نظم : مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
نظم نگار : فیض احمد فیض
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

جب اس موجودہ صدی کا آغاز ہوا تو جب تک اے لیول اردو زبان و ادب کے نصاب میں ایک عجیب تشنگی سی تھی۔ اردو ادب اے لیول کا نصاب شعر و شاعری سے محروم تھا۔ اردو افسانہ، ناول اور ڈرامہ پڑھانے کا لطف بے شک بہت ہوتا ہے لیکن شعر و سخن بنا اردو نہ تو پڑھنے کا لطف آتا ہے اور نہ پڑھانے کا۔ برٹش کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ متعدد ورکشاپس میں کیمبرج یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ اور اراکین مجلس مرتبین نصاب سے ملاقات اور نصابی امور پر گفتگو بھی ہوتی ہی رہتی تھی۔

بارہا ان کو لکھ کر بھی گزارش پیش کی بعد ازاں بذریعہ میل بھی کہ اے لیول اردو کا نصاب نامکمل اور ادھورا ہے۔ اللہ جانے کس کی دعا لگی کہ جہد مسلسل کے نتیجے میں محض حصۂ نثر پر مشتمل اے لیول اردو کے نصاب میں حصۂ نظم بھی شامل ہو گیا۔ فیاض احمد فیض غزل کے حصے میں نہ تھے اور نہ ہیں بلکہ نظم کے حصے میں شامل تھے ہر ہر شاعری کی تین تین نظمیں شامل ہوا کرتی تھیں۔ فیض صاحب کی تینوں نظمیں بچے بہت شوق سے سننے اور سمجھنے کے خواہش مند ہوتے تھے۔

ایک تو مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، دوسری چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز اور تیسری نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔ شاعر سے پہلے شاعر کا مکمل تعارف، فن، شخصیت، خدمات اور اردو ادب پر اثرات کا احاطہ کرنا ہوتا تھا۔ تعارف سن کر ہی طالب علموں کی دلچسپی شاعر کے بعد شاعری میں بھی حد سے زیادہ پیدا ہونے لگی بس پھر کیا تھا فیض صاحب کی دیش بھگتی، وطن پرستی، دھرتی پوجا، حب الوطنی، جمہوریت پسندی اور آمریت مخالف رویے کا مفصل تجزیہ ضروری ہوتا تھا۔

مسلسل بیس بائیس برس سے اللہ رب العزت نے یہ کرم جاری رکھا ہوا ہے کہ ہمیں ملک بھر میں او اینڈ اے لیول اردو زبان و ادب کے بہترین نتائج پیش کرنے کا اعزاز شامل ہے اپنی یادوں کو تازہ کرنے بلکہ ان یادوں میں قارئین کرام کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ فیض صاحب کی ان شاہکار نظموں کا مطالعہ کرنے کا بھی ایک الگ ہی لطف ہے۔

نظم : چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
نظم نگار : فیض احمد فیض
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہ لیں تڑپ لیں رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یوں ہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد
دل کی بے سود تڑپ جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز

سرگودھا میں قیام کے دوران جب والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب عارضۂ قلب کا شکار ہوئے تو جہاں فیض احمد فیض۔ احمد ندیم قاسمی۔ جاوید احمد قریشی۔ ڈاکٹر آغا سہیل۔ عطا الحق قاسمی، بریگیڈیئر ضمیر جعفری، صدیق سالک۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ آپا۔ محمد طفیل (مدیر نقوش) ۔ مختار مسعود علیگ اور برہان فاروقی علیگ پرویز بزمی۔ طفیل ہوشیار پوری۔ شبنم رومانی۔ محترمہ ادا جعفری پھپو۔ محسن بھوپالی۔ یزدانی جالندھری۔

میرزا ادیب۔ آئی۔ اے۔ رحمن۔ عباس اطہر۔ شہزاد احمد شہزاد، کلیم عثمانی، حضرت وقار انبالوی اور حضرت علامہ غلام شبیر بخاری، عبیداللہ علیم، اداکار محمد علی، حبیب جالب جیسی عظیم المرتبت ہستیوں میں ممتاز مفتی، سردار رشید قیصرانی اور جمیل الدین عالی صاحب بھی شامل ہیں۔ فیض احمد فیض صاحب نے بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے کی خواہش کے احترام میں اپنے ایک روزہ قیام کو دو روزہ کر دیا تھا۔

نظم : نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
نظم نگار : فیض احمد فیض
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں
بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں
یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں

نوٹ : مضمون کی اس آخری قسط میں شامل تمام مصورانہ شاہکار محترم پروفیسر آکاش مغل صاحب کا ہم سب کے لیے خصوصی تحفہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments