بیرون ملک پاکستانیوں سے سوتیلوں والا سلوک کیوں!


بیرون ملک پاکستانیوں نے پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے میدان عمل میں اترنے کا اعلان کر دیا۔ اس سلسلے میں آسٹریلیا میں پاکستانیوں نے ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی ہے جو پوری دنیا میں پھیلے پاکستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ان کے ذریعے پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس تنظیم کا حال ہی میں سڈنی میں باقاعدہ اجرا ہوا ہے۔ پاکستان مشن انٹرنیشنل نامی تنظیم کے بانی شکیل احمد اور ان کے ساتھی ہیں۔ اس تنظیم کے اہم مقاصد یہ ہیں۔

1۔ سماجی، معاشی، سیاسی اور فلاحی سرگرمیوں کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان کی مقامی کیمونٹی اور پاکستان کے لیے نیٹ ورک مہیا کرنا۔

2۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پاکستان میں ووٹ کے حقوق اور نشستوں کے لئے آواز بلند کرنا۔
3۔ پاکستانیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے مشترکہ مفاد کے امور پر تقریبات اور پروگراموں کا انعقاد۔
4۔ دیگر کمیونٹیز، تنظیموں اور سفارتی چینلز کے ساتھ نیٹ ورک خلا کو ختم کرنے اور حمایت جمع کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا۔

5۔ فلاح و بہبود کے لئے فنڈز جمع کر نا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانا۔
6۔ پاکستان کی سفارتی، اخلاقی اور معاشی مدد کرنا اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والی کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا۔
7۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جائیداد و مال پر ناجائز قبضے اور زیادتی پر احتجاج کرنا۔

دراصل بیرون ملک بسنے والے تقریباً ایک کروڑ پاکستانیوں کے ذہنوں میں عرصہ دراز سے یہ سوال تھے۔ اب یہی سوالات ان کی زبانوں پر بھی آ گئے ہیں کیونکہ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے۔ ہماری حکومتیں کب تک ہمیں نظر انداز کرتی رہیں گی۔ کب تک ہمیں صرف استعمال کیا جائے گا۔ کب تک ہمیں ہمارے حقوق سے محروم رکھا جائے گا۔ جس میں ووٹ دینے کا حق، انتخابات میں حصہ لینے کا حق اور ہمارے جان و مال کے تحفظ کا حق شامل ہے۔ وطن سے ہماری وفاداریاں اور ہماری محبت شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ ہم نے اپنی محنت کی کمائی سے اس ملک کی معیشت کی کھیتی کو سینچا ہے۔ پھر ہمیں غیر کیوں سمجھا جاتا ہے اور لٹیروں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی یہ شکایات ہر لحاظ سے قابل غور ہیں کیونکہ:۔

(الف) وہ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً دسواں حصہ ہیں اتنی بڑی تعداد میں کسی دوسرے ملک کے شہرے بیرون ملک نہیں رہتے۔ ملکی آبادی کے اتنے بڑے حصے کو فیصلہ سازی سے محروم رکھنا اور ان کے حقوق سے صرف نظر کرنا نہ صرف ان کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ ملک کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ کیونکہ ان میں سے اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ، پروفیشنل، تجربہ کار اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہے۔

اگر ان کو مواقع مہیا کیے جائیں تو وہ پاکستان کے لیے ہر قربانی دینے کے تیار رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جب محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان نے مختلف ممالک میں مقیم پاکستانی سائنس دانوں کو وطن واپس آنے او ر ملکی دفاع میں ان کا ہاتھ بٹانے کی درخواست کی تو کسی ایک نے بھی تاخیر نہیں کی او ر اپنی اعلیٰ ملازمتیں، بلند معیار زندگی اور بچوں کا روشن مستقبل چھوڑ کر وطن واپس آ گئے کیونکہ اسی قوم کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔

(ب) پاکستان کی آمدنی کا سب بڑا اور مستقل ذریعہ بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم ہیں جو ایک محتاط تخمینے کے مطابق اوسطاً تیرہ ارب امریکن ڈالر سالانہ ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا ستون بیرون ملک پاکستانی ہیں۔ ان کی ترسیل کردہ رقوم کے بغیر ملک کب کا دیوالیہ ہو گیا ہوتا۔ تیرہ ارب ڈالر سالانہ معمولی رقم نہیں ہے۔ بقیہ تمام ذرائع سے جمع کی گئی امداد جو اتنی بھاگ دوڑ، منت سماجت اور خواری کے بعد ملتی ہے وہ سالانہ چار پانچ ارب سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ بھی دراصل قرض ہے جو ہمیں سود سمیت لوٹانا ہے۔ ان قرضوں کی وجہ سے پاکستان تقریباً مفلوج ہو گیا ہے اور ہماری آزادی داؤ پر لگی ہے۔ جب کہ پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم نہ صرف پاکستان کی زر مبادلہ کی ضرورت پوری کرتی ہیں بلکہ ملک سے غربت کم کرنے اور مختلف اداروں کو چلانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

(ج) بیرون ملک اور اندرون ملک پاکستانیوں کی اتنی قربانیوں کے باوجود ملک دھیرے دھیرے معاشی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ان قرضوں کی وجہ سے پاکستان قومی مفاد کے مطابق خارجہ پالسی بھی نہیں بنا سکتا بلکہ غیروں کی ڈکٹیشن پر چلنا پڑتا ہے۔ ہماری حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور حکمران طبقے کی کرپشن کی وجہ سے روپے کی قدر اتنی گھٹ گئی ہے پاکستان سے باہر کوئی اسے لینے کے لیے تیار نہیں۔ اس حالت کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کو غیروں کے طعن و تشنیع سننے پڑتے ہیں۔ بھارت تو ایک طرف بنگالی بھی ہمیں طعنے دیتے ہیں کہ آپ کا تو بال بال قرضے میں جکڑا ہے۔

(د) اس وقت دنیا بھر میں عوام کا معیار زندگی بلند ہو رہا ہے۔ جب کہ وطن عزیز میں الٹی گنگا بہ رہی ہے۔ ہمارے ادارے ترقی معکوس کا شکار ہیں۔ عوام الناس تعلیم، علاج معالجہ اور نقل و حمل سمیت ہر سہولت سے محروم ہو رہی ہے۔ پینے کا صاف پینے تک میسر نہیں۔ غربت بڑھ رہی ہے اور عوام کا معیار زندگی پست سے پست تر ہو رہا ہے۔ آخر کیوں۔ عوام کا قصور کیا ہے۔ حکمرانوں کے کرپشن اور بد انتظامی کی سزا انھیں کیوں مل رہی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنے ہم وطنوں اور اپنے عزیز و اقارب کو اس کسمپرسی کی حالت میں دیکھ کر دکھ اور تکلیف ہوتی ہے۔ اب وہ سوال اٹھا رہے ہیں، اپنے لیے، اپنے ہم وطنوں کے لیے اور اپنے ملک کے لیے۔ کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت عرب ممالک، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہے اور اپنی محنت، قابلیت اور علم و ہنر سے نہ صرف اپنا بلکہ ملک کا نام بھی روشن کر رہے ہیں۔ اپنے عمل و کردار سے وہ پاکستان کے سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ قومی دن جوش و خروش سے مناتے ہیں اور کشمیر سمیت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھر پور معاونت کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایسی تقریبات یکے بعد دیگرے ہوتی رہتی ہیں جس میں مقامی سیاست دان بھی شریک ہوتے ہیں۔ حال ہی میں آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے میچز میں پاکستانی تماشائیوں نے جس طرح سبز ہلالی پرچم اٹھا کر اپنی ٹیم کی سپورٹ کی، اسے پاکستان سمیت پوری دنیا میں دیکھا گیا۔ ان محب وطن پاکستانیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے ضرورت ہے۔ یہی انصاف ہے اور اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments