ڈبل گیم: یہ ہے داستاں مرے عہد کی


پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے اور خفیہ قوت کی حمایت سے غیر جمہوری کھیل، کھیلتے ہیں۔ سوشل میڈیا کیا متحرک ہوا کہ اس کی تند و تیز ہواؤں نے بہت سی حقیقتوں سے پردے اٹھا دیے ہیں۔ بلا شبہ سیاست، سیاست دانوں کا کام ہے مگر اکثر پس پردہ قوتیں اپنا مہرہ آگے بڑھا کر اپنے مفادات کے لیے وکٹ کے دونوں جانب کھیلتی رہیں۔ ماضی کی آویزش میں سیاست دان ہی قصوروار ٹھہرائے جاتے رہے مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادھورا سچ ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اپنے اقدامات کو بعض سیاست دانوں کے سہارے کیمو فلیج کرتی اور بدنامی سیاست دانوں کے حصے میں ڈالتی رہی۔ عمران خان کی مہم جو طبیعت نے دانستہ یا نادانستہ اصل کھلاڑیوں کو بے نقاب کیا۔ موجودہ حالات و واقعات میں بھی اتحادی رہنماؤں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے مفاہمت کا جو ڈول ڈالا اس میں نیوٹرل ہونے کا اعلان کیا گیا۔ عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پاس ہوئی مگراس کے پس پردہ مقاصد اتحادی نہ جان سکے۔

اصل میں جنرل باجوہ اپنے اس گھوڑے کو بچانا چاہتے تھے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں میں اضافے، دوست ممالک سے تیزی سے بگڑتے تعلقات اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے عدم تعاون کے باعث عوامی اعتماد کھو چکا تھا۔ پاکستان نے سفارت کاری کے انتہائی غلط ہتھکنڈوں کے ذریعے امریکا کو ناراض کر دیا تھا۔ پنجاب حکومت کا لالی پاپ دے کر غیرجانبداری کا ثبوت دیا گیا، ایک طرف مرکز میں اتحادیوں کی پیٹھ تھپتھپائی، دوسری جانب پنجاب میں پس پردہ اتحادیوں کی حکومت 3 ماہ میں ہی سپریم کورٹ کے انتہائی متنازع فیصلے کے ذریعے ختم کرائی تاکہ جنرل باجوہ اپنی سودا بازی کی پوزیشن برقرار رکھ سکیں اور ایکسٹینشن کے خواہش ناتمام پوری ہو سکے۔ نیوٹرل ڈرامے کے ذریعے اتحادیوں کو ٹریپ کیا گیا اور عمران خان کی ساری غلطیاں ان کے گلے میں ڈال دی گئیں۔

عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے اور امریکا مخالف نعروں کا مقصد ان کی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کی بحالی تھی۔ یہ سب ریاستی اداروں نے قومی مفادات کی قیمت پر خان جی کو عوامی ہیرو بنانے کے لئے کیا۔

یہ اصل کھلاڑیوں کی جانب سے وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے۔ مونس الٰہی کی مہربانی انہوں نے ایک الجھے ہوئے لمحے کو بروقت بیان کر دیا ورنہ ہمارے ہاں سچ اس وقت سامنے آتا ہے جب قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔

مونس الہیٰ کا انکشاف کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحریک عدم اعتماد کے وقت ہمیں عمران خان کے ساتھ جانے کا کہا، ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“ کے مصداق لگ رہا ہے مگر ماضی کے تناظر میں یہ کھیل پاکستان کے باسیوں کے لیے کوئی نئی بات ہے، نہ عالمی طاقتوں کے لئے کوئی انکشاف۔

1980 ء کی دہائی میں امریکا چیخ رہا تھا کہ صدر جنرل ضیاء الحق وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں، یہی کچھ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بھی دہرایا گیا، جنرل باجوہ نے اسی عمل کو آگے بڑھایا۔

جنرل باجوہ کی عمران خان پر مہر بانیاں اور عنایات اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری حد تک جانے کے باوجود جاری رہیں۔ اس سے ان کی غیر جانب داری کا پول بھی کھل گیا جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا، جاتے جاتے بھی جنرل باجوہ قوم کو ”ماموں“ بنانے کے اپنے فلسفے پر عمل پیرا رہے۔ باجوہ صاحب اپنی غلطی تسلیم کریں یا نہ کریں، ان کی سیاسی معاملات میں مداخلت، ان کا پورا فوجی کیریئر تباہ کر گئی وہ ایسی فضا میں ریٹائرڈ ہوئے، کہ دشنام آمیزی اور سیاسی مداخلت کا گناہ ان کا پیچھا کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔

شکستہ ہے فاختہ یہ جو زخم زخم گلاب ہے
یہ ہے داستان مرے عہد کی جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے

خان جی اور جنرل باجوہ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف چلتے دکھائی دیتے رہے مگر مکافات عمل نے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کا عمل بے نقاب کر کے ان ہی پر الٹا دیا، جنرل باجوہ، جنرل فیض رخصت ہوچکے اور عمران خان بھی دست شفقت سے محروم ہو گئے مگر سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی مداخلت سے الگ ہو نے کا جو اعلان کیا ہے کیا مستقبل میں وہ اس پر عمل پیرا ہوگی یا جنرل کیانی اور باجوہ کی طرح ’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوا ”کا منظر نامہ ہمارا مقدر رہے گا۔ آپ نے اگر کھیلنا ہی ہے تو ضرور کھیلیں مگر منصفانہ کھیل پر توجہ دیں تاکہ اس عمل سے پاکستان میں عدم استحکام کی فضا ختم ہو اور ملک کی مضبوطی کا سامان ہو سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments