نہلا پائلٹ



1969 کے غالباً اپریل کا ذکر ہے۔ ایسٹ پاکستان آئے چھ ماہ ہو چکے تھے۔ نہایت ہنگامہ خیز اور بے حد مصروف دن گزرے تھے۔ اتنا ہی عرصہ ہمیں کوئی سی چھٹی کاٹے بھی ہو گیا تھا۔ ایک دن محمود گیلانی کہنے لگے یار ہم نے تو ابھی تک ڈھاکہ بھی نہیں دیکھا۔ بس ائرپورٹ سے ریلوے سٹیشن تک۔ یہ تو کوئی دیکھنا نہ ہوا۔ ہو نہ آئیں؟ میں نے کہا آئیڈیا برا نہیں شاہ صاحب۔ حالانکہ میں ڈھاکہ دیکھنے کی کوئی دلی خواہش نہیں رکھتا تھا۔

جتنا دیکھ لیا تھا وہی کافی لگتا تھا۔ پھر اس دوران میں اس سے بہت بہتر شہر چٹاگانگ اور سلہٹ دیکھ چکے تھے۔ اور اتنی تفصیل سے کہ جتنی ممکن ہو سکتی ہے۔ بہر حال محمود گیلانی جو مجھ سے تین ماہ سینئر تھے کی کمپنی میں کہیں بھی جانا گوارا تھا۔ چنانچہ ویک انڈ کی چھٹی کے لئے رجسٹر پر نام چڑھا دیے۔ اگلے دن پتہ چلا کہ چھٹی ہو گئی ہے۔ تھوڑی سی مایوسی بھی ہوئی کہ ہم دو لفٹینوں کے بغیر یونٹ چلتی رہے گی؟ پورے تین دن؟ ابھی تک تو ہمیں یہی باور کرایا جاتا رہا ہے کہ ایسا مشکل ہے اور جس دن ہم نہ ہوئے اور کچھ بھی نہ ہو گا۔

اب جانے کا سوچا تو جہاز میں سیٹیں بآسانی مل گئیں۔ فوکر پچیس منٹ میں کومیلا سے ڈھاکہ پہنچا دیتا ہے۔ کومیلا کے سرسبز ائرپورٹ پر کھڑا فوکر ہمیں موسم اور منظر کی طرح پیارا لگا۔ یہ چھٹی کا کمال نہیں تھا۔ فوکر کی متناسب ساخت اور خوبصورت گولائیاں آج بھی ہمیں پیاری لگتی ہیں۔ (ذرا اس بے رعبے نووارد اے ٹی آر سے مقابلہ کردیکھیں جس کے پر تک آگے سے ٹیڑھے ہیں ) ۔

پورے دن میں کومیلا ائر پورٹ پر بس ایک ہی پرواز آتی اور ایک جاتی تھی۔ مجھے گیلانی نے کھڑکی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس سیٹ سے (نہایت بے دلی سے ) اپنی تھری کاسل کی سگریٹ کی ڈبی (بیس والی! ) اور رونسن کا سگریٹ لائٹر اٹھا لیے۔ مجھے پتہ تھا گیلانی کے دل کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ آئل سیٹ پر ہو۔ ( ”اوچھوں“ کی طرح دوڑ کر کھڑکی سیٹ پر نہیں ) ۔ جبکہ ساتھ والی سیٹ پر اس کی تھری کاسل کی ڈبیہ اور رونسن کا لائٹر پڑے رہیں۔

مگر یہاں سیٹیں صرف دو ہی تھیں۔ محمود کے اندر ایک نوابی رگ تھی۔ اس کے والد کرنل گیلانی نواب بہاولپور کے ساتھ رہے تھے اور غالباً ہاؤس ہولڈ رجمنٹ کے کمانڈر بھی۔ طبیعت میں ایک خوش خلقی اور نفاست تھی جو موہ لیتی تھی۔ تھوڑی دیر میں انجن سٹارٹ ہوئے۔ جہاز نے دوڑ لگائی اور رن وے کے اختتام سے ذرا پہلے ہوا میں جست کر کے بادلوں سے آنکھ مچولی کھیلنے لگ گیا۔ محمود نے تیوری چڑھائی اور بولا خدا خیر کرے پائلٹ نہلا ہے نہلا۔

مجھے حیرت میں دیکھ کر فرمایا اچھے پائلٹ کو تین چوتھائی رن وے سے ٹیک آف کر جانا چاہیے خاص طور پر جبکہ ہوا بھی سامنے کی ہو۔ میں نے ہنس کر کہا گل کوئی ایسا شعبہ بتاؤ جس میں تمہیں دسترس نہ ہو۔ (مجھے پتہ تھا کہ گل کی ہوائی شعبے کی معلومات کا تمام تر ماخذ اور تجربہ وہ چند شامیں تھیں جب ہم نے کومیلا کی رن وے پر جیپوں کو فل سپیڈ دوڑا کر اڑانے کی کوششیں کی تھیں ) کہنے لگے یار تم بھی اس لاہوری ”ڈن وٹے“ امان اللہ کی طرح علم کے دشمن کیوں بنتے جا رہے ہو؟ جہاں سے کوئی علم کی چیز ملے لے لینی چاہیے۔

مجھے یاد آیا ایک دن لفٹننٹ امان اللہ نے جو سینیارٹی میں گل اور میرے درمیان تھے محمود کے میوزک پر لیکچر کے درمیان کوئی طنزیہ بات کہی۔ شاہ صاحب خفگی سے بولے یار امان اللہ تم لاہوری ڈن وٹے ( اس لفظ کا مطلب ہم نے ان سے کبھی پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی ) کب تک فنون لطیفہ سے بے بہرہ رہوگے؟ ہم سے کچھ سیکھ لو شاید تمہیں کبھی کسی پولائٹ سوسائٹی میں موو کرنا نصیب ہو جائے۔

عین اس وقت ریڈیو پر رفیع کا مشہور گانا بج رہا تھا: او دنیا کے رکھوالے سن درد بھرے میرے نالے۔ شاہ صاحب بولے یہ گانا سن رہے ہو؟ یہ پیور درباری ہے پیور درباری! یہ سن کر امان اللہ تو واقعی ارتھ ہو گئے اور ہم نے بھی یہ نکتہ نوٹ کر لیا اور بعد میں اسی ایک نکتے کی مدد سے ”پولائٹ سوسائٹی“ میں کافی دفعہ پوائنٹ سکور کیا۔ میرا ذہن گھومتا گھومتا یونٹ کے ایک فنکشن کی طرف چلا گیا جس میں چند بنگالی آرٹسٹ بھی بلوائی گئی تھیں۔

میں نے کہا گل وہ یاد ہے بنگالی لڑکی جس نے تمہاری فرمائش پر خواجہ غلام فرید کی کافی ”اساں روندیاں عمر لنگھائی یار دی خبر نہ پائی“ سنائی تھی؟ میرا مطلب تھا بنگالی ہو کر کتنے صحیح تلفظ اور لب و لہجے میں سنائی تھی۔ فرمانے لگے ہاں ہاں وہی جس پر ہمارے بریگیڈ میجر پیرزادہ صاحب ریشہ خطمی ہو گئے تھے اور پھر ایک محفل بعد میں میس میں بھی اس کے ساتھ منعقد کی تھی۔ کیا کیا شاہ صاحب پیرزادہ کیا ہو گئے تھے؟ میں نے شرارتاً پوچھا۔

ہنس کر ٹال گئے۔ میں نے کہا ریشہ ریشہ ہو کر ختم تو وہ محترمہ ہو گئی تھیں پیر زادے پر۔ پیرزادہ کشمیری خوبصورتی اور پنجابی وجاہت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ لڑکی نے جتنی غزلیں اس رات سنائیں اور خوشی خوشی سنائیں شاید ساری زندگی نہ سنائی ہوں گی۔ شاہ صاحب کہنے لگے پیرزادہ کا ایک واقعہ ایک پرانے افسر نے سنایا تھا۔ یہ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں ایک دستے کے ساتھ ویسٹ ایریان گئے تھے اقوام متحدہ کی ڈیوٹی پر۔ وہاں انڈونیشیا والوں نے ان کی خوب آؤبھگت کی۔

ہمارے تب کے کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ دستے کے معائنے پر گئے تو جب جنرل موسیٰ سے لفٹننٹ پیرزادہ کا تعارف کرایا جا رہا تھا تو انڈونیشی کمانڈر بولے : سر دس افسر از ویری پاپولر ود آور گرلز۔ جنرل موسیٰ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور پاکستانی کمانڈر کو کہنے لگے : لک ان ٹو اٹ۔ لک ان ٹو اٹ۔ دس افسر نیڈز سینڈنگ بیک۔ اس پر انڈو نیشی کمانڈر بہت متاسف ہوا اور بعد میں کہنے لگا میں نے تو تمہاری تعریف کے رنگ میں کہا تھا مجھے کیا پتہ تھا تمہارے کمانڈر انچیف اتنا برا منا جائیں گے۔ بخدا یہاں اگر ہمارا صدر سوئیکارنو ہوتا تو میری بات پر اس افسر کو موقعے پر ترقی دے دیتا۔

شاہ صاحب خود سدا کے حسن پرست تھے۔ ان دنوں ان کے بارے میں سننے میں آ رہا تھا کہ سلہٹ کی کسی فیملی میں ہک اپ ہوئے ہیں اور سر تال اور اچھی میوزک میں سر تا پا غریق عشق ہو رہے ہیں۔ سوچا شاہ صاحب کو ذرا چھیڑوں تو شاید گھوم گھما کر سلہٹ پر آجائیں۔ ایک خیال آیا۔ میں نے کہا گل تمہارے نواب صاحب سنا ہے بہت فیاض انسان تھے۔ میرا خیال تھا وہ تعریف کریں گے تو میں کہوں گا کہ پھر انہوں نے ہماری یونٹ کو نہ کوئی اچھا میس فرنیچر دیا نہ ہی چمکتا دمکتا سلور جو ہم پفر یونٹوں کے سامنے فخر سے رکھ سکیں۔ (ہماری یونٹ بلوچ رجمنٹ میں شامل ہونے سے پہلے پرانی بہاولپور بٹالین تھی۔ ) شاہ صاحب تو جیسے انتظار میں تھے کہ کوئی چھیڑے۔ پھر جو چھڑے تو بہت سے واقعات سنائے۔

ایک یہ بھی سنایا کہ نواب صاحب کا ایک خاص خدمتگار تھا جس سے وہ جسم دبواتے یعنی مٹھی چاپی کرواتے تھے۔ (سرائیکی میں گھٹیوا) ایک دن جب اس کی خدمت سے خوش ہوئے تو پوچھنے لگے اللہ ڈوایا یہ بتا کہ سب جو مجھے لوٹتے ہیں۔ توں نے بھی تو مجھے لوٹا ہو گا۔ اللہ ڈوایا نے گھبرا کر آئیں بائیں شائیں کی۔

نواب صاحب نے شفقت سے پوچھا اور زور دے کر پوچھا کہ سچ بتا کتنا لوٹا ہے ( سرائیکی محاورے میں تھک لگائی) تب وہ شرماتا ہوا بولا سائیں کوئی دو تین ہزار کی تو تھک لگائی ہوگی۔ نواب صاحب اس پر ناراض ہو گئے کہ بیس سال میں صرف دو تین ہزار کی تھک؟ یہ تو ان کی شان کے بھی خلاف ہے۔ بار بار افسوس کرتے کہ لاکھ ایک کی تو تھک لگائی ہوتی۔ آخر میں حکم دیا کہ اس کو ایک لاکھ روپیہ دے دو۔

اتنے میں کھڑکی سے روشنی کی ایک لہر کوندی۔ نظر ڈالی تو سیاہ گھٹائیں امڈ رہی تھیں اور ان میں سے بجلیاں کڑک کڑک کر جہاز کی طرف بڑھ رہی تھیں بلکہ گھیرے میں لے رہی تھیں۔ اتنے میں عملے کی بھگدڑ سنائی دی۔ کوئی اعلان تو نہ ہوا لیکن جہاز نے نوز ڈاؤن کر لی اور لڑھکتی ہوئی کٹلری کراکری جلترنگ بجانے لگی۔ دوسری جانب جو نظر ڈالی تو اس طرف نسبتاً امن تھا۔ اب جو نیچے کی طرف جھانکا تو یوں لگا کہ دو گھٹاؤں کے درمیان سڑک سی بن گئی ہے اور نیچے کا منظر صاف نظر آ رہا ہے اور قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

گیلانی نے ڈبل کف قمیض کو سٹائل سے ہٹا کر رومر کی گھڑی پر نظر ڈالی اوربولے اب تو لینڈنگ کا وقت بھی ہو رہا ہے۔ یہ تمہارا نہلا پائلٹ نہ جانے کیا ارادہ رکھتا ہے۔ عرض کیا بادلوں کی گھٹا دائیں کو بہت گہری اور ڈراؤنی ہے اسی سے بچ رہا ہو گا اور اب ہم چاندپور کے اوپر ہیں۔ برہم پتر کی اس دریائی بندرگاہ کو ہم خوب پہچانتے تھے کیونکہ کئی بار ائرفورس کے ساتھ مشقوں کے لیے آئے تھے۔ سیدھی راہ تو اس سے شمال میں تھی۔

ظاہر تھا پائلٹ عمومی راہ چھوڑ کر جنوب سے جا رہا تھا تو معاملہ کچھ گمبھیر ہی ہو گا۔ شاہ صاحب نے میرے اوپر سے جھک کر کھڑکی سے جھانکا اور فرمانے لگے یہ بجلیاں اگر جہاز پر گریں تو نتیجہ فوری تباہی ہے اور تمہارا پائلٹ سیدھا راستہ چھوڑ کر ہمیں بجلیوں کے گھر میں لے آیا ہے۔ ڈھاکا تو چاندپور سے شمال میں ہے یہ نہلا پائلٹ ہمیں جیسور یا کلکتہ تو نہیں لے جا رہا؟ ہماری چھٹی کا بیڑا غرق کرے گا۔ پر گل گھٹائیں بھی تو خوفناک ہیں وہ بیچارہ بھی کیا کرے۔ کہنے لگے ایک اچھے پائلٹ کا کام ہے اڑنے سے پہلے موسم کی رپورٹ لے اور اگر بادل کیومولمبس ہوں تو ہرگز مسافروں کی جان خطرے میں نہ ڈالے۔ نہلا ہے نہلا مان لو۔ (اب حقیقت یہ ہے کہ گل کو اس لفظ کے سپیلنگ تک نہ آتے تھے )

اب جو جھانکا تو جہاز اتنا نیچے آ چکا تھا کہ دریا کی کشتیاں دکھ رہی تھیں اور کشتیوں میں آدمی گنے جا سکتے تھے۔ گیلانی نے آدمی گن کر کہا یہ نہلا اب پانی پر لینڈ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ذرا سیٹ کے نیچے ہاتھ مارو وہاں ایک لائف جیکٹ ہو گی وہ احتیاطاً نکال لو۔ میں نے ٹٹولا۔ وہاں کوئی جیکٹ نہ تھی۔ میں نے یہ سرکاری راز شاہ صاحب سے پوشیدہ ہی رکھنے میں مصلحت سمجھی۔ ساتھ ہی پائلٹ نے دائیں والی گھٹا کے نیچے سے ایک گیپ ڈھونڈ کر جہاز کا رخ نہایت مہارت سے شمال کو موڑ دیا۔

بجلی سے بھرپور گھٹائیں اب ہمارے دائیں اور اوپر تھیں۔ جہاز آہستگی سے اوپر اٹھنا شروع ہوا۔ کڑکتی بجلیاں اب بھی چمک رہی تھیں لیکن ذرا فاصلے سے۔ اور آہستہ آہستہ یہ فاصلہ بڑھنا شروع ہو گیا اور ہمارا بلڈ پریشر گھٹنے لگا۔ چند منٹ میں ہم منشی گنج جو ڈھاکا کے مضافات میں ہے کے اوپر تھے۔ بجلیاں اب بھی کڑک رہی تھیں لیکن ذرا ہٹ کے۔ گل کو بتایا تو کہنے لگے یہ نہلا اب بھی کوئی حرکت کر سکتا ہے۔ ہوشیار رہنا۔ عرض کیا ہماری ہوشیاری اس وقت کسی کام نہیں آسکتی۔ کوئی اتفاقاً سرزد ہوئی نیکی شاید کام آ جائے۔ فرمانے لگے یار تم تو اتنے قنوطی نہیں ہوتے تھے۔ حوصلہ رکھو۔ شاہ صاحب کی اس بات پر قہقہہ لگانے کو جی چاہا لیکن موت کے مونہہ سے واپسی کے بعد یہ بھی مشکل تھا۔ پھر فرمایا پچیس منٹ کی فلائٹ تھی پینتالیس منٹ ہو چکے ہیں۔ اب یہ نہلا کوئی اور گل نہ کھلائے۔ تو اپ نے کون سا کوئی سلہٹ کا کنکشن پکڑنا تھا؟ ہم نے چھوٹا سا اٹیک کیا۔ شاہ صاحب اس غیر متوقع حملے سے تھوڑا سا گھبرائے پھر تھوڑا سا مسکرائے اور ساتھ ہی سیریس ہو کر نئے لیکچر کا آغاز کرنے لگے۔

یار تم لوگ (مطلب ہم اور امان اللہ) کبھی ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ تعلقات کے مختلف لیول ہوتے ہیں۔ جو اس کو چہ سے نہ گزرا ہو اسے ان باتوں کی کیا خبر۔ ایک چیز ہوتی ہے ذہنی ہم آہنگی۔ ایک چیز ہوتی ہے فنون لطیفہ میں مشترکہ دلچسپی۔ اور اگر یہ دونوں مل جائیں تو ایک چیز پیدا ہوتی ہے جسے کہتے ہیں پلاٹونک لو۔ جو محبت کی اعلیٰ اور ارفع اور پاکیزہ قسم ہوتی ہے۔ لیکچر ابھی جاری تھا کہ جہاز لینڈ کر گیا۔ سیڑھی لگ گئی اور مسافر اترنے لگے۔

دھلے دھلائے سرسبز و شاداب ائر پورٹ پر بارش کے بعد کی خوشگوار دھوپ پھیلی ہوئی تھی اور جس امتحان سے ہم گزر کر آئے تھے اس کے بارے میں کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹارمیک پہ پہنچ کر گیلانی نے بائیں ہاتھ سے میرا بازو پکڑ لیا اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے آگے کی طرف لے چلے۔ انجن بند ہو چکا تھا لیکن پنکھا ابھی تک گھوم رہا تھا اس سے بچتے بچاتے آگے پہنچے تو پائلٹ اور کو پائلٹ پسینے میں شرابور مگرخوش اور مطمئن کھڑے تھے۔

میں گھبرا گیا کہ اب شاہ صاحب اس نہلے پائلٹ کی کلاس لیں گے اور جہاز اڑانے کے عمدہ طریقوں پر روشنی ڈالیں گے۔ میں نے ادھر ادھردیکھا کہ بازو چھڑا کر کس طرف بھاگوں مگر ابھی تک گھومتے ہوئے پنکھوں نے ارادہ پست کر دیا۔ اتنے میں شاہ صاحب نے میرا بازو چھوڑا اور پائلٹ کی طرف لپکے اور دوڑ کر اسے گلے لگایا۔ پائلٹ بھی اس ناگہانی حملے سے پہلے گھبرایا پھر خوش دکھا۔ شاہ صاحب نے معانقے کے بعد اسے شرف دست بوسی بخشا اور فرمانے لگے ویلڈن ینگ مین یو میڈ ہسٹری ٹوڈے۔

اور بھی کچھ تعریفی کلمات کہے۔ ہماری حیرانی خوشی اور قدرے ایمبیرسمنٹ کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پائلٹ شاہ صاحب سے کم از کم دس سال بڑا دکھ رہا تھا۔ لیکن جب اس کی طرف سے کوئی پروٹسٹ نہ ہوا بلکہ تعریفی جملوں کو خوشی اور خوش دلی سے قبول کیا گیا تو ہم نے بھی اچھا یہی جانا کہ شاہ صاحب کی پیروی میں اپنے محسنوں سے گلے مل لیں۔ اور شاہ صاحب تو خوشی سے بے حال ہو رہے تھے چنانچہ خوب بھینچ بھینچ کر پائلٹوں سے الوداعی اور شکرگزاری کا معانقہ کیا۔ اور شکریہ کے ساتھ تعریفیں بھی خوب کیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ سارے عملے سے جو اس دوران وہاں اکٹھا ہو گیا تھا گلے مل لیں۔

May Allah shower His immense bounties upon us all. Amen


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).