گوادر کی ڈائری۔ ہنگلاج کے پہاڑ اور نانی مندر


گوادر میں ایک سال قیام کے دوران اکثر نانی مندر کا تذکرہ سنا جو ہنگلاج کے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ مندر انتہائی قدیم ہے اور دنیا بھر کے ہندوؤں کی ایک اہم عبادت گاہ ہے۔ ہر سال میں اپریل میں یہاں ایک میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر کے ہندو شریک ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے ضلعے لسبیلا کے پہاڑی سلسلوں میں واقع نانی مندر اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہاں دریائے ہنگول یا ہنگول ندی پر واپڈا نے ایک ڈیم بنانے کا فیصلہ بھی کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مقامی ہندوؤں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ بھارت میں موجود چہار دام یاترا کی بھی وہ اہمیت نہیں ہے جو ہنگلاج یا ترا کی ہے۔ یہاں موجود گنیش اور کالی ماتا کے مندر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جبکہ کئی ایک چھوٹے چھوٹے مندر یہاں موجود ہیں۔ یہاں ہندو اپنے مذہبی جوش و جذبے کی تسکین کے لیے آتے ہیں اور مسلمان یہاں سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔

2014 میں جب سردیوں کی چھٹیوں کا آغاز ہوا تو میرے شوہر نے میس کے انچارج رشید سے بات کی کہ ہم کراچی واپس بس کے ذریعے نہیں جائیں گے بلکہ اس کی ہائی روف میں سفر کریں گے۔ جو خرچہ آئے گا وہ تمام مسافر مل کر برداشت کر لیں گے۔ ہمارے پاس سامان زیادہ تھا مگر بلوچستان گھومنے کی خواہش بھی تھی۔ بس یہ ہی سوچ کر ہم نے ہائی روف سے سفر کا آغاز کرنے کی حامی بھر لی۔ ہائی روف کے مسافروں میں، میرے شوہر عباس، میری بیٹی ارفع عباس، جی ڈی اے اسکول گوادر کی ایک لیکچرار جو یریہ صابر، اس کی والدہ ساجدہ آنٹی اور میس انچارج رشید شامل تھے۔ میں نے جی ڈی اے کی ایک اور لیکچرار کو بھی پیش کش کی تھی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ سفر کرے مگر اس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اس نے بس کے ٹکٹ بک کروا لیے ہیں اور وہ ہم لوگوں کے ایک دن بعد گوادر سے کراچی روانہ ہوگی۔

صبح 5 بجے ناشتے کے بعد ہم نے دسمبر کی چھٹیوں کا اعلان ہوتے ہی سفر کا آغاز کیا۔ جی ڈی اے ہائر پبلک اسکول کی باؤنڈری وال کے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی اور تمام اساتذہ ہمیں دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ ہم ہائی روف سے کراچی جا رہے ہیں۔ رشید کی ہائی روف میں ایل سی ڈی لگی ہوئی تھی اور وہ ایس ڈی کارڈ سے اس ایل سی ڈی پر ابتدا میں قرآنی آیات کی ویڈیوز چلاتا رہا۔ جیسے ہی صبح کی سپیدی ظاہر ہونا شروع ہوئی اس نے مشہور گانوں کی ویڈیوز چلانی شروع کر دیں۔ رشید شادی شدہ تھا اور چار بیٹوں کا باپ تھا اس کی بیوی اس کے والدین کے ساتھ بیلا میں رہتی تھی۔ وہ گوادر پولیس میں ملازم تھا۔ جی ڈی اے اسکول کامیس کم پیسوں میں چلا رہا تھا۔ جب کبھی کسی استاد کو کسی بھی کام کی ضرورت ہوتی اسے فون یا ایس ایم ایس کر دیتے اور وہ کام سر انجام پا جاتا۔

سفر کے دوران ہم نے کوسٹل ہائی وے پر جگہ جگہ رک کر تصاویر بنوائیں، کوسٹل ہائی وے کی چڑھائی پر اتر کر بل کھاتی ہوئی سڑک کا مشاہدہ کیا، پہاڑوں پر موجود بارہ سنگھے اور دیگر جانوروں کو بھی قلانچیں بھرتے ہوئے دیکھا۔ ہنگول نیشنل پارک کے درمیان جگہ جگہ یہ بورڈ آویزاں تھے کہ ”یہاں شکار کرنا منع ہے“ ۔ ہنگول نیشنل پارک بلوچستان کے جنوب میں تین اضلاع آواران، گوادر اور لسبیلا کے پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک محفوظ مقام ہے۔

ان ہی پہاڑی سلسلوں میں دریائے ہنگول بھی گزرتا ہے ہنگلاج یاترا پر آنے والے ہندو اس دریا سے اشنان کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ کراچی سے نوے کلو میٹر کے فاصلے پر بلوچستان کے پہاڑوں پر ایک شہزادی کا مجسمہ موجود ہے جو شاہی لباس پہنے ہوئے کھڑی ہوئی ہے۔ اس مجسمے کا نام ”پرنس آف ہوپ“ انجلینا جولی نے اس وقت تجویز کیا تھا جب وہ پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھیں۔ اس سے قبل اس مجسمے کی بابت کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہ مجسمہ کسی انسان نے تعمیر نہیں کیا ہے بلکہ یہاں مٹی کے چھوٹے چھوٹے پہاڑ موجود ہیں جہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں سالہا سال چلنے والی ہواؤں کے طفیل قدرتی طور پر یہ مجسمہ تخلیق ہو گیا۔ اس مجسمے کو دیکھ کر واقعی قدرت کی صناعی کی داد دینے کا دل چاہتا ہے۔

یہ سفر بہت خوبصورت اور تھکا دینے والا تھا۔ رشید نے ہمیں کئی جگہ گھمایا۔ جب ہنگلاج کے پہاڑوں میں نانی مندر کا علاقہ شروع ہوا تو اس نے گاڑی دریائے ہنگول اور نانی مندر کی طرف موڑ لی۔ کوسٹل ہائی کے ایک مقام پر محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ اس وقت میرے شوہر عباس اور جویریہ صابر اور رشید پہاڑوں کی کھوہ میں موجود اس مندر کو دیکھنے کے لیے دل و جان سے تیار تھے، ساجدہ آنٹی کی طبیعت بھی مہم جوئی پر مائل تھی۔

کوسٹل ہائی وے سے دریائے ہنگول والی سڑک پر رشید نے جیسے ہی گاڑی موڑی تو اس سمت پہاڑوں کے عجیب و غریب سلسلے دیکھنے کو ملے۔ ان پہاڑوں کی ساخت کچھ عجیب و غریب تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی جادو گر نے ان پہاڑوں کو جادوئی عمل سے تخلیق کیا ہے۔ یہ پہاڑ پگھلتی ہوئی موم بتی کے آنسوؤں کی شکل میں تھے۔ جیسے موم بتی پگھلتی ہے تو اس کاموم آنسوؤں کی صورت میں پگھل کر اس کے اردگرد جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان پہاڑوں پر موجود لمبی لمبی چٹانیں موم بتی کے آنسوؤں کی مانند محسوس ہو رہی تھیں۔

بیچ میں گاڑی ایک پل پر سے بھی گزری۔ کافی اندر جا کر نانی مندر کا سلسلہ شروع ہوا۔ نانی مندر کے احاطے میں گاڑی جا کر رکی تو رشید بے انتہا پر جوش تھا وہ یہاں اس سے قبل بھی آ چکا تھا۔ میری دو سالہ بیٹی ارفع عباس اس وقت میری گود میں سو رہی تھی جیسے ہی میں اسے لے کر میں گاڑی سے اتری، اس کی اچانک آنکھ کھل گئی اور وہ کہنے لگی۔ ”اماں ہم تو نماز پڑھتے ہیں نا۔“ اس نے یہ جملہ اتنی بلند آواز میں کہا کہ ساجدہ آنٹی اور میں اندر تک ہل کر رہ گئے۔

مندر کے احاطے میں قدم رکھتے ہی میرے شوہر کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ اس جگہ ایک مندر نہ تھا بلکہ کئی ایک مندر تھے۔ شادی کا مندر الگ تھا۔ کالی ماتا کا الگ اور دیگر اہم مورتیاں بڑے نانی مندر میں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے وہاں موجود پجاریوں نے تیز تیز اشلوک پڑھنا شروع کر دیے حتیٰ کہ ہم بڑے مندر تک پہنچے بھی نہ تھے کہ ہماری حالت خراب ہونے لگی۔ اور بالا آخر میں نے مندر کے اندر جانے سے انکار کر دیا اور اپنے شوہر سے کہا کہ واپس چلیں ورنہ میرا دل بند ہو جائے گا۔

ان کی طبعیت بھی خراب ہو رہی تھی ہم نے فوراً واپسی کا قصد کیا جس وقت ہماری گاڑی ہنگلاج کے پہاڑوں کے پاس سے گزر رہی تھی میرا دل چاہ رہا تھا کہ کوئی جادو کی چھڑی ہوا اور ہم لمحوں میں ہنگلاج سے نکل جائیں۔ ہنگلاج مندر سے واپس کوسٹل ہائی وے پہنچنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگا، نجانے کیوں یہ سفر طویل ہو گیا تھا۔ میں آج بھی اگر اس ہنگلاج یاترا کا تصور کرتی ہوں تو میری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے اور وہ خاص قسم کی بو یاد آنے لگتی ہے جو مندر کے درو دیوار سے اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments