یہ وہ اگلا خدشہ ہے جس پہ رب جانے کیوں یقین کر لینے کو دل کرتا ہے۔ میری جان کچی عمر میں محبت نہیں ہوتی، یہ بھی سن رکھا ہے۔ ہمیں تب بھی خدشہ تھا محبت ظالم کا کیا ہے ہر عمر میں بنا رنگ و نسل کی تفریق ہو جاتی ہے، اس کے بعد محبوب ملے نہ ملے، شوہر یا بیوی مل جاتے ہیں۔ محبوب کی تو ویسے ہی مویویوں نے عزت ہی گرا دی ہی، کہاں خسرو و میر کے محبوب اور کہاں آج کے ”محبوب آپ کے قدموں میں“

اجی دل کی جل کر رہ جاتا ہے۔ موزوں کی بو کا سوچ کر لیکن بحیثیت عورت تو جنت بھی ہمارے قدموں میں ہی ہے۔ محبو ب کے لئے بری جگہ نہیں
لیکن شوہر کی جگہ کہاں گئی؟
چلو پھر بیچ دیتے ہیں۔
ابے پاگل ہو گئے تم شوہر بھی کوئی بیچتا ہے۔
”جن“ ہنس پڑا
”بی بی ہر خواب کی قیمت ہوتی ہے۔ تمہارے خواب کی یہی قیمت ہے“
چلو تو بیچ دو۔ مگر قسطوں پہ بیچنا، پہلے والوں کی طرح۔
جو حکم میرے آقا
جن قہقہہ لگاتے ہوئے غائب ہو گیا۔ ایک دھواں سا رہ گیا۔

اک گیت یاد آ گیا ”یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے“
تب خیال آیا ان سب باتوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شوہر برائے فروخت ہے۔ ہینڈسم ہے۔ قیمت بھی مناسب لگ جائے گی۔ اب اس کا کرنا بھی کیا ہے مگر نئی کابینہ کے صفائیاں دینے لے لئے رکھا جا سکتا ہے۔ قسطوں کا کام ہے۔ لیکن گھر والی نے سوچا پہلے اس کی چیزوں کی بولی لگوا لینی چاہیے۔

اس نے پھ چراغ والے جن کو حاضر کیا

وہ قہقہہ لگاتے بولا میں ابھی گیا نہیں تھا۔ بی بی آپ کی روحانی سوچ کی خبر ہے مجھے۔ اسے بڑی بات یہ ہے کہ یہ پہلی قسط ہے۔
جن ہنستے ہوئے پھر غائب ہو گیا۔

وہ اتراتی اتراتی اٹھی۔ اس کا اترانا بنتا تھا اس نے شادی کے سب فلسفے پار کروا دیے ہوئے تھے۔ اس کی دیکھا دیکھی چیونٹیوں کو بھی پر لگ گئے تھے۔

اب شوہر پرش میں بیوی سے ڈرنے لگے ہیں۔ آخری شادی کے بعد کی بات ہے۔ اس نے گھر والے کی کپڑوں کی الماری چیک کی تو موریوں والے کپڑے دیکھتے ہی حیران رہ گئی۔ لیکن پھر خیال آیا اگر امیر سوتن نے اسے ”موری موری“ کر رکھا ہے تو اس میں بھید ہو گا۔ اتنے میں جن حاضر ہو گیا

اجی کیا بتائیے

موریوں والے کپڑے الماری میں رکھیں، بہت قیمتی ہیں۔ دوسرے سب کپڑے نکال کر ”کپڑیاں توں جوتیاں لے لو“ والے کو دے دینے ہیں۔

گھر والی سمجھ گئی بھئی بہت سیانی تھی۔ اٹھائے کپڑے اوربیچ کر جوتے خرید لئے۔

یہ جوتے کوئی عام جوتے نہیں تھے سرکار ”باہر والے جوتے تھے۔“ جو ایچ نائن میں ملتے ہیں۔ یہ وہ والے جوتے تھے جو ٹی وی پہ دکھا دکھا کر لوگ ایک گھنٹے والا ڈراما کرتے ہیں ”۔

اجی ہمیں ابا محروم یاد آ گئے جی

ابا حضور کے پاس ایک گھڑی تھی۔ کہتے تھے بیٹا یہ تاریخی گھڑی ہے۔ ہمیں تو ابا جانی کی بات سمجھ نہیں آتی تھی کیا سنبھال سنبھال رکھا کئے ہیں ایک گھڑی ہی تو ہے۔ جوان ہوئے تو پتا لگا ایک ریاست ہوا کرتی تھی۔ اس جوتی کی نوک پہ، ہائے وہی جوتی جو گھر والی ایچ نائین کے اتوار بازار سے خرید کے لائی تھی۔ اس گھڑی پہ اس ریاست کا نام لکھا ہوا تھا۔ اب اس ریاست کا نام بھی تاریخ کی کتابوں میں رہ گیا ہے تو گھڑی نایاب ہوئی ہے مگر مجال ہے جو ابا نے کبھی تصور کیا ہو گھڑی بیچ کر گھر کے باہر کی سڑک ٹھیک کرواتے اور مجال ہے تو گھر والی کو پتا بھی ہو کہ اس گھڑی کی قیمت کیا ہے

کیسی سادہ گھر والیاں ہوا کرتی تھیں نان ڈیجیٹل

یہ تو ابا کے بعد اب گھڑیوں کا کام شروع ہوا ہے تو گھر والی کو پتا لگا ہے شوہر کی تو چیزوں کی بھی بہت قیمت ہے۔ اجی یونہی بدنام کیے دیتے ہو ہر عورت کو پیسے سے پیار ہوتا ہے

اجی نہیں
صرف خاص عورت کو پیسے سے پیار ہوتا ہے وہ پھر نہ موری دیکھتی ہے، نہ موری کے اندر کا سیوریج سسٹم۔

اسے پتا ہوتا ہے موریوں کی خیر ہے جب تک گوگیت اور ریاضیت والے ٹھیکے داری کر رہے ہیں۔ وہ سستے داموں موریوں پہ بھی سلیبیں ڈلوا دے گی۔

اس سب کے لئے جس دل و دماغ کی ضرورت تھی یہ کڑوا سچ ہے جو سوتن اول اورسوتن دوم کے پاس تو بالکل بھی نہیں تھی سوتن سوم بھی کوئی اتنی سیانی اور دل والی نہیں تھی جتنا وہ خود کو سمجھتی ہے۔ سوتن تو سوتن ہوتی ہے سہی نہ جاوے تو گھر والی چپ چپ ہی رہتی تھی کہ اس کی باوری عمریا میں پتا چل چکا ہوتا ہے کہ چپ رہنے سے بندا صاحب علم و دانش اور پاکیزہ ڈایجسٹ لگتا ہے۔

جوانی بھی کیا ظالم شے ہے۔ مستانی ڈایجسٹی کر دیتی ہے۔ اس نے بھی جوانی میں ایک قسط وار ناول پڑھتے ہوئے سوچ لیا تھا کہ وہ ایک بہت پاکیزہ عورت بنے گی اور کسی ملک کی ملکہ بن کر جاہلوں پر راج کرے گی۔ بادشاہت جہالت کی زمین پہ ہوتی ہے۔ سیانی تو وہ بہت تھی۔ اجی دنیا بڑی ظالم ہے صاحب سیانے کو چالاک کہتی ہے۔ وہ ایسی سوچوں سے بھی پاک تھی۔ مگر اس ناول میں ایسی ریاست کے بادشاہ ہو پانے کے لئے تمام کابینہ کا تین تین بار شادی شدہ ہونا لازمی تھا۔ تجربے کی بھٹی پہ پکے ہوئے لوگ ہی حکومت کر سکتے ہیں۔

اس لئے اس نے سب سے پہلے تو سہیلی سے مل کر اس مشن پہ کام شروع کیا۔

سہیلی بھی کوئی عام عورت نہیں تھی۔ پہنچی ہوئی ہستی تھی۔ ظالم نے دل و جان سے ساتھ دیا۔ سہیلی ہو تو ایسی ہو ورنہ نہ ہو۔ اجی تقابل یا حسد تو تب ہوتا ہے جب کچھ کے پاس ہو، کچھ کے پاس نہیں۔ اس سکیم میں سب برابر کے شریک تھے۔ اس لئے نہ کوئی حاسد تھا، نہ کسی کی نظر بد تھی، نہ ہی نیت خراب تھی۔

الہی! یہ کیا ہو گیا۔ ہائے وہ ایچ نائین کے بازار میں جو آگ لگی ہے معلوم ہوا ہے حسینہ کہ میری جان کے کپڑے جو بیچ کر جوتیاں خریدی تھیں۔ وہ وہاں پہنچ گئے تھے۔ میری سوتن کی نشانیاں جل گئیں

اس نے ایک کمینہ سا شکر ادا کیا
الہی تو کتنا بے نیاز ہے۔
وہ اپنے چراغ کے جن سے باتیں کر رہی تھی۔

اچانک خیال آیا یہ گھڑیاں گھر والا کیا کرے گا۔ اس کی گھڑی تو بند ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں۔ ان گھڑیوں کو بھی فروخت کر دیتے ہیں۔ بولی اچھی لگ جاتی تھی۔ تجربہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

ہائے
مگر اس بار یہ چراغ کا جن پتا نہیں کہاں سیر کرنے گیا ہو ا تھا۔
وہ پریشان پھر رہی تھی کہ گھر والا آ گیا۔
گھر والی کے منہ پہ بارہ بجے دیکھ کر وہ سمجھ گیا کوئی غیر معمولی بات ہے۔
اچانک چراغ کا جن ظاہر ہوا اور گھر والے میں گھس گیا۔
گھر والی اس کی شرارت دیکھ رہی تھی مگر گھر والے کے سامنے نہیں کہہ سکتی تھی۔
گھر والی کا بھائی کمرے میں داخل ہوا اس میں بھی جن نے داخل ہو کر شرارت کی
”باجی آپ کے منہ پہ بارہ بج کر، گھڑی کیوں بند کیوں ہو گئی ہے؟“
جن فوری نکل کر گھر والی میں داخل ہو گیا۔ جن تھا انسان تو نہیں تھا۔ مرضی کا مالک تھا۔
”میری گھڑی پہ بارہ نہیں بجے، وہ بارہ بجی گھڑی آپ کے گھر سے ہی آئی تھی“
اور جن صاحب بھی آج سے نیوٹرل ہو گئے۔
جن پہ ملکی سیاست کا جادو چل گیا تھا۔ ہائے رام

گھڑی تاریخی تھی پکڑی گئی گھر کے سب گھڑیال بند ہو گئے۔ وہ بادشاہ کی ملکہ بن کے اب واپس بوتل میں آ گئی ہے۔ مگر پراعتماد ہے۔ خواب پورا ہو گیا ہے۔ ایک گھڑیال ہر گھنٹے بعد زور سے ٹن کر دیتا ہے۔ جس کی آواز آدھے شہر کو جاتی ہے۔
اسے ٹن کی آواز بھی نہیں آتی۔
دلیر شہر ہے ہنس پڑتا ہے۔
لو ایک گھڑی اور پکڑی گئی
ٹن، خبر فیک ہے۔ ٹن
ٹن ٹن ٹن

نگوڑ ماری الو برائے فروخت ہے دیکھے گی اور بڑے گھر کی کہانیاں پڑھے گی تو ایسے منحوس خواب ہی دیکھے گی۔ اس کی بڑی بہن بڑبڑا کر کروٹ لے کر سو گئی

(ادھوری کہانی اگر دل پہ زور سے لگے تو سمجھ جائے گا۔ فیک ہے اور جان بوجھ کے دشمنوں نے لیک کروائی ہے۔ ٹیسٹ کے لئے بھی اپنے خرچے پہ آپ بھیج دیجیئے گا)