بے چاری اردو اور ہم


کراچی کے اپنے ہی رنگ، موڈ اور موسم ہوتے ہیں۔ جب سارا ملک گرمی کی شدت سے جل بھن رہا ہوتا ہے تو یہاں بادل چھائے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو درجہ حرارت مری سے بھی کم ہوتا ہے۔ اب کہ سارا ملک جاڑا جاڑا کھیل رہا ہے تو کراچی میں صبح شام کی خوشگوار خنکی کا آغاز ہوا ہے۔ ایسی خنکی جو روح اور جسم کو بہت بھاتی ہے بار گراں نہیں گزرتی۔

یہ خنک موسم اور اختتام کی طرف بڑھتے سال کے آخری ماہ کراچی میں بڑے گرما گرم ہوتے ہیں۔ مختلف کلبوں کے انتخابات سر اٹھا رہے ہوتے ہیں ان کے لنچ ڈنر نے ایک ہنگامہ بپا کیا ہوتا ہے تو دوسری طرف کانفرنسیں، میلے ٹھیلے، اسلحہ سے لے کر کتابوں تک کی نمائشیں اور شادیاں ہی شادیاں جن کو دیکھ کر لگتا ہے اب کے موسم کوئی کنوارا نہ رہے گا۔

نومبر کے آخری دنوں میں فرئیر ہال کے سوکھی گھاس اور سوکھے پتوں سے بھرے قطعات میں کچھ جان پڑ گئی کہ نیلے، پیلے، اودے رنگوں نے ادب فیسٹول کو مقام قبولیت دیا۔ بے چاری اردو! جس کے نام پر اتنے منڈوے سجتے ہیں، زبان سے وفاداری، پاسداری کو ثابت کرنے کے لئے ملک بھر سے وہی گنے چنے شعرا، ادیب، خطیب جمع ہوتے ہیں، لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں، غزلیں نظمیں سناتے ہیں، زبان سے وفاداری کے وعدے وید کیے جاتے ہیں، کچھ عصر حاضر کے زبان سے جڑے مسائل پر بات چیت ہوتی ہے، کتابوں کی دکانیں لگتی ہیں، کچھ رونمائی کی تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں۔

یہی نہیں کتابیں لکھنے والوں کے ساتھ بھی گفت و شنید کی نشستیں ہوتی ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ کتابوں کو لکھے، پڑھے زمانے گزر چکے ہوں۔

جیسے اعتزاز احسن کی ستر کی دہائی میں انگریزی زبان میں لکھی گئی INDUS SAGA اور وسعت اللہ خان کی 2010 کے سیلابی پس منظر میں لکھی سیلابی کہانیاں۔

اعتزاز احسن کی کتاب پر گفتگو کا سننے والوں کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ سرزمین انڈس سے تعلق رکھنے والے جانور بیل اور اونٹ ہیں۔ بیل کھیتی باڑی سے لے کر بار برداری تک ہر کام میں آتا ہے اور اپنے پیروں یا کھروں کی ایک خصوصیت کے سبب بارشوں اور میدانی علاقوں کے لئے بہترین جانور ہے۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ گھوڑا اس علاقے کا جانور نہیں یہ اس خطے میں آنے والے مغل شہزادوں کا تحفہ ہے جو وہ اپنے ساتھ لائے اور بہت ساری نشانیوں کے ساتھ اسے بھی اس سر زمین میں چھوڑ گئے۔

دو دن کے اس فیسٹیول میں اور بھی بہت سی کتب اور شخصیات پر گفتگو ہوتی رہی۔ اور ثابت یہ ہوا کہ آپ کی پی آر اچھی ہو تو کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

کراچی کا دامن جیسے لوگوں کو سمونے اور سمیٹنے کے لئے بہت وسیع ہے ایسے ہی محفلوں کے سلسلے میں بھی بڑا فراخ دل ہے۔ ڈھائی تین کروڑ کے شہر میں سے پانچ دس ہزار لوگوں کا کسی بھی پروگرام میں آنا جانا کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی۔ اس دو دن کے ادب فیسٹیول میں صبح کے گیارہ بجے سے رات کے نو بجے تک دس پندرہ ہزار لوگ تو آئے گئے ہی ہوں گے۔

فیسٹیول کا انعقاد کیوں کے ایک عوامی مقام پر کیا گیا تھا سو اس کا مزاج بھی تمام وقت عوامی ہی رہا اور ہر رنگ، نسل، زبان، علاقے کے لوگ آتے جاتے رہے۔ ان میں پیشہ ور مانگنے والوں سے لے کر جوتے پالش کروا لو، بچوں کے لئے کتابیں، پنسلیں لے لو میں آٹا خرید لوں گا، رضائی لے لوں گا، خریدتے نہیں ہو تو چٹ پٹے چھولے ہی کھا لو یہ بھی نہیں تو ٹھنڈی میٹھی آئس کریم ہی لے لو وغیرہ وغیرہ۔

ایک رونق میلہ تھا اس رونق میلے کے آخری دن، آخری گھنٹوں میں جب عارفہ سید اپنے مخصوص انداز میں زندگی گزارنے کا فلسفہ سمجھا رہی تھیں تو کرسیوں کی لبالب بھری صفوں کے پچھواڑے میں سوکھی گھاس پر چادریں بچھائے پاکستانی مستقبل کے رکھوالے نوجوانوں کا ایک گروپ جوا کھیل رہا تھا تو دوسرا سگریٹ بھر رہا تھا۔

ان دو دنوں میں کچھ ساز و سر کی محفلوں کا انعقاد بھی ہوا۔

اس سب کے باوجود اردو زبان کی تاریخ میں یہ بات ہمیشہ زندہ رہے گی کہ اردو زبان کے نام پر ہونے والے ان تمام میلوں، ٹھیلوں، کانفرنسوں کا آغاز اس صدی کے ابتدائی سالوں میں آکسفورڈ پریس کی سر پرستی میں اس وقت کی مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید اور ان کے ہم نواؤں نے کیا تھا۔ اور بہت خوب کیا تھا، انڈو پاکستان کی کیسی کیسی قد آور شخصیات نے شرکت کی اردو زبان سے محبت کرنے والوں کو خوب یاد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments