سوز کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟


سوز بنیادی پر ایک چنگاری کا نام ہے جو انسان کو تجسس اور جستجو پر اکسائے رکھتی ہے۔ سوز ہی انسان کی محنت اور آگے بڑھنے کی خواہش کے پیچھے کارفرما قوت ہے، سوز ہمیشہ تکالیف اور ناکامیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر انسان کچھ خواہشیں پالے اور انہیں حاصل نہ کرسکے تو اس کا نتیجہ سوز کی صورت سامنے آئے گا، اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ سوز کو درد بنا لے یا راہنما، درد فقط رونے دھونے کے کام آئے گا اور سوز آگے بڑھنے کے۔ سوز انسان کے لیے ایسے کام کرتا ہے کہ جیسے راکٹ کے اوپر اٹھنے میں اس میں موجود گیس۔

جیسا میر متقی  نے اپنے بیٹے میر تقی میر کو نصیحت کی تھی ”بیٹے عشق اختیار کر“

اس طرح میں اپنے طلباء اور دوستوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں ”یارو تکالیف برداشت کرو اور ناکامیاں دیکھو، سوز ملے گا“

طلباء سے یہ بے تکلفی اختیار کرنے کی وجہ ان کو تعلیمی معیار میں کم زور رکھنے کی نہیں بلکہ اس اعتماد دینے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بچے جن کو سننے اور سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا وہ سیدھا آ کر اپنے معلم سے ساری باتیں کرسکیں اور ان کا کماحقہ حل لے کر جاسکیں۔ میرے تدریسی تجربے کے دوران کئی ایسے طلباء ملے جنہیں سمجھا نہیں گیا ورنہ وہ ملک و ملت کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتے تھے، جب میں نے انہیں یہ اختیار دیا کہ وہ استاد کو کوئی بھی ذاتی بات بتا سکتے ہیں تو ان کے اندر اعتماد پیدا ہوا جس نے ان کی تعلیمی کارکردگی میں بھی بہتری آئی اور وہ کئی مسائل سے بھی بچ گئے۔

ہمارے ہاں بہت سے بچے ایسے مسائل کا شکار ہیں جن کا وہ کسی سے ذکر نہیں کر سکتے اور ہمارے والدین انہیں اتنا بے تکلفی کا ماحول فراہم ہی نہیں کرتے کہ وہ ایسے مسائل کسی اشارے کی صورت ہی ان تک پہنچا سکیں۔ میں ایک عام سی مثال سے یہ بات واضح کروں گا کہ ہمارے طلباء چھوٹی عمر میں محبت اور چاہت جیسے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ مکمل طور پر فطری بات ہے لیکن اسے اتنا قابل نفرت بنا دیا گیا ہے کہ کوئی اس کا ذکر اپنے خاندان میں کر ہی نہیں سکتا، اساتذہ نے تو ویسے بھی احترام کے نام پر بچوں کو خوفزدہ کیا ہوتا ہے، ایسے میں پھر بچے ایسے مسائل اپنے کم عمر اور نادان دوستوں کو بتاتے ہیں جو کہ خود نابالغ اور ناسمجھ ہونے کے باعث اس بچے کی نہ صرف تشفی نہیں کرا پاتے بلکہ اکثر اوقات بچے کو غلط مشوروں کے ذریعے مزید بگاڑ دیتے ہیں۔

اس طرح کے کئی مسائل ہیں جن کو لے کر بچے اتنا خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قریبی اور قابل بھروسا لوگوں سے ذکر کی بجائے نادان مگر بظاہر مشفق لوگوں سے کرتے ہیں جس وجہ سے اکثر اوقات انہیں غلط مشوروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچے کو خاندان اور اسکول کی طرف سے یہ تعلیم دی جانی چاہیے کہ اس کی زندگی کے تجربات ناگزیر ہیں لیکن وہ ان تجربات کے دوران درست راہ اختیار کرے، سوز اور تجربہ اس کے لیے ہر موڑ پر اہم ترین ہیں لیکن اس کے زندگی میں لیے گئے فیصلوں کا اثر اس کی بقیہ زندگی پر ہمیشہ پڑے گا، اس وجہ سے کسی بچکانہ فیصلے سے پہلے وہ اپنے خاندان یا انتہائی سطح پر اپنے اساتذہ سے ضرور مشورہ کرے۔ خاندان کے افراد اور اساتذہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچے پر دشنام طرازی اور غصہ کرنے کی بجائے اس کو ان احساسات و جذبات کا درست استعمال بتائیں جس سے نہ صرف ان کی تشفی ہو بلکہ ان کے یہ قیمتی جذبات بھی درست ڈگر پر استعمال ہو سکیں۔

بچوں کو یہ شعور دیں کہ سوز ان کی تیسری آنکھ ہے جو ان کو مستقبل کی خبر دے گی، جو حال میں ان کو درست غلط کی پہچان دے گی اور جو ماضی کی کوتاہیوں پر بجائے وقت ضائع کرنے وہ ایک تجربے کے طور پر لینے کی طاقت فراہم کرے گی۔ بچوں کو اس تیسری آنکھ کا درست استعمال کرنا سکھائیں، ایسا نہ ہو کہ وہ پہلے سے موجود دو آنکھوں سے بھی درست طور پر نہ دیکھ سکیں۔ بچوں کو دوست بنائیں اور دوست تو بھلائی کا کام کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments