میری پہلی محبت، میرا شہر کراچی


کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت اور پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز ہے جہاں اک دنیا آباد ہے پاکستان کا جدید شہر کراچی اپنی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کی جدید اور خوبصورت عمارتوں کے درمیان کہیں کہیں کہن سالہ، پرانی اور قدیم عمارتیں آج بھی فخر سے کھڑی ہیں، تو کہیں یہ قدیم عمارتیں ایک بھولی بسری داستان بن جانے کو تیار ہیں۔ ان قدیم عمارتوں کے ساتھ کراچی کی ایک پوری تاریخ وابستہ ہے۔

انیسویں صدی میں انگریزوں نے کراچی کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ کراچی کی بہت سی مشہور عمارات انگریزوں کے طرز تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کراچی کی شان و شوکت صدر، کلفٹن، بندر روڈ، بولٹن مارکیٹ، کھارادر پر پتھروں سے بنی یہ ہی قدیم عمارتیں ہیں۔ کراچی کی اصل خوبصورتی ریڈیو پاکستان سے لے کر ٹاور تک جانے والی سڑک جو پہلے بندر روڈ کہلاتی ہے اس کے اطراف میں نظر آتی ہے جہاں کراچی کے پرانے شاپنگ سینٹر جامعہ کلاتھ مارکیٹ کی عمارت موجود ہے جس کے نقوش وقت کے ساتھ دھندلا رہے ہیں

اس علاقہ میں قدیم مندر بھی پائے جاتے ہیں، جامعہ کلاتھ سے آگے جائیں تو سٹی کورٹ کی پر شکوہ عمارت ایک شان سے کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں کی گلیوں نے جدیدیت کے ساتھ ایک قدیم دور بھی دیکھا ہے جب کراچی میں تانگے چلتے تھے اور ٹرام کے اسٹیشن ہوا کرتے تھے جن کی پٹریوں کے جال صدر کے وسط میں پھیلے ہوئے تھے اور اس وقت یہ آلودگی سے پاک ایک خوبصورت شہر تھا جبکہ آج کا کراچی دنیا کے ان جدید شہروں میں سے ایک شہر، جہاں رات میں زندگی جاگتی ہے، جس کے چائے خانے دنیا میں اس کی پہچان ہیں، جہاں لنگر خانوں کی اتنی کثرت ہے کہ شاید ہی کوئی غریب بھوکا سوتا ہو۔ کراچی کی وجہ شہرت اس کا دور تک پھیلا سمندر بھی ہے۔ جہاں کبھی بحری جہازوں کے ذریعے سفر کیا جاتا تھا۔ کراچی، پاکستان کا ایک ایسا شہر جہاں ہر قوم، ہر مذہب اور ہر مسلک کا فرد آباد ہے کراچی مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا

کراچی میرا پہلا پیار جس کے سحر نے آج تک مجھے اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے کراچی ایک طلسماتی شہر جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

مجھے یاد ہے اسی کی دہائی کا آخر تھا جب کراچی کے امن و امان کو سبوتاژ کرنے کے لیے لسانیت فروغ پا چکی تھی اور آہستہ آہستہ بڑھتی دہشت گردی اس شہر کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی مگر پھر بھی اپنے گھروں سے اسکول، کالج، یونیورسٹی جانے والی لڑکیاں بلا خوف خطر منی بسوں میں سفر کیا کرتی تھیں اور یہ بس اسٹاپ صبح سات بجے ہی آباد ہو جایا کرتے تھے جہاں مختلف اداروں کے طلباء کے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین و حضرات بھی نظر آتے۔ یہ تاریخی بس اسٹاپ ڈیٹ پوائنٹ بھی ہوا کرتے تھے جہاں گزرتا ہوا کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ہاتھ میں خط تھما جایا کرتا جسے وہ سب سے چھپا کر اپنے بیگ میں ڈال لیا کرتی اور یہ منظر دیکھتی دوسری لڑکیاں کنکھیوں سے ایک دوسرے کو اشارے کیا کرتیں۔

مجھے آج بھی اپنی ہم سفر وہ دبلی پتلی سی نرس یاد ہے جس سے میں بات ضرور کرتی مگر کبھی اس کا نام نہ پوچھا وہ میرے لئے ہمیشہ ایک اجنبی مسافر رہی جس کا اصل ہم سفر تو وہ گھنگھریالے بالوں والا لمبا سا لڑکا تھا جو ہمارے دو اسٹاپ کے بعد بس میں سوار ہوتا جسے دیکھتے ہی اس نرس کی سانولی رنگت کھل جاتی۔ وہ لڑکا بس کے اندر داخل ہوتے ہی مردانہ اور زنانہ حصہ کو الگ کرتی جالی کے دروازے سے لگ کر کھڑا ہو جاتا۔ کنڈکٹر ایک نظر آس مرد پر ڈال کر نرس کی جانب دیکھتا اور مسکراتے ہوئے بس کے بیرونی حصے پر زور دار تھپڑ لگا کر آواز لگاتا

جانے دو استاد، ڈبل ہے
صدر، صدر

یہ وہ مخصوص جملے تھے جو ہر اسٹاپ پر وہ تواتر سے دہراتا۔ نرس اس اجنبی مرد سے باتوں میں مصروف ہو جاتی لیکن میں نے کبھی نہ سنا کہ وہ دونوں آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں کیونکہ میں کھڑکی کے پاس بیٹھتی ہی اس لئے تھی کہ صبح سویرے نظر آتے ان دلکش مناظر کو اپنی آنکھوں کے راستہ دل میں اتار سکوں جب دوران سفر کراچی میں پھل دار درخت نظر آیا کرتے تھے جن میں گوندنی کا پودا بھی ہوتا تھا۔ سی ایس ڈی کینٹین جو اپنے دور میں کراچی کی واحد سپر مارکیٹ ہونے کا اعزاز رکھتی تھی۔

یہاں سے کچھ پہلے سڑک کنارے زندہ پیر کی درگاہ ہے جس کے بارے میں مختلف روایات مشہور ہیں جہاں سے گزرتے ہوئے میں اس درگاہ کو نظرانداز کر کے اس کے پیچھے دکھائی دیتی ریل کی پٹریوں پر ایک نظر ڈالتی ہوں جہاں کھڑی ریل گاڑیاں دور سے ہی دکھائی دے رہی ہیں جن میں بیٹھے ہر مسافر کی یقیناً ایک الگ کہانی ہو گی۔ کسی کا یہ سفر خوشی کی علامت ہو گا اور کوئی اپنے دل میں غم چھپائے ایک منزل سے دوسری منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے سفر شرط ہے کیوں کہ کوئی بھی منزل آخر نہیں ہوتی۔ ہر سفر کی ایک نئی کہانی ہوتی ہے۔ یہاں اطراف میں بہت سے درخت بھی نظر آرہے ہیں جو صبح سویرے آنکھوں کو تراوٹ بخشتے ہیں۔ اب بس جناح اسپتال کے سامنے کھڑی ہے میری ہمسفر نرس اتر کر اسپتال کے بڑے سے گیٹ کے اندر غائب ہو چکی ہے جس کے ساتھ ہی بس میں بھنبھناہٹ کی آواز بڑھ گئی مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے بس کا ہر مسافر اس نرس اور اجنبی مرد کی گفتگو سننے میں محو تھا اور اب سب اپنی دنیا میں واپس آ گئے ہیں اس سوچ کے ساتھ ہی میں مسکرا دیتی ہوں جب میری نظر کھڑکی سے اس پار دکھائی دیتے فلیٹ کلب پر پڑتی ہے۔

بس اس کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ فلیٹ کلب کی بیرونی دیوار پر کسی اردو فلم کا سائن بورڈ دور سے ہی دکھائی دے رہا ہے جبکہ اس کے دوسری جانب عمر شریف کے کسی ڈرامہ کا بورڈ بھی لگا ہوا نظر رہا ہے۔ اب بس مین بوہری بازار میں داخل ہو گئی جہاں گھسیٹا خان حلیم فروش کے بالکل سامنے والی سڑک پر اس کا آخری سٹاپ ہے وہاں ایک، ایک کر کے تمام مسافر اتر گئے ہیں اپنی نئی منزل کو پانے کے لئے سب کا عارضی سفر یہاں تمام ہوا۔

(مشہور آرٹسٹ اور اچھے دوست امین گل جی کے کراچی بنالہ ایونٹ ( میموری روم ) کے لئے لکھی گئی خصوصی تحریر کا پہلا حصہ)

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments