رومانس یا پڑھائی


بہت سارے پاکستانی نوجوان باہر ممالک کا سوچتے ہی انگریزی فلموں جیسا ماحول ذہن میں لاتے ہیں کہ جلد ایک گوری گرل فرینڈ بنے گی۔ وہ اسی امید سے پوری محنت کر کے باہر پہنچتے ہیں، لیکن علم حاصل کرنے نہیں، بلکہ رومانس کی تلاش میں۔ یہ لوگ جب باہر پہنچ جاتے ہیں تو بہت مایوس ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ساوتھ ایشین بوتھی کو کوئی منہ نہیں لگاتا، اوپر سے یہ غریب اور ان کلچرڈ ہوتے ہیں، نہ شراب پیتے ہیں، نہ پینے کا ڈھنگ جانتے ہیں اور نہ ہی اٹھنے بیٹھنے میں متاثر کن ہوتے ہیں۔

رومانس کی تلاش میں بھٹکتی ہوئی یہ شدید عاشق روحیں بہت جلد کسی غلط راستے پر چلتے نظر آ جاتی ہیں کیونکہ یہ بہت سالوں تک محنت اور سٹرگل کر کے زندگی بہتر کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں، ان کی امیدیں بہت زیادہ تھیں جو حقیقت میں پوری ہونا بہت مشکل ہیں۔ امید اور حقیقت کے درمیان فاصلہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ یہ لوگ برداشت نہیں کر پاتے اور غیر منطقی فیصلے کرنے لگتے ہیں، جس سے ان کی رہی سہی عزت اور ڈگنٹی بھی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔

میں نے اکثر پاکستانی مردوں سے یہ فقرہ سنا ہے

”پاکستانی مرد دنیا کے وجیہہ ترین مردوں میں شمار ہوتے ہیں اور گوریاں بہت مرتی ہیں ان پر “ پھر مثالیں دیتے ہیں کہ وسیم اکرم کو دیکھو، عمران خان کو دیکھو فلاں کو دیکھو۔ او بھائی وہ وسیم اکرم ہے، تم لالو کھیت کے غلام حسین ہو۔ تمہارا پیٹ نکلا ہوا ہے، تمہارے بال گر رہے ہیں، تم پچیس کی عمر میں پچاس کے لگتے ہو اور تمہارا بینک اکاؤنٹ اتنا خالی ہے کہ اس میں گاڑی پارک ہو سکتی ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی کی مسرت اور پروین تمہیں الو بنا کر کام نکلواتی رہی ہیں۔ محلے کی آنٹیاں تمہیں رشتہ نہیں دے رہیں تو ائرپورٹ پر ایک گوری آپ کا استقبال کر رہی ہو گی کا خواب آپ کو کس نے دکھایا ہے، موویز  نے؟ یا آپ کے خود فریبی ذہن نے؟

اس میں شک نہیں کہ فلموں اور ڈراموں سے بعض پاکستانی مردوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کہ غیر ملکی خواتین پاکستانی مردوں کی وجاہت کی دیوانی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک مثلاً کوریا یا آسٹریلیا امریکہ کی خواتین ہمیں بالکل اسی نگاہ سے دیکھتی ہیں جس طرح پاکستان میں ( معذرت کے ساتھ) افغانیوں کو دیکھا جاتا ہے۔ یعنی اپنے سے ایک درجہ کم اور آخری چوائس۔

اگر آپ باہر پڑھائی کے بہانے رومانس کی تلاش میں بیرون ملک جا رہے ہیں تو خدارا مت جائیں۔ پاکستان میں ہی کسی صبا کو ایزی لوڈ کروا دیں، کسی شمع کو خط لکھ لیں یا کسی شبانہ کے گھر رشتہ بھیج دیں۔ یہ آپ کے لیے بہت بہتر ہے۔ وطن عزیز میں آپ کے لیے محبت ڈھونڈنے کے بے شمار مواقع موجود ہیں اور یقین مانیے اگر آپ وطن میں بے فیض رہے ہیں تو پردیس میں بھی رومیو بننے کا مکان معدوم ہی سمجھیے۔

اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو رشتے والی آنٹی سے رجوع کریں۔ ایک اچھی سی گاڑی رینٹ پر لیں، مٹھائی کا ٹوکرا لیں اور پہنچ جائیں کسی کے گھر رشتہ لینے۔ کوئی نہ کوئی تو ترس کھا ہی لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments