بچے کی تعلیم و تربیت میں مادری زبان کا کردار


یونیسکو (UNESCO) کا کہنا ہے :

Eeducation in the mother tongue is a key factor for inclusion and quality learning, and it also improves learning outcomes and academic performance. This is crucial, especially in primary school to avoid knowledge gaps and increase the speed of learning and comprehension.

مذکورہ بالا تحقیق کا مفہوم یہ ہے کہ بہترین تعلیم و تربیت کے لیے مادری زبان کی وہی حیثیت ہے جو ایک چابی کی ہوتی ہے۔ یعنی بچے کا ذہن ایک تالے کی مانند ہوتا ہے اور اس کھولنے کی جس چابی کی ضرورت ہے اس چابی کا نام مادری زبان ہے۔ مادری زبان میں پڑھانے سے بچے کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ خصوصاً پرائمری سکولوں میں مادری زبان میں تعلیم دینے سے نہ صرف سلسلہ تعلم کی خامیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے بچے کے سیکھنے کی رفتار اور معیار کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔

االلہ تعالیٰ کی یہی سنت رہی ہے کہ اس نے جس قوم کی طرف بھی کوئی نبی بھیجا اسے اس قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی زبان وہی تھی جو اس قوم کی زبان تھی (سورت ابراہیم : 4) ۔ یعنی جب اللہ نے جب کسی قوم کی ہدایت اور تعلیم و تربیت کے لیے کسی رسول کو بھیجا تو اس کی زبان وہی تھی جو اس قوم کی زبان تھی۔ ایسا نہیں ہوا کہ اللہ اس نبی کو کسی اور زبان کے ساتھ بھیجتا اور پھر اس قوم کو پابند کرتا کہ پہلے اس نبی کی زبان سیکھو اور باقی سلسلہ اس کے بعد آگے بڑھے گا بلکہ جو بھی اس قوم کی زبان تھی وہی اس نبی مرسل کی زبان تھی تاکہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ اچھی طرح آگے بڑھ سکے۔

قرآن و حدیث میں ایک وسیع ذخیرہ تعلیم و تربیت میں مادری زبان کی اہمیت کی بابت موجود ہے لیکن اس کے باوجود میں نے اس کالم کی ابتدا یونیسکو کی تحقیق سے کی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شاید میں بھی احساس کمتری کا شکار ہوں لیکن سچی بات یہی ہے کہ پوری قوم ہی ”انگ ریزی۔“ کے زیر اثر ہے۔ مجھے بارہا کسی جگہ بولنے کا موقع ملا تو میں نے محسوس کیا کہ میری پوری تحقیقی و علمی گفتگو ایک طرف لیکن ”انگ ریزی“ زبان کے دو نسبتاً کم اہم فقرے ایک طرف۔

”انگ ریزی“ کی اصطلاح جناب پروفیسر سلیم ہاشمی صاحب کی عطا ہے۔ یاد رہے کہ میں بلکہ کوئی بھی پاکستانی ”انگ ریزی“ کا بطور زبان مخالف نہیں ہے بلکہ اختلاف اس بات میں ہے کہ بنیادی ذریعہ تعلیم اس کی بجائے مادری زبان ہونی چاہیے۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ ظلم یہ ہوا ہے کہ سکول جانے کی عمر کم کر دی گئی ہے۔ اسلام نے تعلیم کی ابتدائی عمر سات عمر مقرر کی جو آج کی جدید تحقیقات اور کئی تجربات کے مطابق سب سے اچھی عمر ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سکول جانے کی عمر چھ سات مقرر ہے۔

ورلڈ بینک کے دیے گئے ڈیٹا کے مطابق اگرچہ پاکستان میں بچے کے سکول جانے کی عمر پانچ سال بتائی ہے لیکن اس کی پاس داری کون کرے گا؟ آپ پاکستان کی تاریخ دیکھ لیں جب سکولوں میں تعلیم مادری زبان میں دی جاتی تھی تو اس وقت کیسے کیسے لوگ پیدا ہوئے۔ کیا ڈاکٹر عبدالقدیر، قائداعظم، علامہ اقبال، نصرت فتح علی خاں، بابا اشفاق احمد، قدسیہ بانو وغیرہ جیسے لوگ انگریزی سکولوں سے پڑھ کر آئے تھے؟ اسی طرح آپ کسی بھی ایسے انسان کی تاریخ دیکھ لیں جس نے پاکستان میں کسی میدان میں کوئی کارنامہ سرانجام دیا، اس کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہو گی۔

ہر سال اکیس فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو خود مادری زبان کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے۔ ایک عام سی بات ہے کہ انسان نے جو سیکھنا اور جو سکھانا ہے اس کا ذریعہ زبان ہی ہے۔ اگر انسان زبان سے بے خبر ہو تو سیکھنے سکھانے کا عمل کیسے مفید ہو گا؟ کسی بھی زبان کا معدوم ہو جانا صرف اس زبان کا معدوم ہو جانا نہیں ہے بلکہ ایک ثقافت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں آثار قدیمہ سے ایسی تحریریں برآمد ہوئیں جن کی زبان سے نا آشنا ہے۔

اگر انسان اس زبان سے آشنا ہوتا تو اس قوم کی تاریخ، رسم و رواج اور ثقافت سے آگاہی ہو سکتی تھی۔ اگرچہ بعض تحریروں کو ”ڈی کوڈ“ کیا گیا ہے لیکن کیا ضمانت ہے کہ بالکل صحیح کیا ہے؟ چار سال کا بچہ جسے مادری زبان کا بھی پوری طرح ادراک نہیں ہے اسے انگریزی میں پڑھایا جا رہا ہے۔ آپ ہی بتائیں کہ کیا وہ بچہ کچھ سیکھ پائے گا؟ یوں ہمارے سکولوں میں ”رٹو طوطے“ تو تیار ہو رہے ہیں لیکن آج تک کوئی قابل انسان نہیں نکلا جیسے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں نکلے جنھوں نے ایک نوزائیدہ ریاست کو ابھرتی ہوئی طاقت بنا ڈالا۔

لہذا بچے کو مادری یا قومی زبان میں پڑھائیں جیسا کہ جاپان، جرمنی، سویڈن، ڈنمارک، چین، آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا وغیرہ پڑھاتے ہیں اور جب اسے مادری اور قومی زبان پر مکمل عبور حاصل ہو جائے تو پھر اسے انگریزی کی طرف لگا دیں جیسا کہ پہلے عموماً چھٹی جماعت سے پڑھائی جاتی تھی اس سے اس کے سیکھنے کا عمل اور مقصد پوری مفید ہو گا۔ اب یہ کہنا پاگل پن ہی ہے کہ ”امریکا اور برطانیہ وغیرہ تو بچوں کو انگریزی زبان میں پڑھاتے ہیں“ کیونکہ ان کی قومی زبان ہی انگریزی ہے اور یہی ان کی ترقی کی ضامن بھی ہے۔ کالم کا دامن تنگ ہے اس لیے یہی کہنا ہے کہ آپ The importance of mother tongue in education لکھ کر گوگل کریں تو آپ کے سامنے ایک جدید تحقیق کا جہان معنی کھل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments