ملکی حالات سے مایوسی ایسی ہے کہ ان پر لکھنے کو کچھ نہیں


میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستانی سیاست پر کچھ نہ لکھوں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات، رسائل اور آن لائن فورمز پہ پہلے ہی بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے جس میں ہر لکھاری اور صاحب رائے اپنے تجربے، نظریے اور سوچ کے مطابق ملک کے حالات و واقعات پر اپنے قلم سے روشنی ڈالتا ہے۔ ہر قلم کار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر گزرتے سیاسی وقوعے اور اس کی کشیدگی پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرے اور قارئین تک حق اور سچ پہنچائے۔

ان حضرات میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف ایک ہیڈ لائن کو اٹھا کر پوری کہانی بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسے لکھاری بھی سامنے آتے ہیں جو اس بات کے دعویدار ہوتے ہیں کہ ان کو اندر کی بات پتہ ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ ہر لکھاری اپنی رائے کے ساتھ سیاسی واقعات کے پیچھے کار فرما سیاسی قوتوں کے حق یا مخالفت میں بھی خوب قلم چلاتا ہے۔ ایسے لکھاری مارکیٹ میں مختلف ٹیگز سے مشہور ہیں۔ عوام ان کو سیاسی پنڈت یا خبری بابا کے ناموں سے جانتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی مسائل اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ان کا کوئی آسان اور قطعی حل تاحال نہیں مل سکا۔ ملک کو آزاد ہوئے 75 سال ہوچکے ہیں لیکن ملکی مسائل جوں کے توں ہیں۔ جیسا کہ مسئلہ کشمیر، گلگت بلتستان کا سٹیٹس، کیا یہ ایک صوبہ ہے یا نہیں، آئین میں گلگت بلتستان کے متعلق کیا فرمودات ہیں؟ ، روٹی کپڑا اور مکان کا مسئلہ، بنیادی ضروریات زندگی کے مسائل وغیرہ۔ ان مسائل کے ادراک رکھنے والے دور اندیشوں نے بھی اس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ سب سیاست برائے سیاست اور ایکشن کے بدلے ری ایکشن دیتے آئے ہیں۔

اگر ہم یہ کہیں کہ ملک آئین و قانون پر چلتا ہے۔ ملکی ادارے اس آئین اور اس کے تحت بننے والے قوانین کی رو سے قائم کیے جاتے ہیں۔ آئین میں درج قوانین ادارے کو قانون کو حرکت میں لانے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے ہر طرح کے وسائل اور طاقت فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کے کئی آئینی و قانونی ادارے آئین کی روح کے مطابق عمل پیرا نہیں ہوتے۔ بد قسمتی سے ہمارے دیس میں قانون اور آئین کی مکمل حکمرانی ایک نہ پورا ہونے والا خواب ہے۔

پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ہر قسم کا آئین بن چکا اور حکومت کو آزمایا جا چکا ہے لیکن کوئی نظام اور آئین اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکا۔ رہ گیا 1973 کا آئین تو اس کو پرانی طرز پر چلایا جا رہا ہے حالانکہ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہمارے ہر مسئلہ کے پیچھے آئینی پیچیدگیاں اور خلا ہوتے ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوسکا۔ ہمارے ملکی ادارے انتہائی مضبوط اور مثالی کیوں نہیں بن سکے؟

اس کے بھی دو جواب ہیں۔ یہ وہ جواب ہیں جو ہمیں بچپن سے بتائیں اور رٹائیں جا رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان تب ایک نوزائیدہ ریاست تھی جس کو نظریہ ضرورت کے تحت چلایا جانا ہی مناسب تھا۔ اس کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔ ملک کا کوئی واضح آئینی اور انتظامی ڈھانچہ نہیں تھا اس لیے مخصوص قیادت نے آگے بڑھ کر پاکستان کی بھاگ دوڑ سنبھالی اور عوام کو کاروبار سیاست سے دور رکھا گیا وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی واضح سیاسی لائحہ عمل سرے سے ہی موجود نہیں تھا۔

پاکستان بنیادی طور پر اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ اور رہا جمہوریت کا جواز تو اس وقت پاکستان میں جمہوری عمل کسی بھی شکل میں میچور نہیں تھا۔ دونوں جوابات بتانے والے وہی لوگ ہیں جو اصل میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے مختلف ادوار میں مختلف نام بنتے اور مشہور ہوتے چلے گئے۔ ان لوگوں پر کتابیں تو لکھی گئیں لیکن فلمیں نہیں بن سکی۔ یہ جواب دینے والے لوگ ایسی فیصلہ ساز قوتیں ہیں جن کی پاکستان کو ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے۔ اب یہ بھی ایک طرح کا بیانیہ ہے جو ہمیں متواتر سکھایا جا رہا ہے۔ خیر اب ہمیں بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ پاکستان کو کس کی ضرورت ہے اور کس کو پاکستان کی ضرورت۔

ملک میں جمہوری عمل کے لئے سیاسی جماعتوں کا ہونا لازمی ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی وہ کیاریاں ہوتی ہیں جن سے جمہوریت کی آبیاری ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ہر سیاسی پارٹی کی یہ بنیادی کوشش، خواہش اور مقصد ہے کہ وہ ملکی سطح پر اکثریت حاصل کرے اور ملک میں حقیقی جمہوری راج نافذ کرے۔ اب ایسا کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ہماری عوام کا ٹیمپرامنٹ ایسا نہیں۔ سیاسی جماعتیں صوبائیت اور مخصوص نظریے کے تحت بنتی اور پروان چڑھتی رہی ہیں۔ قریبا ہر سیاسی پارٹی کسی نہ کسی ایکشن کا ہی ری ایکشن ہے۔ اور رہ گئی مسلم لیگ تو اس کے اتنے ورژن آچکے ہیں کہ ان کے نام یاد کرنا آسان نہیں۔

اب تو ماحول ایسا بن چکا ہے کہ ہر صوبے کی اپنی سیاسی جماعت اسی صوبے میں حکومت بنا لیتی ہے اور وفاق کے ساتھ تعاون سے اپنا دھندا چلاتی ہے۔ ملک گیر سیاست اس لیے بھی ممکن نہیں رہی کیونکہ جمہوریت کو پوری طرح پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا۔ سول بالادستی قائم ہی نہیں ہونے دی گئی۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں لیکن عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ عوام کے پاس ووٹ کی شکل میں اختیار ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ اور قابل سیاست دان کو ووٹ کے ذریعے اقتدار میں لائے لیکن ان کے ووٹ کی کیا اوقات ہے؟ یہ تو ہم سب کو اچھی طرح پتہ ہے۔

یہاں پر یہ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو کیوں نہیں چلنے دیا گیا۔ کس نے جمہوریت کو پوری طرح نہیں چلنے دیا؟ کون جمہوریت کے راستے کا پتھر بنا رہا؟ ملک میں مارشل لا لگتے رہے اور جمہوریت وینٹی لیٹر پر پڑی رہی خیر اس پر کیا لکھنا۔ جب ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں، ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہے۔ ملک جغرافیائی طور پر آزاد ہے اور ریاست اپنی رٹ نافذ کرتی رہتی ہے تو پھر ملک مسائل سے آزاد کیوں نہیں؟ ملکی مسائل جن میں آئین اور قانون کی حکمرانی سب سے افضل اور اولین ہے ان دونوں کو پوری طرح نافذالعمل کیوں نہیں ہونے دیا جاتا؟ ان باتوں پر بحث کے لئے کچھ نہیں۔ ان مسائل پر لکھنے کے لیے کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments