منزلیں سفر کرتی ہیں


عشق ایک راستہ ہے۔ منزل نہیں، اور مجھے تو ایسے محسوس ہوتا ہے۔ منزل بھی ایک راستہ ہی ہے۔ کسی کا یہ راستہ بہت طویل ہے اور کسی کا یہ راستہ اگلے قدم پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ کچھ احباب طویل سفر کر کے اپنی خود ساختہ منزل پر پہنچتے ہیں تو ہار جاتے ہیں کیونکہ وہ وہاں اکیلے کھڑے ہوتے ہیں۔ دور دور تک کوئی ساتھ نہیں ہوتا، بعض دفعہ ہم کئی گھنٹوں کا سفر کر کے جہاں پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی چند منٹ میں ہیلی کاپٹر پر وہاں پہنچا ہے اور آپ جیسوں کے داخلے پر پابندی ہے۔

مجھے تو آج تک یہ منزلیں اور یہ راستے کبھی سمجھ نہیں آئے، اور اکثر منزلیں ہم سے دور ہیں اور دور سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ سنا تھا۔ محنت تجربہ کا متبادل ہے پر کوئی جملہ مکمل کرنا بھول گیا کہ درست سمت میں محنت تجربہ کا متبادل ہے۔ زندگی کا آغاز گاؤں سے کیا کھیت کھلیان، پرفضا موسم، ہر چیز سادہ، خالص، رشتے مخلص، پر احساس ہوا اس سے اگلی منزل تو شہر سے ملتی ہے۔ ساری زندگی گزار کر جب جو کا دلیہ، دیسی آٹا، خالص دودھ، دیسی شہد، سبزیاں، دیسی گھی، مکھن، پالک، ساگ، آلسی کا آٹا، دیسی مرغیاں، مٹی کے برتن اور صاف پانی کی تلاش شروع ہوئی تو سمجھ نہیں آ رہی منزل وہ تھی جو میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں یا پھر واپس جانا منزل ہے۔

میرے بھائی کو سمجھ نہیں آتی کہ میں گاؤں کے چکر کیوں لگاتا ہوں، کیا بتاؤں اس کو کہ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ سادگی میں، میں منزل پیچھے چھوڑ آیا ہوں، پر عجیب صورتحال ہے۔ گاؤں اب گاؤں سے دور چلا گیا ہے۔ اب وہاں بھی مرغی خانے بن گئے ہیں۔ دودھ کمپنی والے لے جاتے ہیں۔ آبادی بڑھ گئی ہے۔ کھیت ہاؤسنگ سوسائٹیز بن گئے ہیں۔ پانی گندا ہو چکا ہے۔ کچھ زندگی پانے کے لئے ملک سے باہر چکے گئے ہیں۔ ان کی عورتیں بیوہ عورتوں کی طرح نظر آتی ہیں۔

بچے یتیم محسوس ہوتے ہیں۔ ماں باپ بے اولاد دکھائی دیتے ہیں، کوئی کسی کا نہیں جانتا سب اپنی اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔ ایک جامعہ مسجد سے اب چار جامع مساجد بن چکی ہیں۔ اب دین میں بھی منزل مشکل ہو گئی ہے۔ ہر کوئی یہی کہتا ہے۔ میرے دین میں آ جاؤ اسی میں فلاح ہے۔ دین محمدی ﷺ سے لوگ دور ہو رہے ہیں۔ اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے کو اپنی نجات سمجھ رہے ہیں۔ منزلیں دور ہوتی جا رہی ہیں۔

ہزاروں میل دور بیٹھے سمجھ رہے ہیں۔ ویڈیو کال سے سب مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ سب کمیاں مکمل ہوجاتی ہیں۔ اپنے ماں باپ کی ساتھ رہ کر خدمت اور چند ڈالر یا پونڈ بھیجنے میں بہت فرق ہے۔ ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں میں موجود ہونا اور ویڈیو کال میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ابھی تک ویڈیو کال میں چھونے، گلے لگانے، ٹانگیں دبانے، رونے، مسکرانے اور چپیڑوں کی سہولت ابھی میسر نہیں ہے۔ میری آپ سب سے درخواست ہے جب منزل کی تلاش میں نکلیں تو ساتھ اپنے احباب کو بھی لے کر جائیں ورنہ وہ منزل آپ کی تو ہو سکتی ہے۔

آپ کے خاندان کی نہیں، کچھ دوستوں نے دین کو بھی پنجاب کالج بنایا ہوا ہے کہ میرے بچے ہر نماز کے بعد مجھے واٹس ایپ پر میسج کرتے ہیں۔ باپ اور اولاد دونوں کمال کرتے ہیں۔ کچھ دوستوں کی دین پر گہری نظر ہے پر وہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ جہاد سے بھی ایک خاص مدت بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو گھر بھیج دیتے تھے۔ اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کر کے آئیں، کیا فریج، ٹی وی، اے سی، گھر، فرنیچر، مہنگی تعلیم ہی منزل ہے جس پھر گھر والوں کے ساتھ گھر میں رہنا منزل ہے۔ کرونا کا فاصلہ دو میٹر دوری اصل میں قبر کا سائز ہے کہ منزل تیری دو میٹر ہے اور گھر تیرے کنالوں پر محیط ہیں۔ قبرستان میں کچھ قبریں تو حکم رسول اللہ ﷺ کے مطابق کچی ہیں اور کچھ چھوٹے بڑے سائز کے تاج محل ہیں۔ وہی سنگ مرمر۔

کچھ دوستوں نے تو کمال کر دیا ہے۔ قبر پر سولر لائٹ بھی لگوا دی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح شاید قبر روشن ہوجاتی ہے۔ پھر وہ اس نیکی کی تشہیر شروع کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر، سمجھ نہیں آ رہی ہماری منزل کیا تھی اور ہم کس منزل کی تلاش میں ہیں۔ کل ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کا ایک خطاب سننے کا موقعہ ملا، سورہ الرحمن کے بارے میں بتا رے تھے کہ اللہ کی رحمت سے ہی سب کو ملے گا جو بھی ملے گا۔ آپ کے جو بھی اعمال ہیں۔ اس میں اللہ کی رحمت شامل ہوگی تو منزل مل پائے گی اور رحمت کے طالب سب ہی ہیں۔ تو پھر ہم لوگوں سے کیا طلب کر رہے ہیں۔ جب یہ اختیار صرف اللہ باری تعالٰی کا ہی ہے۔ بے شک وہ ہی الرحمن اور الرحیم ہیں۔ اللہ تعالٰی سب کی منزلیں آسان بنائیں، آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments