پاکستان میں فٹ بال زوال پذیر کیوں؟


فٹ بال دنیا میں سب سے زیادہ کھیلا جانے والا اور سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کھیل ہے۔ اس وقت جب قطر میں فٹ بال کا ورلڈ کپ کھیلا جا رہا ہے تو دنیا بھر میں فٹ بال کا بخار عروج پر پہنچ گیا ہے۔ ورلڈ کپ کے سنسنی خیز مقابلے جیسے جیسے اپنے حتمی مراحل میں داخل ہو رہے ہیں ویسے ویسے شائقین فٹبال کی دیوانگی میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان کے شائقین فٹ بال بھی اس عالمی مقابلہ میں زبردست دلچسپی لے رہے ہیں، جس کے باعث پاکستان کے ہر گلی کوچہ میں فٹ بال ورلڈ کپ کا جوش و خروش دیدنی ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی ورلڈ کپ فٹ بال کا چرچہ ہے۔ چونکہ میں ماضی میں پاکستان کی قومی فٹ بال ٹیم کا حصہ رہا ہوں تو کچھ دوست احباب میرے سے سوال کرتے ہیں کہ میں اس بات پر لکھوں کہ پاکستان میں فٹ بال کیوں زوال پذیر ہے؟ اس کے بنیادی وجوہات کیا ہے؟ میں 2000 سے 2003 تک قومی فٹ بال ٹیم کا حصہ تھا۔ میں اپنے اس وقت کے کچھ مشاہدات پر بات کروں گا پھر پاکستان میں فٹ بال کے زوال پر بات کروں گا۔

جب میں قومی فٹ بال ٹیم کا حصہ تھا اس وقت میرے محلے میں بھی کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں قومی ٹیم کا کھلاڑی ہوں۔ میڈیا میں تو کرکٹ کے علاوہ کچھ دکھایا نہیں جاتا۔ سیف گیمز کی تیاریوں کے سلسلے میں پاکستان سپورٹس کمپلیکس اسلام آباد میں فٹ بال سمیت دیگر کھیلوں کے کھلاڑی بھی سپورٹس کمپلیکس اسلام آباد کے ہاسٹل میں مقیم تھے۔ دوران کیمپ سخت ٹریننگ دی جاتی تھی لیکن کھلاڑیوں کو وہ غذا یا خوراک نہیں دی جاتی تھی جس کی ایک کھلاڑی کے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں فٹ بال فیڈریشن سے کیمپ کے دوران کوئی بھی مالی مدد نہیں دی جاتی۔ کیمپ کے دوران جو واحد چیز کھلاڑی کو ملتی تھی وہ ایک دودھ کا ڈبہ تھا جو ایک کھلاڑی کو روزانہ ایک ڈبہ دیا جاتا۔

زیادہ تر کھلاڑی وہ دودھ کا ڈبہ آبپارہ مارکیٹ جو سپورٹس کمپلیکس کے بالکل ساتھ تھا شام کو لے جاتے وہاں یہ دودھ کا ڈبہ ملک شیک کے دکان پر دے دیتے اور بدلے میں ایک ملک شیک کا گلاس پی لیتے۔ یہی اس وقت ہم کھلاڑیوں کی سب سے بڑی عیاشی تھی۔ یہ حال فٹ بال کے ساتھ دوسرے کیھلوں کے کھلاڑیوں کا تھا۔ جس میں اتھلیٹکس اور دوسرے کھیل شامل تھے۔ فٹ بال میں تر کھلاڑی غریب اور متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور کھیل کے ساتھ محبت کے با وجود اپنے معاشی مسائل کے وجہ سے پریشان رہتے تھے۔

کھلاڑی جب ذہنی طور پر الجھن کا شکار ہو تو وہ بہتر طور پر کھیل پر توجہ نہیں دے سکتا۔ ہم کیسے اپنی فٹ بال سے ٹیم سے یہ توقع رکھیں کہ وہ بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرے جب ہم کھلاڑیوں کو عزت نہیں دیتے ہم کھلاڑیوں کو مالی طور پر بھی مدد نہیں کرتے ہم کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم نہیں کرتے ہمارا میڈیا بھی کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں پر توجہ نہیں دیتا فٹ بال فیڈریشن اور حکومت بھی اس کھیل کو اہمیت نہیں دیتا۔ اس تمام مشکلات کے باوجود 2002 میں سیف گیمز کی فائنل میں ہم نے انڈیا کو ہرایا اور پاکستان نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ میرے خیال میں پاکستانی فٹ بالر اپنے استعداد سے بڑھ کر کار کردگی دکھا رہے ہیں۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ پاکستان میں فٹ بال کیوں زوال پذیر ہے۔ تو پہلی بات کہ پچھلے کئی دہائیوں سے دیکھ لیں پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی صدارت کس کے پاس ہے؟ اور صدارت کی وجہ سے کیا کیا تماشے ہو رہے ہیں؟ دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل ہمارے منتظمین کی رسہ کشی، انتظامی کشمکش، عہدوں کی جنگ، بیان بازی کا عجیب نقشہ پیش کر رہا ہے، پاکستان میں فٹ بال فیڈریشن کی صدارت وہ سیاسی افراد کر رہے ہیں جن کو فٹ بال کے قواعد کا بھی نہیں پتہ۔

فیڈریشن باہر سے فنڈ لیتی ہے لیکن وہ فنڈ کھلاڑیوں پر خرچ نہیں ہوتا۔ بلکہ فیڈریشن نے اپنے چہیتوں کو فیڈریشن میں بھاری تنخواہوں پر رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کو غیر ملکی ٹورز میں ٹیمیں بھیجنے کھیلوں کے معاملات میں پائے جانے والے انتشار، بدنظمی، میرٹ و شفافیت سے متعلق حقائق سخت دل گرفتہ کردینے والے ہیں، پہلے تو غیر ملکی ٹورز ہوتے ہی نہیں اگر ہوتے بھی ہیں تو اپنے چہیتوں کو ٹور میں آفیشلی بھیج دیتے ہیں۔ میں جب نیشنل ٹیم میں تھا تو اس وقت ایک دو افراد ایسے تھے جن کی کارکردگی ہو یا نہ ہو ان کو ٹیم کے ساتھ ضرور بھیج دیا جاتا تھا کبھی کوچ تو کبھی منیجر یا کبھی لائژن افسر لیکن ان کو ٹور ضرور کرواتے تھے۔

مجھے یاد ہے اس وقت ہمارے دو برٹش کوچ جان لیٹن اور ڈیوڈ تھے جن کی ذاتی کاوشوں کی وجہ سے پاکستان کی فٹ بال میں رینکنگ میں بھی نمایاں بہتری آئی تھی لیکن جو سلوک ہماری فیڈریشن نے ان دو کوچز کے ساتھ کیا وہ ایک درد ناک داستان ہے۔ پاکستان میں پہلی بات تو لیگ نہیں ہوتی دوسری بات کھلاڑیوں کو معاشی مراعات نہیں ملتے۔ فٹ بال کے فروغ کے لئے کوئی خاکہ نہیں بنایا گیا ہے۔ اگر پچھلے کچھ سالوں سے دیکھیں تو فٹ بال کے کتنے گراؤنڈ بنائے گئے ہیں؟ بلکہ جو پہلے سے تھے وہ بھی اب گراؤنڈ نہیں رہے۔

یورپ میں بچہ جب چلنا شروع کرتا ہے تو فٹ بال سے اس کا تعارف ہو جاتا بالکل ایسا ہی جسے ہمارے ہاں کرکٹ سے ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں فٹ بال آٹھ یا دس سال کے بعد بچہ فٹ بال کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جب تک گراس روٹ پر کام نہیں ہو گا فٹ بال کی بہتری کی امید نہیں۔ فٹ بال فیڈریشن کی صدارت سیاسی افراد کے بجائے فٹ بال سے وابستہ افراد کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ سیاست اور فٹ بال ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

ملک میں فٹ بال لیگ زیادہ سے زیادہ ٹورنامنٹ ہونا چاہئیں۔ پاکستان نہ صرف انٹرنیشنل فٹبال نہیں کھیل رہا بلکہ ڈومیسٹک لیگ بھی نہیں ہو رہی ہے۔ کلب اور ڈیپارٹمنٹ لیول پر فٹ بال کو فروغ دینا ہو گا۔ گراس روٹ پر کام کرنا ہو گا چار سے دس سال کے بچوں کے ٹریننگ کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ آج قطر میں دنیا کے بہترین فٹ بالرز پاکستان میں بنے فٹ بال سے کھیل رہے ہیں، پاکستانی مزدوروں کی محنت سے بنے سٹیڈیمز میں کھیلیں گے اور پاکستانی سکیورٹی اہلکار ان کی حفاظت کریں گے مگر پاکستانی فٹ بال ٹیم ان سب سے کوسوں دور ہے۔

اس دفعہ ورلڈ کپ میں مراکش کی ٹیم نے بہترین کار کردگی دکھائی اس کی بنیادی وجہ اس ٹیم میں زیادہ تر کھلاڑی یورپ سے لیے گئے تھے۔ اس ماڈل پر کام کرتے ہوئے یورپ میں اگر ہم پاکستان اوریجن پروفیشنل فٹ بالر کو ٹیم کا حصہ بنائیں تو ٹیم کی کار کردگی میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔ کیوں کہ یورپ میں بہت سے پاکستانی نژاد کھلاڑی پروفیشنل کھیل رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments