پاکستان کیوں نہ ٹوٹتا؟


بنگلادیش کی تخلیق نے سیاسی طور پر غیر ترقی یافتہ ممالک میں علاحدگی پسند رجحانات کو جلا بخشی۔ بنگلادیش کی آزادی اور اس کے مضمرات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، مگر ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ”پاکستان کیوں ٹوٹا“ کسی حد تک 1947 سے 1971 تک کی سیاسی تاریخ کی بے لاگ اور غیر جانب دارانہ تحقیق ہے، جس میں اس المیے کی کئی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب کے گہرے مطالعے کے بعد قاری بے ساختہ یہ کہہ سکتا ہے کہ آخر پاکستان کیوں نہ ٹوٹتا!

ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق، پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے کے بیچ میں 1600 کلومیٹر کی جغرافیائی دوری، قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی ناگہانی موت، مسلم لیگ کی مایوس کن قیادت، ثقافتی و لسانی اختلافات، ملکی حکمرانوں کی مشرقی حصے میں کم دل چسپی، شیخ مجیب الرحمان کا چھے نکاتی ایجنڈا، دو قومی نظریے کے بجائے دو معاشی نظریے کی تشہیر، ایوب خان کی خارجہ پالیسی میں امریکا کے بجائے چین کو اہمیت اور پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں، مولانا بھاشانی کی خونی تحریکیں، شیخ مجیب الرحمان کی طرف سے فیڈریشن کی مضبوطی کے بجائے کنفیڈریشن کے احیاء پر زور، یحییٰ خان کی سیاسی کوتاہ نظری، ون یونٹ کا خاتمہ، ایل ایف او کا اجرا، 70 کے انتخابات کے غیر متوقع نتائج، سیاست میں صوبائیت اور علاقائیت کا فروغ، ذوالفقار علی بھٹو کا اپوزیشن میں بیٹھنے کے بجائے شریک اقتدار ہونے کی ضد، طیارہ ہائی جیکنگ کا بھارتی ڈراما، بھارت کا مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان فضائی رابطوں کا انقطاع، مشرقی حصے میں سول نافرمانی کی تحریکیں، صدر کی طرف سے قومی اسمبلی کے اجلاس بلانے میں بار بار تاخیر، 25 مارچ کے اجلاس میں مجیب الرحمان کی مشروط شرکت کے سیاسی حربے، مکتی باہنی سرگرمیوں کا آغاز، حالات کے کنٹرول کے لیے غیر ضروری فوجی اقدامات، اور سب سے بڑھ کر فوج کی خود ساختہ مالیاتی خود مختاری پر سمجھوتا نہ کرنا اور سیاسی قوت سے دست بردار نہ ہونا پاکستان کے دو لخت ہونے اور بنگلادیش کی تخلیق کی وجوہات ہیں۔

ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق، مغربی پاکستان کے سیاست دان جاگیر دار، جب کہ مشرقی پاکستان کے سیاست دان وکلا، اساتذہ اور سرکاری ملازمین تھے۔ مغربی حصے میں ثقافتی ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر تھی اور مشرقی حصے میں نظریاتی، لسانی اور ثقافتی ابعاد کار فرما نہیں تھے۔ تقسیم کے بعد بھارت نے مشرقی حصے کے سیاست دانوں اور عوام کے ساتھ مراسم ہموار کر لیے تھے۔ مغربی حصے میں مسلم لیگ ناتواں اور مشرقی حصے میں عوامی لیگ توانا ہوتی جا رہی تھی۔

مغربی حصے میں سیاسی رہنماؤں میں کمی اور آمروں میں اضافہ ہو رہا تھا، جب کہ مشرقی حصے میں شیخ مجیب الرحمان، مولانا بھاشانی و دیگر کی شکل میں نئے سیاسی چہروں نے عوام میں اپنا لوہا منوا چکا تھا۔ ملک کی مجموعی باگ ڈور مغربی رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی۔ مشرقی پاکستان میں معاشی ناہمواری اور سیاسی نظر اندازی جڑ پکڑ چکی تھی۔ ایسے میں شیخ مجیب الرحمان کی طرف سے چھے نکات کا منظر عام پر آنا بنگالیوں کے لیے کسی نعمت خداوندی سے کم نہ تھا۔

ان چھے نکات کو بادی النظر میں متحدہ پاکستان پر لاگو کرنا ناممکن تھا۔ شیخ مجیب الرحمان نے کسی بھی ممکنہ آئین کی بنیاد صرف اور صرف ان چھے نکات پر رکھنے کا عہد کیا تھا اور یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو یہ کسی قیمت پر منظور نہیں تھا۔ یہ چھے نکات دراصل فیڈریشن کا خاتمہ اور کنفیڈریشن کا قیام تھا۔ ان نکات میں مشرقی اور مغربی حصوں کے لیے الگ الگ کرنسی کا اجرا تھا اور ٹیکسز کے نفاذ اور حصول کا اختیار صرف صوبوں کے پاس تھا۔

ان میں مشرقی حصے کے لیے الگ نیم فوجی فورس کا قیام بھی شامل تھا۔ چھے نکات کا مقصد مضبوط و خود مختار صوبے اور کمزور وفاق تھا۔ وہ وفاق کو صرف دو محکمے یعنی دفاع اور خارجہ دینے کے حق میں تھے اور باقی محکموں کو صوبوں کے زیر انتظام رکھنا چاہتے تھے، جو مغربی پاکستان کے سیاست دانوں اور عسکری اداروں کو قطعاً منظور نہیں تھا۔

پاکستان میں ہر سال 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ بہ طور یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ بعض حلقے صرف شیخ مجیب الرحمان کو ، بعض ذوالفقار علی بھٹو کو اور بعض فوجی قوتوں (یحییٰ خان) کو اس المیے کے ذمے دار گردانتے ہیں۔ حالاں کہ انفرادی طور پر کسی بھی کو اس المیے کے ذمے دار ٹھہرانا دانش مندی نہیں۔ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی مشرقی حصے کے حوالے سے مسلسل غفلت، شیخ مجیب الرحمان کی چھے نکات پر ہٹ دھرمی، ذوالفقار علی بھٹو کا غیر مصالحانہ رویہ اور فوجی قوتوں کی سیاسی امور میں مداخلت نے پاکستان کو دو لخت کر کے بنگلادیش کی علاحدگی کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلادیش نے ہر قیمت پر کسی بھی وقت جدا ہونا تھا۔ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ اب بنگلادیش ایک آزاد، خودمختار اور معاشی لحاظ سے خوش حال ملک ہے۔ اب اس المیے پر رونے دھونے یا بحث کرنے کے بجائے اس سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے، اور بنگلادیش کے ساتھ خوش گوار تعلقات استوار کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے ساتھ اب بھی بہت کچھ ہے۔

خدا نخواستہ اگر سقوط ڈھاکہ سے سبق نہ لیا گیا، سیاسی انتقامی کاروائیاں نہ روکی گئیں، تمام صوبوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاتا اور عسکری قیادت آئینی حدود سے آگے جاکر سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہے گی تو اس طرح کے سقوط اور بھی ہوتے رہیں گے اور پھر تھوڑا سا پاکستان بھی نہیں رہے گا۔ اگر چہ سقوط ڈھاکا کا پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا ہے مگر حالات اب بھی وہی ہیں۔ اب بھی پاکستانی موروثی سیاست دان اپنے سیاسی اور عسکری مخالفین کو سقوط بلوچستان، سقوط پنجاب، سقوط سندھ اور سقوط خیبر پختونخوا کے نام پر ڈرا دھمکا کر اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خوابیدہ انگڑائیاں کسی بھی وقت چھلک سکتی ہیں اور ویسے بھی بنگلادیش کی آزادی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علاحدگی موت نہیں ہوتی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments