برطانوی سپیشل فورسز کا آپریشن جس نے پورا خاندان اجاڑ دیا: ماں، باپ کی لاشیں موجود تھیں مگر نوعمر بچے غائب تھے


چھ اگست 2012 کی شام عبدالعزیز اپنے بیٹے کے ساتھ اُس کی زندگی کا آخری کھانا کھانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ رات کے اس کھانے میں عبدالعزیز کے علاوہ اُن کی اہلیہ اور پانچ میں سے چار بچے اور دو پوتے بھی شریک تھے۔ اسلامی کیلینڈر کے حساب سے رمضان کا مہینہ چل رہا تھا اور اُس روز 18واں روزہ تھا۔ یہ خاندان افغانستان کے صوبہ نمروز کے شیش ابا گاؤں کے ایک سادہ سے گھر میں رہائش پذیر تھا۔

اُس دن کا بھی آغاز بھی لگے بندھے معمول کے مطابق ہوا تھا۔ طلوع آفتاب سے قبل سب اہلخانہ نے سحری کی۔ روزہ رکھنے کے بعد خاندان کے تمام افراد اپنے اپنے کام پر چلے گئے۔ عبدالعزیز کے بڑے بیٹے حسین نے اپنی چھوٹی سی کریانے کی دکان کھولی۔ حسین کی اہلیہ رقیہ اپنے دو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کام میں مشغول ہو گئیں۔ ان کے پڑوسیوں نے افطاری کا اہتمام کرنے کے لیے ایک بکرا ذبح کیا۔

اگرچہ اس روز سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا مگر صرف ایک بات خلاف معمول تھی اور وہ یہ اس دن کہ اُس دن وہاں اُن کے گاؤں میں دو نامعلوم افراد آئے تھے۔ افغانستان کے دیہی علاقوں میں غیرمتوقع مہمانوں کا آنا کوئی خلاف معمول نہیں ہے اور مقامی روایات یہی ہیں کہ ایسے مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے۔ مگر عبدالعزیز ان دو مہمانوں کی آمد سے تھوڑا چوکنا ہوئے، انھوں نے اپنے بیٹے حسین کو بتایا کہ وہ اپنی دکان جلد بند کریں اور واپس گھر آ جائیں۔

عبدالعزیز بتاتے ہیں کہ کہ افطار کے وقت دونوں غیرمتوقع مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا، جو انھوں نے علیحدہ علیحدہ کھایا اور پھر وہ دونوں اجنبی رات دس بجے بغیر کچھ کہے سُنے وہاں سے واپس چلے گئے۔ شیش ابا کے گاؤں میں یہ اگست کی ایک شدید گرم رات تھی اور یہی وجہ تھی کہ عبدالعزیز خاندان کے تمام افراد نے باہر صحن میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔

کھانے کے بعد عبدالعزیز نے اہلخانہ کو بتایا کہ وہ تھکاوٹ کا شکار ہیں اور اپنے بستر پر جا کر کچھ آرام کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے حسین، بہو رقیہ اور دونوں پوتوں کو شب بخیر کہا اور سونے کے لیے چل پڑے۔

عبدالعزیز کے پوتے اُس وقت چھوٹے تھے۔ عمران تین برس کے تھے جبکہ ان کے بھائی بلال فقط ڈیڑھ برس کے تھے۔ ان دونوں کو اب یہ یاد نہیں ہے کہ اس رات کو آگے چل کر کیا کچھ ہوا۔

مگر انھیں معلوم تھا کہ سونے سے قبل اُن کے والد اپنے پلنگ کو صحن میں لے کر آ جاتے تھے کیونکہ اُن کے گھر کے مشترکہ سونے کے کمرے میں گرمی کی وجہ سے بہت حبس ہو جاتا تھا۔ اس رات یہ دونوں بچے آخری بار کُھلے آسمان کے نیچے یعنی گھر کے صحن میں اپنے والدین کے ساتھ سوئے۔

یہ سنہ 2012 کی بات ہے۔ اُس وقت امریکہ کی سربراہی میں اتحادی افواج کو افغانستان میں جنگ شروع کیے ہوئے دس برس بیت گئے تھے۔ اتحادی افواج کے ایلیٹ سپیشل فورسز یونٹس افغانستان میں باقاعدگی کے ساتھ نام نہاد ’ڈیلیبریٹ ڈیٹینشن آپریشنز‘ یعنی مشکوک افراد کی گرفتاریوں کے لیے منصوبہ بندی سے چھاپہ مار کارروائیاں کرتے تھے۔ یہ مشن ’کِل کیپچر مشنز‘ یعنی مارو اور گرفتار کرو کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔

فوجی دستے ہیلی کاپٹر میں طالبان کے مشکوک ٹھکانوں پر رات کے اندھیرے میں کارروائی کرتے تھے۔ برطانیہ کی طرف سے ایسے چھاپے ایس اے ایس یا سی بی ایس کی طرف سے مارے جاتے تھے۔ یہ دونوں فورسز برٹش آرمی اور رائل نیوی کی بہت ہی قابل یونٹ سمجھی جاتی ہیں۔

مگر برطانوی عوام اس وقت اس سب سے بے خبر تھی کہ کیسے ایس اے ایس کے اہلکاروں کو یوکے سپیشل فورسز میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، جو گرفتار کیے جانے یا گرفتاری دینے والے افغان شہریوں کو غیرقانونی طور پر قتل کر دیتے تھے اور بعد میں جعلی اطلاعات کی مدد سے ایسی کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔

اس حوالے سے بی بی سی پینوراما تحقیقاتی رپورٹ جو رواں برس کے آغاز میں شائع ہوئی تھی میں یہ ظاہر کیا گیا کہ ایس اے ایس سکواڈرن نے 54 لوگوں کو مشکوک حالات و واقعات میں قتل کیا۔

اس طریقہ کار نے سپیشل فورسز کے ایک اعلیٰ افسر کو اس بات پر آمادہ کیا کہ انھوں نے ایک ’سیکرٹ میمو‘ یعنی خفیہ خط کے ذریعے سپیشل فورسز کے سربراہ کو خبردار کیا کہ یہ بے ضرر قیدیوں کو مارنے کی یہ ایک سوچی سمجھی پالیسی ہو سکتی ہے۔

کِل/کیپچر چھاپوں میں سے ایک عبدالعزیز کے گھر پر چھاپہ تھا۔ رات تین بجے کے قریب برطانوی فوج کے ہیلی کاپٹر گھپ اندھیرے میں نمروز میں ایک گاؤں کے قریب آ کر اُترے۔

سپیشل فورسز کے اہلکار ان ہیلی کاپٹرز سے زمین پر کودے اور عبدالعزیز کا خاندان جہاں سو رہا تھا اس طرف چل دیے۔ عبدالعزیز کے مطابق وہ پہلی گولی چلنے پر ہی جاگ گئے تھے اور چند منٹوں کے اندر یہ غیرملکی فوجی ان کے کمرے کے اندر داخل ہو گئے۔ ان اہلکاروں نے عبدالعزیز کو زمین پر گرایا، ہتھکڑی لگائی اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔

عبدالعزیز کے مطابق ’میں نے ان سے یہ درخواست کی کہ مجھے اس جگہ جانے دیں جہاں میرا بیٹا اور بہو سو رہی تھیں۔ میری دونوں بیٹیوں کی چیخیں مجھے سنائی دے رہی تھیں، وہ مدد کے لیے پکار رہی تھیں۔ مگر میں اپنے بچوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔‘

اس صورتحال سے افراتفری جیسا ماحول پیدا ہو چکا تھا۔ عبدالعزیز کے مطابق ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی، مارا پیٹا گیا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔

انھیں حبس بیجا میں رکھا گیا اور چھاپے کے دوران ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر رکھی گئی۔

سپیشل فورسز کے اہلکار ساتھ والے گھر بھی گئے جہاں لال محمد نامی ایک شخص اپنے چھ بیٹوں اور تین بیٹیوں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ ان کے ایک بیٹے محمد جو اس وقت محض 12 برس کے تھے نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ان کے بھائیوں سمیت باہر لایا گیا اور پھر اس ٹیم نے انھیں گرفتار کر لیا۔

ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور یہ صورتحال چھاپہ مار کارروائی ختم ہونے تک رہی۔

جب یہ فوجی گاؤں سے نکل گئے تو اس کے کئی گھنٹے بعد عبدالعزیز اپنی آنکھوں پر سے پٹی اتارنے میں کامیاب ہوئے اور صبح کی روشنی میں گھر کے اس حصے میں پہنچے جہاں ان کے بیٹا حسین اور رقیہ اور ان کے پوتے سوئے ہوئے تھے۔

ان کے مطابق ’وہاں ہر جگہ خون ہی خون تھا۔ بستر اور اس پر پڑی چادر خون سے لت پت تھی۔‘ دونوں خاندانوں کے افراد، جنھوں نے حسین اور رقیہ کی لاشیں دیکھی تھیں، کے مطابق ان دونوں کے سر پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ عمران اور بلال کے کپڑے وہاں خون میں لت پڑے تھے مگر دونوں لڑکے وہاں موجود نہیں تھے۔

Hussain

عبدالعزیز کے بیٹے حسین

عبدالعزیز کے پڑوسی محمد اپنے گھر کے دوسرے دروازے کی جانب دوڑے، جہاں انھوں نے آخری بار اپنے بڑے بھائیوں کو دیکھا تھا، جنھیں فوجی اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ انھوں نے 26 برس کے محمد ولی اور 28 برس کے محمد جمعہ کو اپنے گھر میں مردہ پایا، جن کے سروں پر گولیوں کے نشان تھے۔ خاندان کے دوسرے افراد کے مطابق ان دونوں کو بہت قریب سے گولیاں ماری گئیں۔

بی بی سی نے محمد ولی کی لاش دیکھی تو اس کے سر پر زخم کا نشان تھا۔

محمد کی طرف سے بیان کی گئی اس واقعے کی تفصیلات سے اس متنازع طریقہ کار کے بارے میں پتا چلتا ہے جس سے متعلق سپیشل فورسز کے بھی سینیئر افسران میں شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ وہ خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ ان کے بھائی عام کسان تھے۔ وہ صبح سویرے سے لے کر شام تک مزدوری کرتے تھے۔ وہ نہ تو طالبان کے ساتھ تھے اور نہ ہی حکومت کے حامی تھے۔ انھیں بے گناہ مارا گیا ہے۔

عبدالعزیز اور ان کے خاندان کے دیگر افراد جنھوں نے حسین اور رقیہ کی لاشیں دیکھی تھیں کا کہنا ہے کہ ان کی آنکھیں بند تھیں اور ان کے جبڑوں کو کپڑے سے بند کیا گیا تھا۔ یہ کپڑا جبڑے اور سر کے نیچے سے باندھا گیا تھا۔ شاید ایسا اس وجہ سے کیا گیا تا کہ چھاپہ مارنے والے ٹیم کو صحیح تصاویر بنانے میں آسانی ہو۔

اس طرح کے واقعات کے بعد تصاویر بنانا ان اہلکاروں کا ایک عام طریقہ کار ہے۔

خاندان کے مطابق ان نوجوان والدین کو ان کے سر پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا وہ مارے جانے سے قبل جاگ گئے تھے یا نہیں۔ پہلے پہل تو عبدالعزیز کو لگا کہ ان کے پوتے عمران اور بلال بھی مار دیے گئے تھے۔

مگر ان لڑکوں کو برطانوی اہلکار وہاں سے اپنے ساتھ ہی ہیلی کاپٹر پر لے گئے تھے اور وجہ یہ تھی کہ آپریشن کے دوران بلال کے چہرے اور کاندھے پر گولی لگی تھی جبکہ تین برس کے عمران کو پیٹ پر۔

Neroz

اس چھاپے کے بعد ایک برطانوی ملٹری کمانڈر کو ایک اہم فیصلہ کرنا تھا۔ برطانوی قانون کے تحت کمانڈر کو ملٹری پولیس کو ایسے واقعے کی اطلاع دینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے جس میں ان کے ماتحت نے شیڈول 2 کے تحت ممکنہ طور پر کوئی جرم سرزد کیا ہو۔

واضح رہے کہ برطانوی قانون میں شیڈول 2 کے جرائم بہت سنگین نوعیت کے جرائم تصور کیے جاتے ہیں۔ ان جرائم میں غیرقانونی ہلاکتیں اور سنگین نوعیت کے جسمانی نقصانات پہنچانا شامل ہیں۔

کمانڈنگ افسران کے لیے ہدایات یہ ہیں کہ وہ ایسے واقعات کو رپورٹ کریں جن میں شواہد ایسے اہلکار کی ضرور نشاندہی کر رہے ہوں کہ شیڈول 2 کے تحت اس نے کوئی جرم کیا ہو۔ اس عمل کے ذریعے ایسے واقعات ملٹری پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ اسے کم سے کم درجے کا ایک عمل تصور کیا جاتا ہے۔

رائل ملٹری پولیس کے ایک سابق تفتیش کار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دستیاب معلومات کے مطابق ان کے ذہن میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں پایا جاتا کہ یہ واقعہ ملٹری پولیس کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔‘

مگر بی بی سی نے اس بات کا پتا چلایا ہے کہ یہ واقعہ کبھی بھی ملٹری پولیس کو نہیں ریفر کیا گیا اور نہ ہی یو کے سپیشل فورسز کے علاوہ کسی نے اس کی تحقیق کی ہے۔

رائل ملٹری پولیس (آر ایم پی) نے ہمیں بتایا کہ انھیں شیش ابا کے چھاپے کے بارے میں اس وقت کچھ نہیں بتایا گیا اور وہ اب براہ راست اس واقعے کی تحقیقات کریں گے۔

بی بی سی کے سوال پر وزارت دفاع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برطانوی افواج اس چھاپے میں شامل تھیں اور اس واقعے کا ’سیریز انسیڈنٹ ریویو‘ کیا جا رہا ہے یعنی اس پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہوتا ہے جس کے تحت کسی غلط فوجی آپریشن کے بارے میں اندرونی طور پر جائزہ لیا جاتا ہے۔

وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فوج کے سینیئر وکلا کے جائزے کے بعد کمانڈنگ افسر کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا جو آرمڈ فورسز ایکٹ 2006 اور وزارت دفاع کے عین مطابق عمل ہے، جس میں شواہد اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ اس عمل کو ملٹری پولیس کو بھیجا جاتا۔

UK

جنرل سر کارلیٹن سمتھ

بی بی سی نے وزارت دفاع اور آر ایم پی دونوں سے یہ کمانڈنگ افسر کی شناخت ظاہر کرنے سے متعلق کہا جنھوں نے اس کیس کو آگے نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر دونوں اداروں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

بی بی سی نے سپیشل فورسز کی خفیہ دستاویزات حاصل کی ہیں جن میں ملٹری فورس کو ایسے واقعات بھیجنے سے متعلق تفصیلات درج ہیں۔

ان دستاویزات کے مطابق جب ایک بار ایس آئی آر یعنی ریویو مکمل ہو جائے تو پھر اس کے بعد اسے ڈائریکٹر سپیشل فورسز کو بھیجا جاتا ہے جو برطانوی سپیشل فورسز میں سب سے اعلیٰ عہدہ ہوتا ہے، جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کسی خاص واقعے کو ملٹری پولیس کو بھیجنا ہے یا نہیں۔

شیش ابا کے چھاپے کے بعد ڈائریکٹر سپیشل فورسز جنرل سر مارک کارلیٹن سمتھ تھے جو بعد میں برطانوی فوج کے سربراہ بھی بنے اور گذشتہ برس اپنی مدت ملازمت کے ختم ہونے پر ریٹائر ہو گئے۔

جب بی بی سی نے ان سے اس واقعے کے بارے میں سوال پوچھا تو جنرل کارلیٹن سمتھ نے بتایا کہ انھیں یاد نہیں کہ آیا انھیں اس واقعے میں اختیار کیے گئے خاص طریقوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی یا نہیں۔

ان کے مطابق ایک بات واضح ہے کہ انھیں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ انھوں نے ان تھیٹر کمانڈرز اور فوج کے سینیئر وکیل کی رہنمائی میں کوئی قدم اٹھایا ہو گا جنھوں نے اس واقعے کے بارے میں رہنمائی دی ہو گی کہ اس واقعے کو ملٹری پولیس کو بھیجنا ضروری نہیں ہے۔

ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں کمانڈنگ افسر کی یہ سفارش تھی کہ اس واقعے میں کسی جرم کے سرزد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے اور اس میں متعلقہ قواعد کی خلاف ورزی بھی نہیں کی گئی ہے۔

ان کے مطابق اس واقعے سے جڑے شواہد طاقت کے استعمال کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے غیرقانونی رویے سے متعلق کوئی ثبوت دیکھا نہ پڑھا۔

جنرل کارلیٹن سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ جنگ کے دوران غمزدہ کر دینے والے نتائج کے باوجود اس واقعے میں ان کے خیال میں متعلقہ قواعد کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے یعنی جب جان کو خطرہ ہو تو پھر ’رُولز آف انگیجمنٹ‘ کے تحت بھرپور طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تاہم وزارت دفاع کی طرف سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ حسین اور رقیہ کے گھر پر اسلحہ موجود تھا یا جب انھیں قتل کیا گیا تو وہ مسلح تھے۔

افغانستان

ایس آئی آر رپورٹس کمانڈنگ افسران کو اس واقعے پر یہ رہنمائی فراہم کر رہی تھیں کہ اس پر فیصلہ لیں کہ آیا اس پر ملٹری پولیس کو مدعا بھیجنا ضروری ہے یا نہیں۔

مگر ایک سابق آر ایم پی کے افسر جو شیش ابا کے چھاپے کے وقت ملازمت میں تھے نے بی بی سی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان رپورٹس کے استعمال کے بارے میں افواج میں بہت سنگین نوعیت کے مسائل پائے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق بجائے اپنے مجرمانہ رویے کو درست کرنے کے ایس ایس آئی آرز رپورٹس ایسے غلط اقدامات کو درست قرار دے کر پیش کرنے کا جواز پیش کرتی ہیں۔

ان کے مطابق ’کچھ سینیئر افسران ان ایس آئی آرز کو احتساب سے بچنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی ایسا واقعہ ملٹری پولیس کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر اپنے فیصلوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایس آئی آر لکھتے ہیں۔‘

سینیئر افسر کے مطابق یہ مسئلہ بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ لیکن یوکے سپیشل فورسز ایسے واقعات کو تحقیقات کے لیے ملٹری پولیس کو نہ بھیجنے جیسی شہرت رکھتی ہیں۔

بی بی سی نے ایسے تین مواقع کی نشاندہی کی ہے جب سپیشل فورسز کی طرف سے کوئی ایس آئی آر لکھی گئی مگر وہ رائل ملٹری پولیس کو نہیں بھیجی گئی۔

ان کے مطابق ’سپیشل فورسز میں معاملات کو دبانے کا رواج زیادہ ہے جبکہ کوئی نگرانی کا مؤثر عمل میں موجود نہیں ہے۔‘

رائل ملٹری پولیس کے ایک سابق تفتیش کار نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس بات پر حیران نہیں ہیں کہ شیش ابا والا واقعہ پولیس کو نہیں ریفر کیا گیا۔ اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس بات پر حیرانگی نہیں ہوئی ہے کہ کمانڈنگ افسر نے پولیس کو یہ معاملہ نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘ ان کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ اس معاملے کو دیکھا جانا چاہیے تھا۔

بی بی سی کے سوالات کے بعد اپنے ایک حالیہ جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے آر ایم پی کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس کا قطعاً مطلب یہ نہ لیا جائے کہ یہ واقعہ غیر قانونی ہے یا برطانوی افواج برطانوی پولیس کو باخبر رکھنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ تاہم، ان کے مطابق ان تمام امور کو جائزے میں مدنظر رکھا جائے گا۔

وزارت دفاع نے کہا ہے کہ یہ برطانوی حکومتوں کی پالیسی رہی ہے کہ سپیشل فورسز کے معاملات پر کوئی تبصرہ نہ کیا جائے اور یہ کہ تمام برطانوی فوجی آپریشنز برطانوی، بین الاقوامی قوانین اور ’لا آف آرمڈ کنفلیکٹ‘ کے عین مطابق کیے گئے ہیں۔

بی بی سی نے وزارت دفاع سے پوچھا کہ کسی کو کبھی شیش ابا واقعے پر کوئی ضابطے کی سزا دی گئی یا نہیں مگر انھوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

جب اس دن نمروز میں صبح ہوئی تو ہیلی کاپٹرز جو اپنے فوجی اڈے پر پہنچے تو ان میں زخمی عمران اور بلال کو بھی لایا گیا تھا۔ سپیشل فورسز حسین کے سب سے چھوٹے 12 برس کے بھائی رحمت اللہ کو بھی ساتھ لے کر آئیں۔

رحمت کو اس چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا اور انھیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ وہاں کیا ہوا۔ جب ہیلی کاپٹر سے باہر ان کی آنکھوں سے پٹی اتاری گئی تو انھوں نے اپنے نوجوان بھتیجوں کو دیکھا۔ عمران ہوش و حواس میں تھا اور چِلا رہا تھا۔ رحمت نے وہ وقت یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شدید کرب میں مبتلا تھا۔

ان لڑکوں کو علیحدہ فوجی اڈوں پر بھیج دیا گیا۔ اس وقت عمران کی عمر محض تین برس تھی۔ انھوں نے اپنی صحت یابی کا پہلا مرحلہ اکیلے ہی گزارا۔ اس کے بعد انھیں وہاں سے منتقل کیا گیا اور انھیں ان کے دادا عبدالعزیز اور دادی ماح بی بی کے پاس لے جایا گیا تا کہ وہ ان لڑکوں کو تسلی دے سکیں اور یہ سمجھا سکیں کہ ان کے والدین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

عبدالعزیز کے مطابق وہ اتنے چھوٹے تھے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے کے قابل نہیں تھے۔ ان کے مطابق عمران زیادہ چلاتا تھا، ممکن ہے کہ درد کی وجہ سے ہو، مگر شاید یہ بھی وجہ ہو کہ انھیں پتا چل چکا ہو کہ ان کی ماں اب زندہ نہیں ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا برطانوی سپیشل فورسز نے معصوم افغان بچے قتل کیے؟

برطانوی سپیشل فورسز نے افغانستان میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا: بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ

افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم: ’سینیئر برطانوی فوجی افسران نے غیرمسلح افغان باشندوں کو قتل کرنے کے شواہد چھپائے‘

عبدالعزیز کو ملٹری ہسپتال میں زخمی بچوں کے لیے معاوضے کی پیشکش کی گئی مگر انھوں نے یہ رقم لینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے اس وقت قاتلوں سے فائدہ لینے سے انکار کیا، انھوں نے ہماری دنیا تباہ کر دی۔‘

جب ان لڑکوں کو ہسپتال سے گھر بھیج دیا گیا تو ان کے دادا دادی انھیں واپس اپنے گاؤں لے گئے۔ اس وقت سے وہ اپنی بڑی بہن ہاجرہ کے ساتھ اس گاؤں میں ہی رہ رہے ہیں، جہاں انھیں گولیاں ماری گئی تھیں۔

انھیں اس رات یا اس کے بعد والے ہفتوں سے متعلق اب کچھ یاد نہیں ہے۔ مگر جب سے وہ واپس آئے ہیں عمران رات کو نیند میں چلانا شروع کر دیتا ہے اور گھر سے باہر نکل کر نیند میں چلنا شروع کر دیتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو میں سو رہا ہوتا ہوں اور میرے دادا دادی مجھے واپس گھر لے کر آتے ہیں۔

عمران اب 13 برس کا ہے۔ اس کے دھڑ کے اگلے حصے میں زخم کا ایک بڑا نشان ہے اور گولیوں کے نشانات اس کے پیٹ کے بائیں جانب اور اس کی کمر کے نچلے حصے میں واضح ہیں۔

اس کے دھڑ کے اندر گولیوں کے ٹکڑے موجود ہیں، جن میں سے ایک بڑا ٹکڑا کمر کی ہڈی میں پیوست ہے۔ اپنے پیٹ اور پشت پر گولیوں کے ان نشانات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جسم کے اندر رہ جانے والے گولیوں کے ٹکڑوں سے مجھے درد محسوس ہوتا ہے اور مجھے اپنے معدے میں درد محسوس ہوتا ہے۔‘

’مجھے سردیوں میں زیادہ درد محسوس ہوتا ہے اور جب گرمیاں آتی ہیں تو مجھے سکون مل جاتا ہے۔‘

بلال اب 11 برس کا ہے۔ اس کے چہرے پر گولی کا نشان ہے، جس نے ان کی بائیں آنکھ کے انتہائی قریب سے انھیں ہدف بنایا تھا۔

اس کے کندھے پر بھی ایک ایسا نشان ہے، جہاں ایک اور گولی انھیں لگی تھی اور اس سے ان کی ہڈی میں گولی کا ایک ٹکڑا پیوست ہو گیا تھا۔ بلال جب اپنے بازو کو زیادہ استعمال کرتا ہے تو اسے درد محسوس ہوتا ہے۔ بلال کے چہرے پر جہاں پر گولی کا نشان ہے وہ یہ بات یاد دلاتا ہے کہ وہ موت سے کتنے قریب تھے۔

یہ لڑکے اب ہر صبح کچھ دیر کے لیے پڑھائی کی غرض سے ایک مدرسے کا رخ کرتے ہیں۔ مگر وہاں قریب میں ایسا کوئی سکول نہیں ہے، جہاں یہ کُل وقتی تعلیم حاصل کر سکیں۔

عمران کو پڑھنے میں لطف آتا ہے۔ بلال اس متعلق ذرا کم سنجیدہ ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے سکول پسند نہیں ہے۔ وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کھیلنے کو پسند کرتا ہے۔ اکتوبر کی ایک ٹھنڈی شام کو دونوں بھائیوں نے اپنے گھر کے صحن میں ماربل (بنٹے) کھیلے اور وہ ایسے دکھائی دے رہے تھے جیسے وہ اپنی ہی چھوٹی سی دنیا میں مست ہیں۔

اس جگہ سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک شہتوت کا درخت تھا جہاں ان کے والدین مارے گئے تھے۔
اس شہتوت کے درخت کے دونوں اطراف دو بیر کے درخت ہیں، جو عمران اور بلال نے قتل ہونے والے اپنے پڑوسیوں محمد ولی اور محمد جمعہ کی یاد میں لگائے گئے ہیں۔

عمران اور بلال اپنے والدین کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے۔ انھیں حسین اور رقیہ کے بارے میں کچھ زیادہ یاد نہیں ہے۔

عمران کا کہنا ہے کہ ’کاش ہماری ماں اور والد آج ہمارے ساتھ ہوتے تاکہ ہم شہر میں جا کر گھوم پھر سکتے اور دوسرے بچوں کی طرح لطف اندوز ہو سکتے۔‘

یہ ایک غریب خاندان ہے اور ایک دہائی قبل ہسپتال سے آنے کے بعد ان بچوں کے پاس علاج معالجے کے بھی بہت محدود وسائل ہیں۔ حالیہ دنوں میں یہ دونوں بھائی بی بی سی کی طرف سے طبی معائنے کے لیے اپنے گاؤں سے چھ گھنٹے کی مسافت پر لشکر گاہ میں ایک ٹراما سنٹر گئے۔

ان کے ایکسرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گولیوں کے ٹکڑے ابھی بھی ان کے جسموں میں پیوست ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ ان لڑکوں نے ان ٹکڑوں کو دیکھا ہو۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب محفوظ طریقے سے عمران کے دھڑ سے ان بلٹ کے ٹکڑوں کو نکالنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا انھیں اب ان ٹکڑوں کے ساتھ ہی جینا ہے۔ سرجن کا کہنا تھا کہ ’یہ خوش قسمت ہیں کہ یہ زندہ ہیں۔‘

جب ان بچوں کا طبی معائنہ ہو رہا تھا تو عبدالعزیز خاموشی سے ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ تھامے ہوئے تھے بالکل اسی طرح جس طرح دس برس قبل وہ ان کے ساتھ ایک اور ہسپتال میں بیٹھے تھے، جب وہ بہت چھوٹے تھے۔ اب عبدالعزیز یہ جانتے ہیں کہ ان بچوں کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری ہے۔

حسین اور رقیہ کی ایران کے شہر زیدان میں سنہ 2006 میں گرمیوں میں شادی ہوئی تھی، جہاں رقیہ کا خاندان رہائش پذیر تھا۔ افغانستان کے گاؤں میں جشن کا سا سماں تھا اور جب رخصتی کا دن آیا تو عبدالعزیز تقریباً سو اور باراتیوں کے ہمراہ تقریب کے لیے سرحد کے اس طرف ایران گئے۔

جب چند دن بعد وہ نئے دلہا اور دلہن کے ساتھ واپس لوٹے تو گاؤں میں عید جیسی خوشیاں منائی گئیں۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے کھانے کے لیے جانور ذبح کیے گئے۔ جن کے پاس نئے کپڑے تھے انھوں نے وہ پہنے، جن کے پاس نئے کپڑنے نہیں تھے انھوں نے اپنے اچھے لباس پہنے۔ عبدالعزیز اس تقریب کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہر ایک دن کے لیے بہت خوشی کا لمحہ تھا۔

ان کے مطابق ’اس دن سے وہ رقیہ کو اپنی بیٹی کہہ کر پکارتے تھے۔‘
حسین نے اس کے بعد اپنی ایک چھوٹی سے کریانہ کی دکان کھول لی تھی۔‘

رقیہ حافظہ قرآن تھیں اور وہ مقامی بچوں کو مذہبی تعلیم سے آراستہ کرتی تھیں۔ ان کی شادی کے کچھ عرصے بعد ان کے ہاں ان کی بیٹی ہاجرہ کی پیدائش ہوئی۔ اس کے بعد عمران پیدا ہوئے اور پھر ڈیڑھ برس بعد بلال کی ولادت ہوئی۔

حسین اب ایک خاندان کے سربراہ بن چکے تھے اور اپنی نئی حییثیت میں وہ خاندان کے نان نفقے کے بھی ذمہ دار تھے۔

وہ اپنا پیسہ اپنے بہن بھائیوں پر بھی خرچ کرتے تھے۔ پہلے انھوں نے ان کی تعلیم کے اخراجات اٹھائے اور پھر ان کی شادیاں بھی کرائیں۔ ان کے چھوٹے بھائی منصور کا کہنا ہے کہ ’وہ ہماری ایک مضبوط طاقت تھے۔ جب وہ زندہ تھے، ہمیں کسی بھی چیز کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔‘

جب حسین کو مارا گیا تو اس کے بعد عبدالعزیز کو دوبارہ محنت مزدوری کی طرف لوٹنا پڑا۔ اب 55 برس کے عبدالعزیز اپنا دن زراعت کے لیے نہر کھودنے میں گزارتے ہیں، جس کا انھیں ایک دن کا معاوضہ 200 افغانی یعنی دو پاؤنڈ سے بھی کم ملتا ہے۔ اب انھیں ان لڑکوں کے زخموں کے بدلے معاوضہ نہ لینے کا دکھ ہے۔

اب اگر انھیں اس معاوضے کا کہا جائے تو وہ اسے قبول کر لیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب میں ضعیف العمر ہوتا جا رہا ہوں اور اب میرے لیے کام کرنا اور بچوں کا نان نفقہ پورا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

عبدالعزیز ایک وقت پر روزانہ اس قبرستان کا رُخ کرتے ہیں جہاں ان کے بیٹے حسین اور بہو رقیہ مدفون ہیں۔ حسین کی ماں ماح بی بی اکثر ان کے ساتھ قبرستان جاتی ہیں۔ وہ اس قدر دکھی ہو جاتی ہیں کہ وہ ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو گئیں، جس کیفیت سے وہ باہر نہیں نکل سکی ہیں۔

اسی وجہ سے اب وہ اکثر قبرستان نہیں جا پاتی ہیں۔ عبدالعزیز بھی اس کیفیت کا شکار ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بھی تھک چکے ہیں۔ مگر ہر جمعے کو وہ ایک کلومیٹر دھول والے رستے پر پیدل چلتے ہیں، جو گاؤں سے قبرستان تک جاتا ہے۔

ان کا بیٹا اور بہو اس قبرستان کے اس خاص حصے چار دیواری والے حصے میں مدفون ہیں جہاں ایسے لوگوں کی قبریں ہیں جو غیر ملکی افواج کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

اس جگہ پر کل آٹھ قبریں ہیں۔ ان میں سے دو قبریں حسین اور رقیہ کی ہیں۔ دو قبریں محمد ولی اور محمد جمعہ کی ہیں۔
ہر ہفتے کی طرح گذشتہ جمعے کو بھی عبدالعزیز نے اس قبرستان کا رُخ کیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد جب سورج غروب ہوتا ہے، تو اس وہ اس وقت بھی حسین اور رقیہ کی قبروں کے پاس بیٹھے ان کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ وہ اپنے بیٹے سے ہم کلام بھی ہوئے۔

دعا کے بعد عبدالعزیز نے بتایا کہ ’میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ مجھے آپ بہت یاد آتے ہیں، اور مجھے وہ ابھی بھی اس طرح یاد ہے جب وہ چھوٹا سے بچہ تھا‘۔
انھوں نے قبر کے پاس کوئی لفظ نہیں بولا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں اس کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہیں کرتا ہوں، میں اس سے اپنے دل میں بات کرتا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments